یہ جو دھرنا چند روز قبل اسلام آباد میں ہوا‘ جسے لاپتا افراد کا دھرنا کہا جا رہا ہے‘ درحقیقت پہلے سے ہی پلان شدہ تھا۔ میری اطلاعات کے مطابق اس دھرنے کیلئے ایک معروف سیاسی شخصیت کو خصوصی طور پر اسلام آباد بلایا گیا تھا۔ جیسے ہی مریم نواز صاحبہ نے چند بلوچ خواتین کو بانہوں میں لیا تو یہ وڈیو دنیا بھر میں وائرل کرنا شروع کر دی گئی۔ یادش بخیر! یہی اسلام آباد تھا اور یہی لاپتا افراد کا مسئلہ تھا۔اس حوالے سے ایک تنظیم کی صدر آمنہ مسعود جنجوعہ تھیں‘ جن کو سابقہ دورِ حکومت میں کیمپ لگانے اور دھرنا دینے کی پاداش میں پولیس بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہی تھی۔ آج جو لوگ لاپتا افراد کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں‘ اس وقت اپنے لبوں کو مکمل طور پر سیے ہوئے تھے۔ کیسی عجیب صورتِ حال ہے کہ آج لاپتا افراد کے لواحقین کے ساتھ وڈیو کے جواب میں آمنہ مسعود کی تب کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ میڈیا کے مخصوص ٹولے اور پی ڈی ایم کا بس نہیں چلتا کہ وہ کچھ ایسا کریں کہ جس سے حکومت اور ادارے ان کے سامنے چاروں شانے چت ہو جائیں۔ کیا یہ اتنے ہی بے خبر ہیں کہ انہیں نام نہاد ''لاپتا افراد‘‘ کے معاملے کا علم نہیں؟ اب تک دو درجن سے زائد دہشت گرد‘ جن سے متعلق این جی اوز اور میڈیا کے مخصوص ٹولے کی جانب سے طوفان اٹھایا جاتا رہا کہ انہیں اداروں نے غائب کیا ہے‘ افغانستان اور ایران سمیت عراق اور بھارت سے ''برآمد‘‘ ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ یاد آیا پی ڈی ایم کے کوئٹہ میں ہونے والے جلسے کے دوران مریم نواز صاحبہ کی لاپتا افراد کے لواحقین کے ساتھ ایک تصویر وائرل ہوئی تھی۔ اس تصویر میں مریم نواز صاحبہ ایک بچی کو گلے لگائے ہوئے تھیں جس نے اپنے کسی عزیز کی تصویر پکڑ رکھی تھی‘ جو بقول اس کے لاپتا تھا۔ جب تحقیق کی گئی تو علم ہوا کہ جس شخص کی تصویر ''لاپتا فرد‘‘ کہہ کر پکڑی گئی تھی وہ مبینہ طور پر وہی دہشت گرد تھا جو کراچی سٹاک ایکسچینج حملے میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب لوگ‘ جن کے نام اس وقت سیاسی جماعتوں کی جانب سے اچھالے جا رہے ہیں‘ معصوم ہیں تو پھر بتایا جائے کہ اب تک بلوچستان میں پاکستان کے دس ہزار سے زائد بیٹوں کو کون نگل چکا ہے؟ قریب دو ماہ قبل 26 دسمبر کو قلات کے قصبے سراب ٹائون کے بازار میں کھڑی ایف سی کی گاڑی پر موٹر سائیکل سوار دو دہشت گرد دستی بم پھینک کر فرار ہو گئے تھے جس سے ایف سی کے دو جوانوں سمیت پندرہ افراد شدید زخمی ہو گئے تھے۔ 27 دسمبر کو ہرنائی بلوچستان میں دہشت گردوں کے ایک گروپ نے حملہ کرتے ہوئے ایف سی کے سات جوانوں کو شہید کر دیا تھا۔ جب ان کا پیچھا کیا گیا تو مقابلے میں مارے جانے والے ایک شخص لقمان کی شناخت اورنگی ٹائون کے رہائشی کی حیثیت سے ہوئی، جسے اسلام آباد میں بیٹھا ایک خاص گروہ گزشتہ ایک برس سے لاپتا افراد کی فہرست میں شامل کئے ہوئے تھا۔ سریاب روڑ کوئٹہ پر کھڑی ایک مسافر بس کو 16 جنوری کو دھماکے سے اڑا دیا گیا جس سے چار افراد شہید ہوگئے تھے، یہ دیسی ساخت کا پانچ کلو وزنی بم تھا۔ سبی ڈسٹرکٹ کے سانگان ایریا میں 20 فروری کو فرنٹیئر کور نارتھ ونگ کے سکائوٹس کی گاڑی کو نامعلوم افراد نے بارودی سرنگ سے اڑا دیا جس سے چار جوان شہید اور چار شدید زخمی ہوئے، یہ جوان ایک چیک پوسٹ پر کام کرنے جا رہے تھے۔ ان سب پر حملے کرنے والے کون ہیں؟ کون انہیں بم بنانے کی ٹریننگ دیتا اور حملوں کے لیے وسائل اور ٹارگٹ فراہم کرتا ہے؟ اب تک ایسے حملوں میں جتنے افراد بھی پکڑے یا مارے گئے‘ یہ سب کے سب ''مسنگ پرسنز‘‘ پائے گئے۔
نجانے کیوں کچھ لوگ اداروں پر گند اچھالنا اپنا مشن بنا چکے ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصہ ہوا ہے‘ جب ایک سیاسی جماعت اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائی گئی تو اس ٹولے نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے لاپتا افراد کے نام سے اقوام متحدہ کے ایک گروپ ''Working Group on Enforced or Involuntary Disappearances‘‘ اسلام آباد بلوایا۔ 2012ء میں اقوام متحدہ کے لاپتا افراد سے متعلق اس گروپ کو دعوت دینے والوں کو نجانے کس بات کی جلدی تھی کہ عرصہ دراز سے تیار کردہ فہرست کو نظر انداز کر کے سب سے پہلے صرف پاکستان کا ہی دورہ کرایا گیا۔ بھارت، الجیریا، بیلاروس، برونڈی، کروشیا، مصر، انڈونیشیا، کرغیزستان، لیبیا، روس، نیپال، نکاراگوا، فلپائن، تھائی لینڈ، زمبابوے، ارجنٹائن، سری لنکا جیسے ممالک کی طویل فہرست کو نظر انداز کرتے ہوئے اس گروہ کو نہ صرف پاکستان کی دعوت دی گئی بلکہ اس کے لیے ایک خصوصی پرواز بھی چلائی گئی۔ اسلام آباد ایئر پورٹ اترنے سے پہلے تک تب کی حکومت انکار کرتی رہی کہ اس گروپ کی آمد سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن بعد میں حقیقت واضح ہونا شروع ہوئی تو دبے دبے لفظوں میں اقرار شروع کر دیا گیا کہ اسے حکومت نے ہی آنے کی اجازت دی تھی۔ اس کے چند ہفتوں بعد جنوبی افریقہ کی جیورسٹ Navi Pillay کی سربراہی میں دو رکنی ایک اور وفد پاکستان وارد ہوا۔ بحث اس پر نہیں کہ انہیں کیوں بلوایا گیا تھا لیکن جب بلا لیا گیا تھا تو اس پر لیت و لعل سے کام کیوں لیا گیا؟ کھل کر کیوں تسلیم نہیں کیا گیا کہ اس کے لیے حکومت چھ ماہ سے تیاریاں کر رہی تھی۔ ویسے تو اس طرح کے گروپس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے‘ کچھ حاصل حصول نہیں ہوتا‘ مگر جن لوگوں نے انہیں دعوت دی تھی‘ اس دورے سے انہوں سے بہت سے مقاصد حاصل کر لیے تھے۔
تحریک انصاف کی گورننس پر بات کی جا سکتی ہے لیکن ڈھائی برس کی حکومت میں عمران خان نے ملک کے اداروں اور فورسز کی عزت و آبرو پر نہ تو آنچ آنے دی ہے اور نہ ہی غیر ملکی طاقتوں کے ایما پر اپنے لوگوں پر کیچڑ اچھالا ہے۔ میری نظر میں اسلام آباد میں لگایا گیا مذکورہ کیمپ بھارت کے پاکستان بارے گھڑے گئے جھوٹ اور بہتان تراشیوں کو بڑھاوا دینے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب بھی لاپتا افراد کی بات کی جائے تو صرف بلوچستان ہی کا نام کیوں لیا جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو لاپتا کرانے کی اصل وجوہ سامنے نہیں لائی جاتیں۔ بتایا جائے کہ وہ کون سے ممالک اور کون سی عالمی ایجنسیاں ہیں جو اس وقت بلوچستان میں سرگرم ہیں‘ کن کن ممالک میں ٹریننگ کیمپس قائم ہیں اور نام نہاد بلوچ تنظیموں کو اسلحہ اور فنڈز کون فراہم کرتا ہے۔ جب بھی اس معاملے پر بات کی جاتی ہے، بلوچستان بارے پہلا الزام احساس محرومی کا لگایا جاتا ہے۔ اس وقت نہ حقوق کا مسئلہ ہے اور نہ ہی احساس محرومی کا۔ حقوق کا مسئلہ تو اٹھارہویں ترمیم سے حل ہو چکا ہے، اس ترمیم کی منظوری کے بعد صوبوں کو اتنے اختیارات حاصل ہو چکے ہیں کہ اب وہ اپنے طور پر صوبے کو اپنے قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ وہ انہیں ا ستعمال ہی نہیں کر پاتے تو اس میں قصور کس کا ہے؟ انہیں تو اب یہاں تک اختیارات مل چکے ہیں کہ اپنی جیبیں بھر کر تیل، گیس اور معدنیات کے ٹھیکے غیر ملکی کمپنیوں کو دے دیں اور پیسے لے کردرسی کتابوں میں جو چاہیں مواد شامل کر دیں۔ احساس محرومی اصل میں لوٹ مار کا ایک بہانہ ہے، ایک دہائی سے سینکڑوں بلین روپے بلوچستان کو دیے گئے‘ وہ سب کہاں خرچ ہوئے؟ ایک ایک صوبائی سیکرٹری کے گھر سے اربوں روپے ایسے ہی تو بر آمد نہیں ہو جاتے۔ میری تحقیق یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام کے یہ فنڈز ان کے سردار وں کا کارٹل ہضم کر لیتا ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے عالمی سازشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بہت سے ممالک یہاں بیٹھ کر چین کو گوادر بندرگاہ اور سی پیک کا فائدہ اٹھانے سے روکنا چاہتے ہیں اور اسی مقصد کے حصول کے لیے بلوچستان میں شورش کو ہوا دی جاتی ہے۔