''تقدیر اور تدبیر‘‘ کے پہلے حصے میں درج حوالے‘ جن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت، میثاقِ جمہوریت اور جدہ کے سرور پیلس میں میاں نواز شریف اور ان کی فیملی سے بی بی کی ملاقات سے بھی دو برس قبل آصف علی زرداری کے بیان‘ کہ وہ قومی حکومت کی تشکیل چاہتے ہیں اور ملک کے بااختیار وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں گے‘ کسی فرضی تحریر کا حصہ نہیں تھے۔ یہ حصہ قارئین کو بہت حیران کر رہا ہے۔ میرا یہ کالم شائع ہونے سے اب تک‘ قارئین اور ناقدین کی جانب سے بے تحاشا سوالات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن راقم چونکہ تمام ریکارڈ اور ریفرنسز اپنے قارئین کے سامنے رکھ چکا ہے‘ جسے چند سخت ناقدین نے کنفرم بھی کر دیا ہے‘ اس لئے سازشی تھیوریوں سے قطع نظر‘ محترمہ کی شہا دت اور زرداری صاحب کا اقتدار سنبھالنا تقدیر کا لکھا ہی کہا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بجائے نواز لیگ کے سوشل میڈیا سیل والے ان معلومات پر سب سے زیادہ سیخ پا ہو رہے ہیں‘ جس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ شاید یہ لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی زندہ باد کے لگائے گئے نعروں کا اثر ہے۔ کچھ لوگوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دبئی سے کراچی آمد کے موقع پر کارساز کے مقام پر ہونے والے بم دھماکوں کے بارے بھی سوالات اٹھائے ہیں‘ اب ان خونیں دھماکوں کے متعلق تفصیلات تو تفتیشی ادارے ہی بتا سکتے ہیں یا گزشتہ بارہ‘ تیرہ برسوں سے پی پی پی کی سندھ میں بلا شرکت غیرے حکومت اس حوالے سے حقائق اور مجرمان کو سامنے لا سکتی ہے؛ تاہم اس حوالے سے کچھ حقائق اور ریکارڈ جو میرے علم میں ہیں‘ پیش کیے دیتا ہوں۔ 21 اکتوبر2007ء کو رات آٹھ بجے ایک نجی چینل کے کراچی سٹوڈیو میں چار مہمان بیٹھے تھے‘ جن میں پیپلز پارٹی کے مرکزی نوید قمر، لیاری سے پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول، مسلم لیگ ق کی محترمہ راحیلہ ٹوانہ ڈ پٹی سپیکر سندھ اسمبلی اور چوتھے صاحب کا تعلق کراچی کی ایک سماجی تنظیم سے تھا۔ یہ سب افراد ایک ٹی وی ٹاک شو میں شریکِ گفتگو تھے۔ چاروں شرکا 18 اکتوبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد کراچی آمد پر ان کے فقید المثال استقبال اور تاریخی جلوس میں انسانوں کے سمندر کی صورت میں رواں دواں ریلی پر کارساز کے مقام پر ہونے والے بم دھماکوں پر اپنے اپنے خیالات اور معلومات کا تبادلہ کر رہے تھے۔ دورانِ گفتگو ایک صاحب کی زبان سے ایک ایسی بات نکل گئی جس نے سب کو چونکا دیا۔ یہ پروگرام دن اور رات میں دو دفعہ نشر کیا گیا تھا اور جس دن یہ پروگرام آن ایئر ہو رہا تھا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے کراچی میں تاریخی استقبال پر بم دھماکوں کو تیسرا دن تھا، 140 سے زائد قیمتی جانیں کارساز دھماکوں میں ضائع ہوئی تھیں جبکہ پانچ سو سے افراد زائد اس سانحے میں زخمی ہوئے تھے، اس قومی سانحے سے پورا ملک کئی دن تک سوگ میں ڈوبا رہا تھا۔
جناب نبیل گبول کا شمار اس وقت پیپلز پارٹی کے اہم ترین اور محترمہ کے انتہائی وفادار ساتھیوں میں ہوتا تھا، لیاری کی ''جان نثارانِ بے نظیر‘‘ پر مشتمل خصوصی سکیورٹی فورس انہی کی نگرانی میں بنائی گئی تھی۔ انہوں نے اس پروگرام میں انکشاف کرتے ہوئے کہا ''جب پہلا خودکش حملہ آور قریب آیا تو ہمارے آدمیوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی جس پر اس نے اپنی خود کش جیکٹ پھینک دی؛ تاہم اسے دیکھتے ہوئے دوسرے خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔ یہ گفتگو اور اس کی مکمل ریکارڈنگ مذکورہ نجی چینل کے ریکارڈ روم میں موجود ہو گی، جسے آج بھی ہر کوئی سن سکتا ہے۔ ایک طرف نبیل گبول جو محترمہ کی سکیورٹی پر مامور تھے‘ اس بات کا ایک ٹی وی چینل پر برملا اقرار کر رہے تھے کہ یہ خودکش حملہ تھا اور دوسری طرف پارٹی کے دوسرے مرکزی رہنما ہیں‘ جن کی طرف سے 18 اکتوبر سے لے کر اب تک ان دھماکوں کو ریموٹ کنٹرولڈ اور پلانٹڈ بم دھماکے کہا جاتا رہا ہے۔ کبھی کہا گیا کہ یہ دھماکا پولیس کی گا ڑی میں ہوا اور کبھی ایک کار کا حوالہ دیا گیا‘ جس میں بارودی مواد تھا۔
میرے دونوں کالموں کا تعلق چونکہ 2004ء میں کی گئی جناب آصف علی زرداری کی اس پیش گوئی سے ہے جس میں انہوں نے آئندہ پیپلز پارٹی کی قیادت میں قومی حکومت کا ذکر کیا تھا‘ لہٰذا اس ''قومی حکومت‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا ہر رکن جانتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس وقت کی حکومت کو لکھے گئے اپنے خط میں جن چند لوگوں پر الزام عائد کیا تھا اس میں ایک نام چودھری پرویز الٰہی کا بھی تھا‘ جنہیں بعد ازاں زرداری صاحب کی حکومت میں ڈپٹی وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔ محترمہ کے خود پر ممکنہ حملے کے خدشے کے حوالے سے پرویز مشرف کو لکھے گئے خط اور زرداری صاحب کے بیان کے فوری بعد اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان پر الزام لگا دیا کہ ''پاکستانی ایجنسیاں پنجاب میں سکھوں کی تحریک آزادی کو دوبارہ منظم کر رہی ہیں تاکہ بھارتی پنجاب کے علاوہ کشمیر اور بھارت کے دوسرے حصوں میں کارروائیاں کی جا سکیں‘‘۔ بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نرائن نے محترمہ کے پاکستان آنے سے پہلے بیرونی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ الزامات بھی لگائے کہ ''جالندھر، مکہ مسجد اور اجمیر شریف کے بم دھماکوں میں پاکستان ملوث ہے‘‘ حالانکہ بعد میں آئی جی پولیس ممبئی ہیمنت کرکرے کی تفتیش نے ثابت کر دیا کہ ان دھماکوں میں سادھوی پرگیا، کرنل پروہت اور میجر رمیش پر مشتمل ''وشوا ہندو پریشد‘‘ اور انتہا پسند ہندو گروہ ملوث تھے۔ بے نظیر بھٹو کے پاکستان آنے سے دو دن پہلے بھارتی وزیر خارجہ کے الزامات اور عالمی میڈیا پر پاکستانی ایجنسیوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم‘ یہ سب کچھ یقینا کچھ خاص معنی رکھتا ہے۔
دیکھا جائے تو 18 اکتوبر کا سانحۂ کراچی کسی ایک پارٹی کے لیے نہیں بلکہ قومی سطح پر ایک بڑا سانحہ تھا۔ یہ کسی ایک پارٹی کی ریلی پر نہیں بلکہ اس ملک کے عوام پر حملہ تھا۔ ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ اگر خدا نخواستہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے ساتھیوں سمیت ان دھماکوں کا نشانہ بن جا تیں تو بی بی کی ممکنہ شہادت کے بعد سندھ سمیت ملک بھر میں ہونے و الی تباہی سے پورے پاکستان میں اس کے ردعمل کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت لاکھوں انسان کراچی میں محترمہ کے ہم قدم تھے۔ پاکستان کے ہر شہر‘ ضلع‘ تحصیل‘ گائوں اور گوٹھ کی ہر گلی محلے میں لڑائیاں مزید خون ریز ہو جاتیں اور صوبائی نفرت کا اژدھا بہت کچھ ہڑپ کر لیتا۔ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ اگر جذبات اور نفرت کی لہر میں بہتے لاکھوں لوگ‘ جو کراچی کی ہر سڑک پر موجود تھے‘ ملک کی نجی، سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو آگ لگانا شروع کر دیتے‘ ہر طرف قتل و غارت کا ایک طوفان برپا ہو جاتا تو کیا ہوتا؟ حالات کنٹرول کرنے کیلئے ملک میں جگہ جگہ غیر معینہ مدت کیلئے کرفیو نافذ کر دیا جاتا اور اگر قانون نافذ کرنے والے سول ادارے صوبائی عصبیت میں بہہ جاتے تو کیا ہوتا؟
میرا تجربہ یہ ہے کہ کسی بھی اندھے قتل کی واردات کے بعد مجرم خود یا اپنے ساتھیوں کے ذریعے موقع واردات پر موجود چھوڑے گئے نشانات مٹانے کی کوشش کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ شواہد کو ایسا رخ دیا جا سکے کہ اس سے اپنے دشمنوں کو پھنسایا جا سکے۔ عمومی طور پر اندھے قتل کا مجرم پولیس یا مدعی پارٹی کو کسی غلط راہ پر لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ کارساز کے سانحے کے بعد متعدد رہنمائوں کی جانب سے پریس کانفرنسیں کی گئیں‘ جس میں سب نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق اس سانحے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تاہم ایک پریس کانفرنس کو ایک نجی چینل دو دن تک مسلسل چلاتا رہا جس میں کہا گیا تھا کہ ''بینظیر بھٹو کو کراچی میں نہیں اترنا چاہئے تھا کیونکہ محترمہ نے اپنے دورِ حکومت میں ایم کیو ایم کو بہت کمزورکر دیا تھا‘‘۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ الفاظ ملک و قوم سے ہمدردی یا محترمہ سے عقیدت کے لئے تھے‘ تو وہ غلطی پر ہے۔