"MABC" (space) message & send to 7575

کشمیر اوروزیر اعظم عمران خان

پانچ فروری کو ایک جانب مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی اور بھارتی تسلط کو آئینہ دکھانے کے لیے وادی کی ہر سڑک اور گلی میں وزیر اعظم عمران خان کی تصاویر اٹھائے مجبور‘ محبوس اور بھارت کی سات ہزار سے زائد فوج اور دو لاکھ پیر املٹری فورسز کی کلاشنکوفوں اور سنگینوں کے سائے تلے محاصرے میں زندگی گزارنے والے کشمیری نوجوان‘ بیٹیاں اور بزرگ غلامی کی زنجیریں توڑنے کیلئے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے ‘ مگر دوسری جانب ہمارے کچھ سیاستدان مظلوم کشمیریوں کی زبانوں سے عمران خان صاحب کے حق میں لگائے گئے نعروں سے بو کھلا کر یک زبان ایک ہی گردان کئے جا رہے تھے کہ عمران خان نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے۔
کاش کوئی ان رہنماؤں کو بتاتا کہ عمران خان صاحب نے گزشتہ برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ''گز شتہ 72 سال سے بھارت کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس اور سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اپنے ہی وعدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر غیر قانونی طور پر قابض ہے‘ گزشتہ سال(2019ء) 5 اگست کو بھارت نے غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر مقبوضہ علاقوں کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کی اور 80لاکھ کشمیریوں کو محصور کرنے کے لیے اضافی فوج تعینات کی‘ جس کی مجموعی تعداد اب 9 لاکھ ہوگئی ہے۔ تمام کشمیری سیاسی رہنماؤں کو قید کر دیا گیا‘ تقریباً 13 ہزار کشمیری نوجوانوں کو اغوا اور ہزاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ مکمل کرفیو لگا دیا گیا اور اس کے ساتھ مواصلاتی رابطے مکمل طور پر معطل کر دیے گئے‘ بھارتی قابض افواج نے پرامن مظاہرین پر پیلٹ گنوں سمیت طاقت کا ظالمانہ استعمال کیا‘ پوری آبادی کو تباہ کرنے سمیت مجموعی سزائیں نافذ کی گئیں اور جعلی مقابلوں میں سینکڑوں بے گناہ نوجوان کشمیریوں کا ماورائے عدالت قتل کیااور تدفین کے لیے ان کی میتیں بھی حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ کشمیری میڈیا اور جنہوں نے آواز بلند کرنے کی جرأت کی ان کو کالے قوانین کے ذریعے باقاعدہ طور پر ہراساں اور خوف زدہ کیا جا رہا ہے‘ اس سب صورتحال کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر ‘ انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندوں کی رپورٹس انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے بیانات میں اچھی طرح سے دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ بین الاقوامی برادری لازمی طور پر ان سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیق کرے اور انسانیت کے خلاف ریاستی دہشت گردی اور سنگین جرائم میں ملوث بھارتی شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو سزا دلوائے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی کارروائیاں بلا خوف و خطر جاری ہیں۔اس ظالمانہ مہم کا مقصد آر ایس ایس ‘ بی جے پی کے جموں و کشمیر کے خود ساختہ حتمی حل کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فوجی محاصرے کے بعد مقبوضہ علاقے کے آبادی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ کشمیریوں کی خصوصی پہچان کو مٹانے کی ایک کوشش ہے تاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونے والے استصواب رائے کے نتائج متاثر کیا جائے۔ یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر‘ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون خاص طور پر چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ علاقے کا آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنا جنگی جرم ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ بہادر کشمیری کبھی بھی بھارتی قبضے اور مظالم کے سامنے نہیں جھکیں گے‘ وہ منصفانہ مقصدکے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے نسل در نسل اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور عوام حق خود ارادیت کے لیے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی جائز جدوجہد میں ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کا ساتھ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے غیر قانونی اقدامات اور مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے جوہری خطے میں پاکستان کے خلاف فوجی جارحیت کو ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان نے بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا کر اشتعال انگیزی اور جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باوجودضبط کا مظاہرہ کیا ہے‘ ہم نے عالمی برادری کو بھارت کی طرف سے جھوٹے فلیگ آپریشن اور ناقص منصوبہ بندی کے تحت کی گئی دوسری کارروائی کے بارے میں مسلسل آگاہ رکھاہے۔جنوبی ایشیامیں اس وقت تک پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک تنازعہ جموں و کشمیر کو عالمی قانونی بنیادوں پر حل نہیں کیا جاتا۔ کشمیر کو درست طور پر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ سلامتی کونسل کو ہر صورت ایک تباہ کن تنازعہ کو روکنا اور اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانا ہوگا جیسا کہ اس نے ایسٹ تیمور کے سلسلے میں کیا تھا۔سکیورٹی کونسل نے گزشتہ سال تین مرتبہ جموں و کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لیاہے۔اس کو ہر صورت مناسب عملی اقدامات اٹھانے چاہیں‘ اس کو بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر نسل کشی کی لٹکتی ہوئی تلوار کو روکنے کے لیے بھی آگے آنا چاہیے‘ پاکستان نے ہمیشہ پرامن حل کی بات کی ہے۔ اس لیے بھارت لازمی طور پر گزشتہ سال (2019ء) 5 اگست کو کئے گئے اقدامات واپس لے‘ فوجی محاصرے اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں کو ختم کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازعہ جموں و کشمیر کے حل کے لیے متفق ہو‘‘۔
2019ء کے جنرل اسمبلی اجلاس میں بھی وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کا مقدمہ اسی پُر اثر انداز اور زور دار الفاظ میں پیش کیا تھا اور متعدد حکمران اور ادارے پاکستان کے وزیر اعظم کے خطاب پر داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ عالمی میڈیا نے بھی جس طرح عمران خان صاحب کے اس خطاب کو سراہا ‘ اس کے نتیجے میں بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے یو این او میں خطاب ہر کشمیری اور پاکستانی کے دل کی آ ٓواز تھے اور پھر واشنگٹن کے جلسہ عام میں بھی جس طرح عمران خان صاحب نے نریندر مودی اور بھارتی فوج کے ظلم و ستم کے پردے چاک کر کے دنیا کو دکھائے یہ سعادت کسی سچے اور کھرے لیڈر ہی کے حصے میں آسکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اگرچہ یہ دعویٰ کیا کہ ان کی دس سالہ کشمیر کمیٹی کی چیئر مین شپ کے دوران بھارت کو ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کر تا اور اب آئے روزایل او سی پر بھارتی فائرنگ اور گولہ باری دیکھی جا رہی ہے۔ یہ بیان اور الزام یقیناآزاد کشمیر کے لوگوں نے بھی سنے اور ٹی وی چینلز پر دیکھے ہوں گے اوران کے سامنے 2009ئسے 2017ء کے ماہ و سال بھی لازمی گھوم گئے ہوں گے‘ جب ان کی کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کے دوران آئے روز بھارت لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں کیا کرتا تھا۔ اگر مولانا صاحب یامسلم لیگ (ن) کے پا س وقت ہو تو امریکہ کے ادارے انسٹیٹیوٹ آف پیس کی رپورٹ دیکھ لیں‘ جس کے مطا بق بھارت نے مولانا فضل الرحمن کی کشمیر کمیٹی کے دس سالہ دور میں لائن آف کنٹرول کی1922خلاف ورزیاں کی تھیں ۔ دوسری جانب اُس دور کے حکمران مودی جی کو دعوتیں دے کر بلاتے تھے۔ بھارت کے خلاف ذرا ذرا سی بات پر اُن کا ناک بھوں چڑھانے کا انداز دیکھئے کہ گزشتہ برس جب پانچ اگست کو مودی ٹولے کی جانب سے آئین کے آرٹیکل370 کوہضم کرنے کے خلاف یوم استحصال کشمیر کے حوالے سے نغمہ ریلیز کیا گیا تو یہی لوگ تھے جو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کشمیر کے سودے کی کہانیاں سنا نا شروع ہو گئے تھے۔ ان سب نے اپنے پروگراموں اور سوشل میڈیا پر دھڑا دھڑ پوسٹیں شیئر کرنا شروع کر دیں کہ کبھی نغمے ریلیز کرنے سے بھی کشمیر مل سکتا ہے‘ حالانکہ یہ نغمہ ریلیز کرنے کا مقصد صرف بھارت کی تذلیل تھی ‘اور کون نہیں جانتا کہ یہی نغمے تھے جنہوں نے1965ء کی جنگ میں پاکستانی عوام اورا فواج میں جوش و ولولے اور حب الوطنی کی ایسی روح پھونک دی تھی کہ پورا پاکستان بھارت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ رہی بات کشمیر کے سودے کی تو بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبد الباسط اور سیکرٹری خارجہ مسز تسنیم اسلم کے وہ انٹرویوزکیوں نہیں سنے جاتے جن میں ان سفارت کاروں نے الزامات عائد کئے تھے کہ میاں نواز شریف بحیثیت وزیر اعظم انہیں مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے منع کیاکر تے تھے۔
عمران خان صاحب پر کشمیر کے حوالے سے الزام تراشی کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ ان کی مقبوضہ کشمیر اور کشمیریوں سے دوستی‘ پیار اور ان کی آزادی کیلئے تڑپ کا سب سے بڑا ثبوت دیکھنے کی کوشش بھی کر لیا کریں کہ کس طرح انہوں نے پاکستان بننے کے 74 برس بعد پاکستان کا نیا نقشہ متعارف کراتے ہوئے گلگت بلتستان اور ریاست جونا گڑھ کو بھی اس نقشے میں شامل کر دیا ۔ اگر74 برس بعد کسی حکمران نے جونا گڑھ کو قومی نقشے میں شامل کر کے بھارت میں کھلبلی مچا دی ہے تو اس پر مودی کے دوستوں اورہمدردوں کو تکلیف تو ہونی ہی تھی۔ نئے قومی نقشے کا کا اجرا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ 18 جولائی کو راقم نے'' الحاق کشمیر کی قرار داد اور کھوٹے سکے‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ہمیں فوری طور پر تمام کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دے دینا چاہئے۔
شکر ہے کہ وہ غلطی جو1947-48ء میں سردار ابراہیم کی درخواست نہ مان کر لیاقت علی خان صاحب کر بیٹھے تھے‘ چار اگست کو وزیر اعظم عمران خان نے اس کی تلافی کر دی ۔ وزیر اعظم عمران خان کو اب برق رفتاری اور انتہائی تیاری سے سفارتی محاذوں پر پاکستان کے اس نئے نقشے کی تشہیر اور عالمی اداروں میں اس کی قبولیت کیلئے میدان عمل میں اترنا ہو گا۔ ان کی راہ میں بھارتی ایجنٹ کانٹے بچھانے کی بھر پور کوششیں کریں گے لیکن انہیں ان سب کو پائوں تلے کچل کا اپنے اس مشن کیلئے آگے بڑھنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں