گلف نیوز نے 8 جولائی 2001ء کو سعودی ذرائع سے ملنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ''جدہ میں 30 ہزار مربع میٹر پر 122 ملین سعودی ریال کی لاگت سے شریف فیملی‘ جو پاکستانی حکومت اور سعودی عرب کے مابین ایک معاہدے کے تحت دس سالہ جلا وطنی پر جدہ کے سرور پیلس میں مقیم ہے‘ ایک بہت بڑی سٹیل مل لگانے جا رہی ہے‘‘۔ پہلے کہا گیا تھا کہ اس سٹیل مل کیلئے تمام سہولتیں اور عملہ پاکستان سے لیا جائے گا لیکن بعد میں اچانک یہ سب ارادے تبدیل کر دیے گئے اور اس سٹیل مل کیلئے سجن جندال کی امداد حاصل کی گئی۔ یہ فیصلہ اچانک کیا گیا یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ تھی‘ یہ جاننے اور اس پر مزید کچھ کہنے سے پہلے یکم جنوری 2016ء کو Aditi Phadnis کی بزنس سٹینڈرڈ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے اس فقرے کی کوئی تردید کر دے کہ جاتی امرا میں جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور سجن جندال فیملی مریم نواز کی بیٹی کی شادی میں شرکت کیلئے آئے تو انہوں نے نواز شریف سے گلے ملتے ہوئے کہا ''اب تو یہاں آنا جانا لگا رہے گا‘‘ جس پر میاں نواز شریف نے کہا ''یہ تو اب آپ کا اپنا گھر ہے‘‘۔ بھارت سے فنڈز کس نے لئے‘ کشمیر پر خاموشی کس نے اختیار کئے رکھی‘ آزاد کشمیر میں کھڑے ہو کر کس نے کہا تھا ''ہمسایہ ملک میں دہشت گرد اِس پار سے بھیجے جاتے ہیں‘‘ یہ کہہ کر کسے خوش اور کسے بدنام کیا گیا‘ یہ سمجھنے والے سمجھ چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن نے گرج دار لہجوں میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور پی ٹی آئی پر اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ کے الزامات عائد کیے تو عمر کوٹ میں بلاول بھٹو ان کی تائید میں گرجتے برستے رہے۔ تحریک انصاف نے اسرائیل اور بھارت سے فنڈز لئے یا نہیں یہ کیس تو اب الیکشن کمیشن میں ہے لیکن مریم نواز صاحبہ کے بھائی حسین نواز کی جدہ میں لگائی گئی العزیزیہ سٹیل مل کی مکمل تنصیب بھارت کے R.U Sethi نے کی‘ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ سٹیل مل کے لیے ایک بھارتی کا انتخاب کیوں اور کس کے کہنے پر ہوا؟ آر یو سیٹھی کے علاوہ ''دوشی‘‘ اور ''Danieli‘‘ کے نام بھی ہیں جن کے متعلق تو کسی کو بتانے کی ضرورت بھی نہیں کہ ان کا تعلق بھارت کی کس ایجنسی کے ایکسٹرنل ونگ سے ہے۔ یہ خبر شاید بہت سے افراد کے لیے چونکا دینے والی ہو گی کہ آر یو سیٹھی کا تعلق بھارت کے ایک ایسے صنعتی ٹائیکون سے ہے جس کا پچھلے دورِ حکومت میں کبھی مری تو کبھی جاتی امرا آنا جانا لگا رہتا تھا اور مودی سے اس کا یارانہ اور بھارت کے خفیہ اداروں سے تعلق دنیا بھر کے سفارتی اور انٹیلی جنس حلقوں کے لئے کوئی راز نہیں۔ قریب بیس برس قبل یہ خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ میاں نواز شریف جدہ میں جو سٹیل مل لگا رہے ہیں‘ اس میں کام کرنے والوں عام ورکر سے لے کر بڑے انجینئرز تک‘ سٹاف میں سے کسی ایک کا تعلق بھی پاکستان سے نہیں ہے‘ سب کے سب بھارت سے بلائے جا رہے ہیں۔
Danieli اور دوشی نام کی بھارت کی ان دو کمپنیوں کو مبینہ طور پر حسین نواز کی جانب سے لاکھوں امریکی ڈالرز کی ادائیگیاں کی جا چکی تھیں، ان کے علاوہ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ سٹیل کے کاروبار سے وابستہ RU Sethi‘ جس سے متعلق بھارتی چیمبر آف کامرس اور سفارتی ذرائع را سے گاڑھی دوستی اور تعلقات کے حوالے دیتے ہوئے بہت سی ان کہی کہانیاں سناتے ہیں‘ بتاتے ہیں کہ اس نے جدہ میں شریف خاندان کی العزیزیہ سٹیل مل کو رننگ کنڈیشن میں لانے کیلئے بھرپور معاونت فراہم کی ۔ بعض بھارتی کمپنیوں کا تعلق بھارت کے دفاعی اداروں کے تجارتی ذرائع سے ہے اور یہی وہ افراد اور کمپنیاں تھیں جنہوں نے‘ میری معلومات کے مطابق‘ حسین نواز کی سٹیل مل کیلئے مشینری اور درکارEquipments بھارت اور دنیا کے چند دوسرے ممالک سے منگوا کر نہ صرف معاونت فراہم کی بلکہ اس کیلئے ہر قسم کے خام مال اور درکار دیگر آلات اور سامان کی ترسیل کا سلسلہ بھی جاری و ساری رکھا۔
یکم جولائی 2009ء سے17 اگست 2010ء کے دوران HME Reciept and Payments اکائونٹس دیکھنے کے بعد ایک پاکستانی اپنا سر پکڑ کر رہ جاتا ہے کہ سابق وزیراعظم کے صاحبزادے اور بھارت کی مختلف کمپنیوں کے درمیان اس قدر بھاری رقوم کا لین دین کس طرح اور کیونکر ہوتا رہا؟ اس سلسلے میں ایک ایک تفصیل دینا تو مشکل ہے کیونکہ کالم میں الفاظ کی پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ یہی وجہ ہے کئی دفعہ تحریر نامکمل سی دکھائی دیتی ہے، البتہ چند ایک حوالے پیش خدمت ہیں۔ ایک بینک کو حسین نواز کی جانب سے لکھا گیا ایک خط‘ جس کے تحت‘ بھارت کی کمپنی Inductotherm کے احمد آباد گجرات کے رہائشی کشور بھائی کے اکائونٹ میں 8لاکھ 25ہزار امریکی ڈالر ٹرانسفر کئے گئے، یہ پیمنٹ انوائس اس وقت ثبوت کی صورت میں حکومت پاکستان کے پاس بھی موجود ہے۔ مریم صفدر صاحبہ آج پی ٹی آئی پر اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ کی بات پر خوب واویلا کر رہی ہیں‘کیا ہی اچھا ہو کہ دوسروں پر الزام لگانے سے پہلے وہ سعودی Hollandi بینک کی وہ Advice ہی دیکھ لیں جس کے تحت بھارت کےAXIX Bank For OCL کی جانب سے فراہم کی جانے والی تفصیلات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کس بل کے تحت کتنی رقم حسین نواز کو بھیجی گئی اور پھر کس نے یہ رقم وصول کی۔
علاوہ ازیں العزیزیہ سٹیل اور ہل میٹل سے وابستہ مینجمنٹ رپورٹ کی تفصیلات دیکھیں جس کے مطابق Melting Expansion project کیلئے 35 ملین سعودی ریال ادا کرنے کے بعد بھارت کا تیار کردہ Inductotherm Furnace and Danieli caster جدہ‘ سعودی عرب در آمد کیا گیا۔ سعید غنی‘ جن کے متعلق جے آئی ٹی میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے دورانِ تفتیش بار بار پوچھا جاتا رہا کہ ان سے آپ کا کیا تعلق ہے؟ کیا ان سے آپ کی کوئی بہت قریبی رشتہ داری ہے؟ اس پر میاں صاحب کچھ لمحے تک یہ بتانے سے قاصر رہے کہ سعید غنی کون ہیں لیکن بالآخر انہیں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ وہ ان کے خالو تھے انہی سعید غنی کی HME کیNIKKO Systems ممبئی کے ساتھ کی جانے والی وہ خط و کتابت ایک ایسا ثبوت ہے جس میں ممبئی سے حسین نواز کی ہل میٹل اور العزیزیہ سٹیل مل کیلئے منگوائے گئے ایک ایک سامان کی تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کی ایک ایک تفصیل دیکھنے کیلئے ان سٹیل ملوں کی مینجمنٹ رپورٹ دیکھیں تو ثابت ہوجائے گا کہ حسین نواز کے سعودیہ میں یہ دونوں یونٹ سائوتھ افریقہ کے یہودیوں اور بھارتیوں کے ہی مرہونِ منت رہے ہیں۔
ہندوستان کی اہلی سٹیل کمپنی کی 23 اگست 2001ء کو العزیزیہ سٹیل مل کو جاری کی جانے والی انوائس‘ جس کے تحت ری رولنگ مل فروخت کی گئی اور جس پر العزیزیہ سٹیل کی تنصیب کے روح رواں آر یو سیٹھی کے دستخط موجود ہیں‘ بہت سے راز فاش کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز جب وزیراعظم کو یہودی فنڈڈ کہتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی بیان کر دیا کریں کہ جو اپنی جدہ میں لگائی جانے والی ہل میٹل سٹیل مل کیلئے بھارت اور سائوتھ افریقہ کی مخصوص کمپنیوں اور اداروں سے ہر قسم کی مشینری اور دیگر پرزہ جات سمیت درکار تمام سامان درآمد کریں اور جو عام ورکر سے لے کر انجینئرز تک پاکستان کے بجائے بھارت سے لیں‘ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟