بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے پاس رکی ہوئی کسی پلازے یا شاپنگ مال کی فائل کی قیمت صرف وہی لگا سکتا ہے جو سطح بہ سطح اس مرحلے سے گزرا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ فائلوں کی قیمت پچاس کروڑ سے ایک ارب تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اسی قسم کے سودے کی پیشکش سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ایک وڈیو میں مبینہ طور پر دو تین ایم پی ایز کو کرتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی قسم کی ایک اور مبینہ وڈیو میں ایک ووٹ کی قیمت سولہ سے بیس کروڑ تک بھی لگائی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے جو بھی یہ اربوں روپے ادا کر رہا ہے‘ اس نے یہ پیسہ حلال ذرائع سے تو کمایا نہیں، ممکنہ طور پر یہ کالے دھن سے ہی حاصل کیا ہو گا اور کالے دھن کا یہ خنجر اِس دھرتی اور اس میں رہنے والوں کی کمر میں ہی گھونپا کیا ہوگا۔
سینیٹ انتخابات کیلئے حکمران جماعت کو اسلام آباد کی ایک نشست کیلئے جس پریشانی کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ یہ خود ہے۔ اگر اپنے اراکین اسمبلی کو عزت دیتے تو یہ پارٹی کیلئے جان تک دینے سے بھی دریغ نہ کرتے لیکن شاید ہماری سیاسی جماعتوں میں ایسا کوئی کلچر نہیں پایا جاتا۔ گزشتہ ڈھائی برسوں میں ہونے والی مہنگائی سے اگر وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت کم ہو رہی ہے تو اس حوالے سے ایک آسان نسخہ یہ ہے کہ اپنے اراکین کے حلقوں میں ایسے ترقیاتی کام میرٹ اور درست طریقے سے کرائے جائیں کہ وہاں کے ووٹرز کو پانی‘ بجلی‘ گیس‘ سڑکوں اور سیوریج سمیت امن و امان کی سہولتیں بہ آسانی دستیاب ہونے لگیں۔ اگر ضابطے، ترتیب اور لگن سے تمام حلقوں میں اس قسم کے ترقیاتی اور عوامی مفاد کے کام شروع کر دیے جائیں تو ان حلقوں سے منتخب نمائندگان کو اگلے الیکشن کیلئے دائیں بائیں جھانکنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
کسی بھی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا اپنی حکومتوں سے مطالبات کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں، یہ سلسلہ آج سے نہیں‘ کئی دہائیوں سے ایسے ہی چلا آ رہا ہے، اس میں اپنے حلقوں میں پٹواری سے ڈپٹی کمشنر اور تھانیدار سے ڈی پی او تک اپنی پسند کا لگوانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے علاوہ دیگر سرکاری عملے کی تعیناتی اور حلقے کے ترقیاتی کاموں کیلئے من چاہے فنڈز کی فراہمی بھی ان کے مطالبات بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر یہ کسی بل یا قانون کی منظوری، عدم اعتماد اور سینیٹ انتخابات کے وقت ناز نخرے ، ضروریات اور مطالبات کی منظوری کی صورت میں اپنے ووٹ کا بھائو تائو کرنے لگتے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے ووٹ چوری اور غلط پریکٹسز روکنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو اختیارات سونپنے کے بعد مبینہ طور پر ووٹ کی خریداری کے حوالے سے سامنے آنے والی وڈیوز میں موجود کرداروں کو بے نقاب کرنے اور ووٹوں کی خریداری کا ثبوت حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ اس وقت چاروں صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد گیارہ سو کے لگ بھگ ہے۔ اتنی سی تعداد میں ووٹوں پر انگوٹھے کا نشان اور سیریل نمبر درج کرنے کیلئے صرف چند گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا تھا کہ الیکشن کمیشن شفاف اور خریداری سے پاک سینیٹ انتخابات یقینی بنائے گا، ایسے میں سیریل نمبر والے ووٹوں کی پرنٹنگ پانچ چھ گھنٹے سے زیادہ کا کام نہیں تھا۔
وزیراعظم عمران خان کرکٹ میں اپنا بھر پور وقت گزارنے کے دوران ہمیشہ مقابل ٹیم کے کپتان کی صلاحیتوں کو سامنے رکھتے رہے لیکن سیاست کے میدان میں مدمقابل بکیوں کا مقابلہ کرنا یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بس کی بات نہیں۔ ان کے مقابل ٹیموں کے کپتان اور نائب کپتان ہر گیند کا حساب رکھتے ہیں اور امپائر جیسے بھی ہوں‘ جو بھی ہوں جب تک یہ ان سے بات نہ کر لیں‘ اپنے کھلاڑی میدان میں نہیں اتارتے۔ ان لوگوں سے متعلق تو مشہور ہے کہ یہ گھر سے اس وقت تک نکلتے ہی نہیں جب تک تمام راستے صاف نہ کر لئے جائیں۔ کیا عام آدمی یہ باتیں نہیں دیکھ رہا کہ سخت بیماری اور کمزوری کا بہانہ کرتے ہوئے ضمانتیں کروانے والے‘ جو کل تک کراچی سے اسلام آباد آنے کے قابل بھی نہیں تھے‘ آج معرکہ سینیٹ کیلئے اسلام آباد کے پھیرے لگا رہے ہیں؟ ہماری سیاست کے ایسے کتنے ہی کھلاڑی ہیں، جن کی ضمانتوں میں بیماری کا عنصر واضح نظر آئے گا مگر یہ عجیب بیماری ہے جو صرف مقدمات کی پیشیوں تک ہی لاحق رہتی ہے۔
دوسری طرف این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے روز جو کچھ بھی ہوا‘ جن لوگوں کی جان گئی، جو زخمی ہوئے، غیر حتمی نتائج میں کون جیتا، کون ہارا‘ یہ سارا سچ اب بہت سے پردوں کے پیچھے چھپ چکا ہے اور یہ پردے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔ اس طرح کے کارناموں کی مہارت کا تجربہ حاصل کیے انہیں تیس برس سے بھی زیادہ عرصہ ہو چلا ہے۔ مذکورہ ضمنی الیکشن میں میڈیا، اعصاب کی جنگ اور دبائو کے ایسے حربے اور طریقے استعمال کئے گئے کہ ہر شے پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آ گری اور دوسری طرف فقط دیہاڑیوں اور ٹویٹ تک محدود رہنے والوں کی فیلڈنگ ایسی تھی کہ جیتا ہوا میچ ہار گئے۔ ان سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ یہی اعتراض کر سکتے کہ اگر چودہ یا بیس پولنگ سٹیشنوں یا پولنگ افسران کے غائب ہونے پر اعتراض ہے تو سارے حلقے میں الیکشن کروانے کی ضرورت کیا تھی، چلیں! یہ مان لیا کہ اس سے الیکشن کی شفافیت پر حرف آیا اور الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے اٹھارہ مارچ کو دوبارہ الیکشن کا حکم صادر فرما دیا گیا لیکن پی پی51 وزیر آباد میں تو ووٹوں کا تھیلا غائب کرنے کی وڈیو سب نے دیکھی تھی، اور اتنی بار دیکھی کہ تھیلا لے جانے والے سب کے حافظوں میں محفوظ ہو چکے ہیں۔ اگر ایک جانب 8 ہزار ووٹوں کی سبقت کو بیس پریذائیڈنگ افسران کے دیر سے پہنچنے کی وجہ سے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے تو پی پی51 وزیر آباد کے ضمنی الیکشن ‘ جہاں صرف پانچ ہزار ووٹوں کا فرق ہار جیت کا سبب بنا‘کے اُس تھیلے میں کیا ووٹ نہیں تھے؟ کہیں مسئلہ یہ تو نہیں کہ این اے 75 ڈسکہ میں چونکہ ضرورت سے زیادہ شور و غوغا برپا کیا گیا، اس وجہ سے اس حلقے میں الیکشن کالعدم قرار دے دیا گیا جبکہ وزیرآباد کے الیکشن کے حوالے سے اتنا شور وغل نہیں مچایا گیا، اس لیے اس پر کوئی فیصلہ بھی نہیں آیا۔ کیا اس حوالے سے ضروری تحقیقات کی گئیں کہ وہ تھیلا کس نے اور کسے دیا؟ اس تھیلے میں کتنے ووٹ تھے؟ کیا وہ ووٹ کسی گنتی میں شمار بھی ہوئے یا نہیں؟ پریذائیڈنگ افسر کے پاس کسی ایک پولنگ بوتھ کا نہیں بلکہ پورے پولنگ سٹیشن کا رزلٹ ہوتا ہے‘ لہٰذا اس پولنگ سٹیشن کے ووٹ کدھر ہیں؟
اگر کسی الیکشن میں ووٹوں کے ایک تھیلے کی ملکیت کسی ایسی سیاسی جماعت کے لیڈران کو منتقل ہو جائے جو اس الیکشن میں حصہ لے رہے ہوں تو شکوک و شبہات لازمی ابھریں گے کہ اس تھیلے کے اندر موجود ووٹوں میں کوئی گڑبڑ نہ کر دی گئی ہو۔ وزیر آباد کا ضمنی الیکشن کوئی ریہرسل نہیں تھی بلکہ سچ مچ کا الیکشن تھا، پھر اس حلقے کے غائب کئے گئے تھیلے پر کسی ماتھے پر شکن کیوں نہیں ابھری؟ تحریک انصاف کی تو بات ہی چھوڑیں‘ اس کے نام نہاد ترجمان صرف کارروائیاں ڈالنے کے ماہر ہیں، انہوں نے تو رزلٹ آنے کے بعد شکر کیا ہو گا کہ ان کی جان چھوٹی اور اب وہ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھیں گے۔ کیا کسی وزیر‘ مشیر یا پارٹی لیڈر کے پاس وکیل کرنے کے اخراجات نہیں تھے کہ وہ اس حوالے سے کیس کر سکتا؟کیا انہوں نے ووٹوں کا وہ تھیلا گوجرانوالہ کے ایک ایم پی اے کے قبضے میں جانے کے بعد چیف الیکشن کمشنر سے اس حلقے کا رزلٹ روکنے کا مطالبہ کیا؟ انہیں تو ثبوتوں کیلئے کسی تردد کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ تھیلے اور پریذائیڈنگ افسر والی وڈیو تمام ٹی وی چینلز پہ بار بار دکھائی گئی۔ دوسری جانب مبینہ وڈیوز میں ''ووٹ ضائع کرنے‘‘ کی ترغیب دینے والوں کی وڈیو سامنے آتے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آتے ہوئے ان افراد کو تحویل میں لے لینا چاہئے تھا لیکن تحریک انصاف لڑائی کے بعد ہر مکا اپنے ہی منہ پر مارنے کی عادی ہے۔