دہلی کی تہاڑ جیل میں جب 26 جنوری کو بھارتی پنجاب اور ہریانہ کے سکھ کسانوں کو گرفتار کر کے لایا گیا تو جیل چکر میں تعینات ہندو اہلکاروں نے ایک نوجوان سکھ کو آٹھ کوڑے مارنے کا حکم دیتے ہوئے یہ تنبیہ بھی کی کہ کوڑے کھاتے ہوئے اگر تم چیخو گے یا اگر تم نے ہلکی سی آواز بھی نکالی تو تمہیں آٹھ کے بجائے سولہ کوڑے مارے جائیں گے، اور اگر سولہ کوڑوں کے دوران پھر تم نے چیخنے چلانے کی کوشش کی تو ان کوڑوں کی تعداد دوگنا ہو جائے گی۔ تہاڑ جیل کے چکر میں سکھ نوجوان کے دونوں ہاتھ دیوار کے ساتھ باندھ کر جیسے ہی ایک ہٹے کٹے سپاہی نے کوڑے مارنے کا عمل شروع کیا تو ان کوڑوں کے سامنے کوئی عادی مجرم یا حس و حرکت سے عاری پتھر کا مجسمہ نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا گوشت پوست کا بائیس سالہ نوجوان تھا جس نے دوسرے کوڑے پر ہی درد سے چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ ان کوڑوں کی تعداد پہلے آٹھ سے بڑھ کر سولہ ہوئی اور پھر کچھ وقفے کے بعد اس سکھ نو جوان کو چیخنے پر 32 کوڑے مارے گئے یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا مگر اس پر بھی بس نہیں کی گئی اور بتیس کوڑوں کی تعداد پوری کی گئی۔ جیل میں تعینات اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اور دیگر اہلکار اس نوجوان کی درد کی شدت سے نکلنے والی ہر چیخ پر نفرت بھرے قہقہے لگاتے اور کہتے جاتے کہ یہ تم لوگوں کی لال قلعے پر بھارتی ترنگے کی شان میں کی گئی گستاخی کی سزا ہے... اور ابھی تو یہ ابتدا ہے۔
یہ نہ تو کسی فلم کا سین بتایا جا رہا ہے اور نہ ہی یہ کوئی قصہ، کہانی یا ڈرامے کا منظر ہے بلکہ یہ مودی سرکار کی جانب سے کسانوں کی فصلوں اور ان کی کاشتکاری سے متعلق نافذ کئے گئے تین متنازع قوانین کے خلاف احتجاج کرنے اور 83 دنوں سے مسلسل دھرنا دینے والے پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کے کسانوںکے خلاف کئے جانے والے سلوک اور ان قوانین پر اختیار کی جانے والی ہٹ دھرمی، ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی پامالی کی داستان ہے جو اب دہلی کی تہاڑ جیل کی در ودیوار میں محبوس سکھ کسانوں کے حلق سے درد اور اذیت کی صورت نکل کر پوری دنیا کو سنائی دے رہی ہے۔ بھارتی پنجاب کے سکھ کسانوں کے ساتھ انتہا پسند حکمرانوں اور ہر محکمے میں چھائے ہوئے‘ وشوا ہندو پریشد جیسی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بڑے افسران کی ذہنیت اور نفرت کی داستانوں کی گواہی اب تہاڑ جیل میں قید ہزاروں قیدی اور حوالاتی بھی دے رہے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے 27 جنوری اور اس کے بعد ایسے دردناک مناظر بار بار دیکھے۔
پنجاب ، ہریانہ ، راجستھان اور یو پی کے احتجاجی کسان جب دہلی کے قلب میں واقعITO چوک‘ وہ جگہ جہاں سے بھارت کے یوم جمہوریہ کی پریڈ گرائونڈ کا فاصلہ صرف دوکلو میٹر ہے‘ پہنچ چکے تھے‘ عین اس وقت سنگھو بارڈر سے پانچ ہزار کے قریب ٹریکٹر ٹرالیوں کو دہلی میں داخل ہونے کی اجا زت دینا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ 26 جنوری کی صبح تک لال قلعے پر ''نشان صاحب‘‘ لہرانے والے دیپ سدھو کو کوئی جانتا تک نہیں تھا اور 26 جنوری کو وہ سنگھو بارڈر پر اپنے ساتھ تیس چالیس نوجوانوں کو لئے ایک سٹیج پر چڑھ کر تین ماہ سے وہاں بیٹھے مظاہرین کو مشتعل کرتے ہوئے بغیر کسی روک ٹوک کے دہلی کے قلب میں لے جاکر لال قلعے پر خالصہ نشان صاحب کا پرچم لہراتا ہے اور پھر دوبارہ دو ہفتوں کیلئے غائب ہو جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ سکھوں کا تین ماہ سے جاری پُرامن دھرنا اچانک ایک شخص اچک کر لے جائے؟
آج بھارت کا ہر سکھ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی نفرت کے باعث خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے اور سکھوں کے خلاف ان کی نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے مشہور لیڈر سدھیر سوری کی وائرل وڈیو‘ جو اس وقت بھارت سمیت دنیا بھر میں دیکھی اور سنی جا رہی ہے‘ میں وہ ہندوئوں کو اکساتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ یہ سکھ بھارت کی کل آبادی کا صرف ڈھائی فیصد ہیں، اس لئے ان کو جب تک ختم نہیں کیا جائے گا بھارت آگے بڑھنے میں ناکام رہے گا، لہٰذا جدھر اور جہاں بھی اکا دکا سکھ ملیں، ان کو گولیوں سے بھون دو۔ اپنی اس وڈیو میں وہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرنوالہ کی تضحیک کرتے اور سکھوں کو دھمکیاں دیتے ہوئے پیغام دے رہا ہے کہ سکھ وہ دن بھول گئے ہیں جب ہندو سینا نے ''غلیظ سکھوں‘‘ اور ان کے جرنیل سنگھ کو گولڈن ٹیمپل میں بھون کر رکھ دیا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ اب ایک دفعہ پھر بھارت کے پاس وہ سنہری موقع آ گیا ہے کہ ان سکھوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے اور ان کی نسلیں ہی ختم کر دی جائیں کیونکہ ان کا معاملہ دیگر مسئلوں کی نسبت کل کو زیا دہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مسلمان تو ڈر کر چپ ہو جاتے ہیں، انہیں ہم جیسے چاہیں دبا لیتے ہیں لیکن اگر سکھوں کو اسی طرح چھوٹ دی جاتی رہی‘ جیسے بھنڈرانوالہ کو دی گئی تھی تو یہ ہمیں نا قابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
سکھ خالصوں کے خلاف نریندر مودی، امیت شاہ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد، جن سنگھ اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ اُس دن سے اندر ہی اندر کھول رہے ہیں جب نوجوت سنگھ سدھو نے وزیراعظم عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کی تقریب حلف برداری کے موقع پر ایوانِ صدر میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے جپھی ڈالتے ہوئے کرتارپور راہداری کھولنے کی درخواست کی تھی۔ کرتارپور راہداری کا کڑوا گھونٹ جس طرح مودی سرکار اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے بھرا‘ اس کی کڑواہٹ اور تلخی انہیں مسلسل بے چین کیے ہوئے ہے۔ اجیت دوول اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں مودی سرکار کو رپورٹ دے چکی ہیں کہ کرتارپور راہداری کھلنے اور وہاں بھارت سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھوں کے ساتھ پاکستانیوں کا پیار، محبت اور خصوصی برادرانہ سلوک بھارتی فوج میں موجود سکھ افسروں اور جوانوں کے علاوہ عام سکھوں کے دلوں میں بھی پاکستانیوں کیلئے نرم جذبات کو ابھار رہا ہے۔ یہ خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ جیسے جیسے سکھ یاتریوں کی کرتارپور آمد و رفت بڑھے گی، یہ جذبات کوئی اور رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ جس طرح سکھوں کے مذہبی گروئوں کے خلاف گالم گلوچ اور سکھ خواتین سے متعلق غلیظ زبان اور نفرت انگیز پروپیگنڈا آر ایس ایس کی طرف سے کیا جا رہا ہے، اس سے بھارت بھر میں سکھوں کے خلاف نفرت کے واقعات زور پکڑ رہے ہیں۔ سدھیر سوری سمیت دوسرے راشٹریہ لیڈران سکھوں کے بارے جو گھٹیا زبان بول رہے ہیں اس سے کسی بھی وقت بھارتی جنتا پارٹی سمیت آر ایس ایس کے کارکنوں اور سکھوں کا کوئی بڑا تصادم ہو سکتا ہے۔
گولڈن ٹیمپل کے خلاف آپریشن‘ جس میں بھارتی فوج نے ٹینکوں اور توپوں سمیت اکال تخت سمیت سب کچھ خون میں نہلا دیا تھا، جون میں ہوا تھا۔ اس کی سالانہ یاد میں ابھی تین ماہ کے قریب وقت ہے لیکن ہریانہ، پنجاب اور دہلی کے نواح میں ہر جانب سکھ کسانوں کے دھرنے اور مورچے کے سامنے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نعرے اور ان کے مودی سرکار کی حمایت میں نکالے جانے والے جلوسوں میں استعمال کی جانے والی زبان سے بڑھتی ہوئی دشمنی اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو دی جانے والی گالیوں اور اس کی ہلاکت کو 'کتے کی موت‘ جیسی تشبیہات سے حالات کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سکھوں کو چن چن کر قتل کرنے کی دھمکیوں نے بھی سکھوں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور خدشہ ہے کہ کوئی ایک چھوٹی سے چنگاری بھی سارے بھارت کو آگ اور خون کے دریا میں تبدیل کر سکتی ہے۔