ایک پرانی حکایت کچھ اس طرح سے ہے کہ دھول مٹی اور زخموں سے چور ایک بوڑھی عورت شہنشاہِ وقت کے دربار پہنچ کر اسے خود پر بیتی جانے والی ظلم و جبر کی داستان سنا رہی تھی کہ بادشاہ نے اپنے وزیر سے اس گائوں سے متعلق پوچھا جہاں کی بوڑھی عورت اپنے گھر، مال مویشیوں کی چوری اور گھر کے افراد کے قتل کی دردناک کہانی سنا رہی تھی۔ بادشاہ نے پوچھا کہ یہ علا قہ کہاں ہے؟ وزیر نے بتایا کہ حضور یہ علاقہ بہت دور کہیں پہاڑوں اور صحرائوں میں واقع ہے۔ اس پر بادشاہ نے اس بوڑھی عورت کو کہا کہ بی بی یہ گائوں بہت دور دشوار گزار فاصلے پر واقع ہے اس لئے فی الحال تمہاری کوئی مدد نہیں کی جا سکتی۔ بوڑھی عورت نے جب بادشاہ کے یہ الفاظ سنے تو تن کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی کہ اگر شہنشاہ سلامت اس جگہ تک نہیں پہنچ سکتے تو پھر ابھی اعلان کر دیں کہ وہ علا قہ ان کی سلطنت میں نہیں آتا اور نہ ہی وہاں رہنے والے افراد ان کی رعایا ہیں تاکہ ہم اپنا کوئی نیا بادشاہ مقرر کر لیں۔ یہ حکایت امریکی وزیر دفاع کے حالیہ بیان سے یاد آ گئی۔ جب امریکا کا وزیر دفاع دنیا بھر کو بتا چکا ہے کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا رہا ہے تو پھر ایف اے ٹی ایف کے پاس بھارت کو بلیک لسٹ میں شامل نہ کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ بھارت کیلئے اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کے قوانین مختلف ہیں اور پاکستان سمیت دوسرے ممالک کیلئے کچھ اور قوانین مقرر کئے گئے ہیں؟ کیا بوڑھی عورت کے گائوں کی طرح‘ بھارت بھی اقوامِ متحدہ، ایف اے ٹی ایف اوردوسرے عالمی اداروں کی حدود میں نہیں آتا؟
جب امریکا اور فرانس سمیت جی سیون ممالک نے ایف اے ٹی ایف کی بنیاد رکھی تھی تو کیا اس کے منشور اور قواعد میں یہ بات درج کر لی گئی تھی کہ بھارت اور اس جیسے دوسرے ممالک کو‘ جن سے عالمی طاقتوں کے معاشی مفادات وابستہ ہوں گے‘ کو فورس کی گرفت میں نہیں لایا جائے گا؟ بھارت دنیا بھر میں جہاں جی چاہے آگ لگاتا پھرے‘ جس قدر چاہے قتل و غارت گری کرے‘ دنیا کے ہر کونے میں دہشت گردی کو نہ صرف فروغ دے بلکہ ہزاروں معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دے، نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور دوسرے ممالک کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرے، کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہو گا؟ آج دنیا کی وہ کون سی ا طلاعاتی اور خفیہ ایجنسی ہے جو یہ نہیں جانتی کہ ریاستی سطح پر بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں نہ صرف دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتا ہے بلکہ ان کی فنڈنگ اور انہیں محفوظ ٹھکانوں سمیت ان کی نقل و حمل اور ٹارگٹ تک پہنچانے کے عمل میں بھی شریک رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے پاس وہ تصدیق شدہ ریکارڈ تمام ثبوتوں کے ساتھ موجود اور محفوظ ہے جس میں بھارت کے دہشت گردی کی تربیت دینے والے 87 کیمپوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
نائن الیون کے بعد جب امریکا اور حامد کرزئی افغانستان میں اپنے قدم مضبوط کرنے کے لیے پہنچے تو نیٹو اور ایساف کے بعد جس ملک کو افغانستان بھر میں واک اوور دیا گیا وہ بھارت ہی تھا۔ پھر بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے حامد کرزئی کی فوج اور اس وقت کی خفیہ ایجنسی خاد اور بعد میں این ڈی ایس کی مدد سے اب تک‘ ایک محتاط تخمینے کے مطا بق پاکستان میں 19 ہزار سے زائد دہشت گردی کی کارروائیاں کرائی ہیں۔ ان میں سے کچھ میں اس کی سپیشل فورسز نے دہشت گردوں کی باقاعدہ رہنمائی کی اور باقی کارروائیوں کیلئے مکمل لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔ یہ سارا کام اس نے کوئی چھپ کر نہیں کیا بلکہ بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کا وہ وائرل لیکچر دنیا بھر کے ریکارڈ میں موجود اور محفوظ ہے کہ ''پاکستان پر فوجی حملہ کرنے کے بجائے ان کے آدمی اپنے ساتھ ملا کر ان میں کروڑوں ڈالر تقسیم کرو، ان کے اندر سے ہی انتہا پسندوں کو ساتھ ملا کر فوج اور عوام کو نشانہ بنائو، یہ سب سے بہتر اور کار آمد حربہ ہے‘‘۔
بھارتی فوج اس کی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان کے اندر کرائے جانے والی دہشت گردی کے نتیجے میں اب تک 83 ہزار شہری شہید ہو چکے ہیں اور ان قیمتی جانوں کے علاوہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو 126 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان کی پولیس، فوج، ایف سی، لیویز اور خاصہ دار فورس کے علاوہ ایف آئی اے اور سکائوٹس پر کئے گئے دہشت گرد حملوں میں دس ہزار سے زائد افسران اور جوان شہید ہوئے۔ کیا ایف اے ٹی ایف کو مزید ثبوت دینے کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ بھارت نے ان دہشت گرد تنظیموں کو کس طرح اور کس قدر فنڈنگ کی؟ کیا امریکا، فرانس اور برطانیہ سمیت روس اور دیگر علاقائی ممالک نہیں جانتے کہ بھارت کے اندر ریاستی سرپرستی میں چلنے والے21 دہشت گردی کیمپس اور محض افغانستان کے مختلف علاقوں میں افغان فوج کی نگرانی میں چلنے والے 66 تخریبی تربیتی مراکز دہشت گردوں کو گوریلا ٹریننگ اور دہشت گردی کی تربیت دے رہے ہیں؟ کیا امریکا اور نیٹو نے افغانستان میں موجود رہتے ہوئے یہ سب کچھ مانیٹر نہیں کیا؟ کیا اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں کو دہشت گردی کے ان کیمپوں کے وجود سے لاعلم قرار دیا جا سکتا ہے؟
دنیا بھر کا میڈیا‘ جو افغانستان اور پاکستان میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہے یا وہ لوگ جو یہاں میڈیا کوریج کیلئے رہ چکے ہیں‘ جن میں الجزیرہ ٹی وی بھی شامل ہے‘ ان سب نے ان دہشت گرد کیمپوں میں بلوچ قوم پرست دہشت گردوں اور تحریک طالبان کے انتہا پسندوں کے انٹرویوز نہیں کئے؟ کیا ان کیمپوں کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا؟ تحریک طالبان پاکستان کے اندر سے مختلف لوگوں کی قیادت میں جو پانچ گروپ علیحدہ ہوئے‘ ان کو بھارت نے دوبارہ کن مقاصد کیلئے یکجا کیا؟ زیادہ دور نہ جائیں‘ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس اگر اس قدر غافل ہیں کہ انہیں افغانستان میں کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تو صرف دو صوبوں کنہار اور ننگرہار کا دورہ کر لیں جہاں دہشت گردوں کے کیمپ بغیر کسی روک ٹوک کے کام کر رہے ہیں، ان دونوں صوبوں میں جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کے دہشت گردوں کی بہت بڑی تعداد اپنے اپنے کیمپس بنائے ہوئے ہے۔ ان دونوں دہشت گرد تنظیموں پر پاکستان میں پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن افغانستان کے دو صوبوں پر ان کی مکمل عملداری ہے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ جب پوری دنیا یہ جان چکی ہے کہ بلوچستان میں بھارت کی فنڈنگ اور تربیت کی وجہ سے گوریلا دہشت گرد تنظیمیں مصروفِ عمل ہیں تو اس پر دنیا کا کوئی قانون لاگو کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جا رہی؟
کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ بھارت کو پاکستان میں کھلم کھلا تخریب کاری اور دہشت گردی کا کھیل رچانے کیلئے امریکا، برطانیہ، فرانس اور یورپی یونین نے اسی طرح فری ہینڈ دے رکھا ہے جس طرح 1980 کی دہائی میں سری لنکا کو توڑنے اور تباہ کرنے کیلئے لبریشن تامل ٹائیگرز ایلام کی سرپرستی کرتے ہوئے دیا گیا تھا؟ کیاستمبر 2001ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پاس کیے گئے قانون اور قرارداد 1372 کا بھارت پر اطلاق نہیں ہوتا؟ کیا سکیورٹی کونسل نے یہ عزم کیا تھا کہ بھارت پر اس قراردار کی پابندی ضروری نہیں اور یہ صرف سوڈان جیسے ممالک کے لیے ہی ہے؟ اگر ایف اے ٹی ایف، اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کو مزید ٹھوس ثبوت چاہئیں تو پھر امریکا کے خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز(James Dobbins) کی رپورٹ، برطانوی ڈپلومیٹک کیبلز لیک 2008ء اور UAE کی دہشت گردی سے متعلق 2009ء کی رپورٹ ملاحظہ کر لیں۔ پھر بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کے لیکچرز خود اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کی سنگین اور صریح خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلامیہ کے مطا بق اجیت دوول کی یہ رپورٹ اور انکشافات ''کسی ملک کے اندرونی اور داخلی معاملات‘‘ سے متعلق عالمی قوانین کی نہ صرف واضح اور کھلم کھلا خلاف ورزی ہیںبلکہ یہ لیکچرز ریاستِ بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندر جان بوجھ کر کرائی جانے والی دہشت گردی کا واضح اعتراف بھی ہیں۔