سر اولف کیرو ( Olaf caroe )جو 1946ء میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کے گورنر رہے‘لکھتے ہیں کہ دوسری جنگوں کے بر عکس افغان جنگیں اپنے اختتام کے بعد سنگینی اختیار کرتی ہیں‘ جن کے ثبوت تاریخ کے لکھے گئے کل‘ آج اور کل آنے والی دہائیوں اور صدیوں کے صفحات میں دیکھے جائیں گے ۔ امریکہ ‘ برطانیہ اور یورپی یونین افغان چٹانوں اور پہاڑوں میں جان و مال کی بے پناہ قربانیاں دینے کے بعد تھک ہار کر افغان طالبان سے گزشتہ پانچ برسوں سے کبھی کھلے تو کبھی پس پردہ مذاکرات اور امن معاہدہ کرنے کے بعد اس کی تکمیل میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں‘ دوسری جانب 18 مارچ کو روس کی میزبانی میں ماسکو میں طالبان‘ اشرف غنی‘پاکستان‘ چین اورایران کو ایک ساتھ بٹھا کر قومی حکومت پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ جس کے بعد ترکی میں بھارت کو بھی اس سلسلے کی ایک کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے جس کے بدلے میں مودی کی کشمیر پالیسی میں متوقع طور پر ایک بڑا یو ٹرن آئے گا۔ اس کے با وجود خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بھارت اور اشرف غنی افغانستان میں عبوری قومی حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ضرور کریں گے کیونکہ افغانستان کی این ڈی ایس ‘فوجی قیادت اور بھارت کو جو اہمیت اور طاقت اس وقت حاصل ہے قومی حکومت کی صورت میں انہیں یہ مواقع حاصل نہیں رہیں گے۔
افغانستان ہمیشہ ایک قدرتی گزرگاہ رہا ہے جو مشرق وسطیٰ‘وسطی ایشیا‘ بر صغیر ہند اور مشرق بعید کے لیے راہداری ہے۔ افغانستان سکندر اعظم ‘چنگیز خان‘ امیرتیمور‘مغل حکمرانوں اور ایرانی حکمرانوں کی داستانوں کا امین ہے۔ سکندر اعظم نے اپنے ہاتھیوں اور تیس ہزار کے لشکر کو یہاں سے گزارنے کیلئے تین سال لگا دیے۔ 1186ء تک یہ علاقہ غزنویوں کے زیر تسلط رہا‘ 1219 ء میں چنگیز خان کی فوجوں نے بلخ اور ہرات کو تاراج کر کے انسانی سروں کے مینار بنائے ۔1381ء میں تیمور نے ہرات فتح کیا۔1500 ء میں بابر نے ازبکستان کی وادی فرغانہ سے نکل کر کابل اور پھر دہلی کو فتح کیا ۔1600ء میں مغربی افغانستان پر ایران کے صفوی خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔1709ء میں میرا ویس نے‘ جو قندھار کا سردار تھا صفوی بادشاہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ 1747ء میں لویہ جرگہ منعقد ہوا جس نے احمد شاہ ابدالی کو افغانستان کا پہلا بادشاہ مقرر کر دیا۔ 1761ء میں ابدالی نے ہندو مرہٹوں کو شکست دینے کے بعد دہلی کے بعد کشمیر پر بھی قبضہ کر لیا۔1772ء میں احمد شاہ ابدالی پچاس سال کی عمر میں قندھار کے مشرقی پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان میں اس دنیا سے رخصت ہوا تواس کے بیٹے تیمور شاہ نے قندھار کی بجائے کابل کو اپنا دارالحکومت بنا لیا۔1780ء میں درانیوں نے وسط ایشیا کے سب سے اہم اور بڑے حاکم امیر آف بخاراسے ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے دریائے آمو کووسط ایشیا اور نئی افغان ریاست کے درمیان سرحد بنا دیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نئے افغانستان کی شمالی سرحد وں کا با قاعدہ تعین کیا گیا۔1880ء سے 1901ء تک کابل کے تخت پر امیر عبد الرحمن کی حکومت رہی اور اسی کے دور میں 12 نومبر 1893ء کو انگریزوں نے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان وہ تاریخی معاہدہ کرایاجو ڈیورنڈ لائن کے نام سے مشہور ہے۔ عبدالرحمن کے بعد جب اس کا بیٹا حبیب اﷲ حکمران بنا تو اس نے بھی 1905ء میں ڈیورنڈ لائن کی توثیق کی۔ ڈیورنڈ لائن پر 1919ء میں مشہور راولپنڈی معاہدہ ہوا اور 1921ء میں برطانوی اور افغان وزیر خارجہ کے درمیان لندن میں اینگلو افغان معاہدہ کے نام سے دونوں ملکوں کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ سرحد تسلیم کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوگئے ؛چنانچہ ظاہر شاہ کی ہدایت پر 1944ء میں افغانستان کے وزیر خارجہ عبدالصمد غوث نے برطانوی حکومت کو خط لکھا کہ ہندوستان کو آزادی دینے کے ساتھ ساتھ ڈیورنڈ لائن کے جنوب اور مشرق میں رہنے والے پشتونوں کی سرحد وں میں تبدیلی کی جائے لیکن برطانیہ نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن مستقل سرحد ہے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ نے 3 نومبر 1955ء یکم مارچ 1956ء اور 20 مئی 1960ء کو معاہدہ ڈیورنڈ لائن کی کھل کر حمایت کی۔
روس گرم پانیوں کیلئے ہندوستان تک آنا چاہتا تھا جبکہ برطانیہ روس کو ہندوستان کی طرف بڑھنے سے روکنے کیلئے افغانستان کو ''بفرسٹیٹ ‘‘ بنا نا چاہتا تھا‘ اُس وقت دنیا میں یہی دو سپر طاقتیں تھیں‘ لہٰذا19ویں صدی میں برطانیہ نے پہل کرتے ہوئے شاہ شجاع کی آڑ میں افغانستان میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا۔ شاہ شجاع‘ جس کا 1810 ء میں افغانستان میں تختہ الٹ دیا گیا تھا اور وہ جان بچا کر کشمیر سے ہوتا ہوالدھیانہ آ گیا تھا جہاں اس نے کوہ نور ہیرے کی رشوت دینے کی شرط پرمہا راجہ رنجیت سنگھ سے مدد مانگی تھی۔ نومبر 1839ء میں شاہ شجاع اپنی تیس سالہ جلا وطنی کے بعد انگریزی فوج کے سائے میں فیروز پور سے روانہ ہوا اور 24 اپریل 1839ء کو قندھار کے راستے سے ہوتا ہواسات اگست 1839ء کو کابل میں داخل ہو گیا۔ اس وقت کابل میں دوست محمد امیر کابل کی حیثیت سے حکمران تھا ۔ دوست محمد کو کابل سے بھاگنا پڑا لیکن امان اﷲ خان کی طرف سے برطانوی فوج کے خلاف مزاحمت جاری رہی اور افغانستان کے مسلمانوں نے اس وقت کی سپر پاور برطانیہ کو شکست دے دی۔ کچھ عرصہ بعد شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا اوربرطانیہ کے خلاف مزاحمتی تحریک کا ہیروامان اﷲ خان افغانستان کا حکمران مقرر ہو گیا۔ اس نے حکم جاری کیا کہ افغان خواتین جب بھی کابل آئیں تو ان کا چہرہ برقع میں نہیں بلکہ کھلا ہونا چاہیے‘ اس پر افغانستان کے مسلم قبائلی معاشرے میں رد عمل شروع ہو گیااور 1925ء میں اس کے خلاف خوست میں پہلی بغاوت ہو ئی ‘جو نا کام ہو گئی۔ امان اﷲ کے خلاف چونکہ پورے افغانستان میں شدید ردعمل کی لہر اٹھی ہوئی تھی‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1929ء میں حبیب خان تاجک ‘جو ایک نا می گرامی ڈاکو تھا اس نے ارد گرد کے سرداروں کو رشوت دے کر ساتھ ملا لیا اور امان اﷲ خاں کے خلاف بغاوت کر کے کابل پر قبضہ کر لیا ۔ حبیب تاجک کا باپ چونکہ ایک پانی پلانے والا یعنی سقہ تھا اسی لیے حبیب کو بچہ سقہ کا نام ملا اور اس کے دور کو بچہ سقہ کی حکومت کہا جا تا ہے۔
یہ قدرت کے کھیل ہیں کہ وہ امان اﷲ خان جو افغانستان کی جنگِ آزادی کا ہیرو تھا اسے جان بچا کر اپنے ملک سے بھاگنا پڑا اور اسے نکالنے والا ایک بچہ سقہ تھا۔ بچہ سقہ کی فوجوں نے امان اﷲ کے حامیوں کو چن چن کر قتل کیا ۔ انہوں نے اتنی لوٹ مار اور قتل و غارت کی کہ اس نے پشتون معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا اور مارشل نادر شاہ نے ہندوستان سے آ کر بچہ سقہ کو شکست دی اور کابل پر قبضہ کر لیا ۔اس طرح 16 اکتوبر 1929ء کو نادر شاہ افغانستان کا بادشاہ بن گیا ۔ تین نومبر 1929ء کو بچہ سقہ کو پھانسی دے دی گئی۔ چار سال بعد 8 نومبر 1933ء کو ینگ افغان نامی تنظیم نے نادر شاہ کو قتل کر دیا ۔ نادر شاہ کے بیٹے ظاہر شاہ جس کی عمر اُس وقت صرف سترہ سال تھی مارشل ولی کی نگرانی میں افغانستان کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ ظاہر شاہ چالیس سال تک افغانستان کا حکمران رہا ۔ 30 ستمبر 1947ء کو جب پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی درخواست پر ووٹنگ ہوئی تو ظاہر شاہ کی ہدایت پر افغانستان کے مندوب عبد الحسین خان عزیز نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا اور یہ واحد ملک تھا جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی۔ سترہ جولائی 1973 ء کو جب ظاہر شاہ بیرون ملک دورے پر تھا تو سردار دائود نے اس کے خلاف بغاوت کر دی جس کی سگی بہن حمیرا ظاہر شاہ کی ملکہ تھی۔ ظاہر شاہ نے خاموشی سے اس تبدیلی کو قبول کر لیا اور روم میں پناہ حاصل کر لی ۔ ظاہر شاہ کے خلاف اس انقلاب میں سردار دائودکے ساتھ نور محمد تراکئی‘حفیظ اﷲ امین اور ببرک کارمل پیش پیش تھے۔1973ء سے 1977ء تک سردار دائود بغیر کسی رکاوٹ کے افغانستان پر حکومت کر تے رہے ۔
1978ء میں خطے میں ایک انقلابی تبدیلی نے حالات کو یکدم بدل دیا جب ایک طاقتور انقلاب امام خمینی کی صورت میں ایرانی شہنشاہیت کی طرف بڑھتا نظر آنے لگا۔ سیاسی تجزیہ نگا روں اور با خبر اداروں نے دنیا کو خبردار کر دیا تھا کہ حالات شاہ ایران کے کنٹرول سے با ہر ہو تے جا رہے ہیں اور ایران ایک خونریز اسلامی انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے‘ اس پر روس کو فکر لا حق ہو گئی کہ ایران چونکہ افغانستان کاہمسایہ ملک ہے اس لیے ایران میں جاری اسلامی لہر افغانستان کو زیا دہ متاثر کرے گی کیونکہ ایران کی نسبت افغانستان میں مذہب کے اثرات بہت گہرے ہیں۔اس پر روسی صدر برزنیف نے ماسکو میں ایک ہنگامی میٹنگ طلب کر لی جس میں سردار دائود کو بھی بلایا گیا اس میٹنگ میں برزنیف نے سردار دائود سے سختی سے کہا کہ وہ مغربی ممالک سے آئے ہوئے غیر ملکی مشیروں کو فوراً افغانستان سے نکال دے‘ لیکن سردار دائود نے انکار کر دیا اس پر دونوں کے درمیان سخت تلخ کلامی ہو گئی۔
5جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق نے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نا فذ کر کے مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا لیا ۔ 10 اکتوبر 1977ء کو جنرل ضیا الحق سردار دائود کی دعوت پر د وروزہ دورے پر کابل پہنچے اور پھر جنرل ضیا کی جوابی دعوت پر سردار دائود 5 مارچ 1978ء کو پاکستان کے چار روزہ سرکاری دورے پراسلام آباد آئے۔ اس چار روزہ دورے کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا تھا لیکن جب سردار دائود کابل جانے کیلئے جہاز میں بیٹھنے لگے تو انہوں نے جنرل ضیا کا مضبوطی سے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا '' یہ ایک پٹھان کی دوستی کا ہاتھ ہے جو کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہیں اُٹھے گا اور میں جلد ہی لویہ جرگہ بلا کر اس کا عملی مظاہرہ کروں گا ‘‘۔جہاز کی سیڑھیوں پر الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے سردار دائود کی زبان سے نکلے مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں ان الفاظ نے ان کی موت کے پروانے پر دستخط کر دیے۔(جاری)