بھارت کے سابق وزیراعظم مرار جی ڈیسائی نے اٹلی کی مشہور صحافی اوریانہ فلاسی کو سابق ڈپٹی پرائم منسٹر کی حیثیت سے 27 جون 1975ء کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بنگلہ دیش کی تشکیل پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ''مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے بھیس میں بنگالی نہیں بلکہ بھارتی کمانڈوز کے دستے پاکستانی فوج سے لڑ رہے تھے‘‘۔ اس انٹرویو کے سامنے آتے ہی دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی اور محض چند گھنٹوں بعد مرار جی ڈیسائی کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور 1977ء تک انہیں جیل میں قید رکھا گیا۔ دوسری طرف پاکستان کا حال دیکھئے کہ پوری پلاننگ کے ساتھ نیوز لیکس فیم صحافی کو ایک خصوصی پرواز پر ملتان بلایا جاتا ہے اور اس سے پہلے ڈی جی سول ایوی ایشن کے نام ایک حکم نامہ جاری ہوتا ہے کہ سپیشل طیارے اور اس میں سوار مہمان کو ملتان ایئر پورٹ پر وی آئی پی پروٹوکول دیا جائے۔ اس طیارے میں آنے والے واحد مسافر کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف انکشاف کرتے ہیں کہ ''26/11 کے ممبئی حملوں کیلئے دہشت گرد یہاں سے گئے تھے‘‘۔ جیسے ہی یہ انٹرویو شائع ہوتا ہے، بھارت آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ اس کے ''سری واستو گروپ‘‘ نے پوری دنیا میں ہنگامہ برپا کر دیا اور دنیا بھر کے تقریباً سبھی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں یہ خبر ڈسکس ہونا شروع ہو گئی اور پھر سب نے دیکھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے والے ''را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی سزائے موت ختم کرانے کیلئے بھارتی وکیلوں نے مذکورہ انٹرویو کو کلبھوشن کی صفائی کیلئے عالمی عدالت کے ججز کے سامنے بطور دلیل پیش کیا۔ بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے‘ وہاں ملکی راز فاش کرنا یا ملک کے اداروں پر الزام تراشی کرنے والے اعلیٰ عہدیداروں کو ملکی قانون سے کسی قسم کا استثنا نہیں ملتا جبکہ پاکستان میں بے بس قانون ہر طاقتور سے خوف زدہ اور سہما سہما نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور ایم این اے میاں جاوید لطیف کے بیان پر غور کیجئے ، اس حوالے سے حکومت کو حرکت میں آنا چاہیے اور بہرحال ملک کے اہم اداروں کو اب انتہائی محتاط اور الرٹ رہنا ہو گا ۔ دعا ہے کہ اللہ سب لوگوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
مغرب‘ جو جمہوریت کے نام پر بے وسیلہ کمزور ملکوں کو بلیک میل کرتا چلا آیا ہے‘ جب ہندوستان پر قابض تھا تو اس نے وائسرائے کونسل یا سینٹرل اسمبلی کے الیکشن کیلئے عام آدمی کو ووٹ کا حق نہیں دیا ہوا تھا بلکہ اس کیلئے شرط یہ رکھی گئی تھی کہ یا تو ووٹر گریجویٹ ہو یا پراپرٹی ٹیکس اور اپنی زمینوں کا مالیہ دیتا ہو۔ متعدد یورپی ممالک‘ جو جمہوریت کے حوالے سے کمزور ممالک پر پابندیاں لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے‘ نے مدتوں خواتین کو ووٹنگ سے محروم رکھا۔ 1913ء میں ہائوس آف لارڈز سے خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا بل بھی منظور کرایا گیا تھا۔
دنیا کا کوئی بھی ملک اور کوئی بھی ایسی قوم‘ جہاں اکثریت غیر تعلیم یافتہ یا نیم تعلیم یافتہ ہو‘ کاروبارِ دنیا چلانے کی صلاحیت سے تہی دامن ہونے کے علاوہ ملکی حالات اور بین الاقوامی تبدیلیوں کی ضروریات سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں۔ وہاں تعلیم اور وسائل سے ما لامال طبقہ اقلیت میں ہونے کے با وجود جمہوریت کے نام پر اس ملک پر قبضہ کر کے اپنی اجارہ داری قائم کر لیتا ہے اور یہ اجارہ داری نسل در نسل چلتی رہتی ہے جس میں صرف غریب طبقہ پستا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ جمہوری نظام بہترین نظام حکومت ہے‘ میرے نزدیک خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ مشرقی ممالک کی نیم جمہوریتوں نے عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے‘ ایک سیاسی جماعت کا ہمدرد اپنے سیاسی مخالفین کی جان کے درپے ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں جو کچھ پارلیمنٹ کے باہر مسلم لیگی رہنمائوں اور پھر لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل کے ساتھ ہوا‘ یہ میرے نزدیک ٹریلر ہیں اس لاوے کے جو ہمارے معاشرے میں پنپ رہا ہے۔ انصاف کے ایوانوں میں جس طرح ہتھ چھٹ انداز میں بلاخوف قانون کے ساتھ کھلواڑ ہوا‘ اس سے یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ کسی کو نظامِ عدل کے وقار،اس کی عزت اور قانون کا خوف نہیں تھا۔ وڈیو دیکھ کر صاف پتا چل جاتا ہے کہ اس واقعے کا منصوبہ ساز کون تھا۔ گہرے رنگ کی شلوار قمیص میں ملبوس ایک شخص ہائیکورٹ کے احاطے میں تین خواتین‘ جنہوں نے ہاتھوں میں جوتے پکڑ رکھے تھے‘ کو ہدایات دیتا صاف نظر آتا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
1817ء کے لگ بھگ جب روس میں یہودیوں کا کنٹرول تھا‘ سوئٹزر لینڈ کے شہر باسل میں یہودیوں کی ایک تاریخی کانفرنس کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ دنیا پر کس طرح حکومت کی جائے؟ اس کانفرنس میں فیصلہ ہوا ''پہلے ہم دنیا کو کرپٹ کریں گے‘ جب ساری دنیا کے ممالک کرپٹ ہو جائیں گے تو ایک مخصوص نظام کے نام پر کسی کٹھ پتلی کو اس ملک کا اقتدار سونپ کر پس پردہ رہ کر اس ملک پر حکومت کریں گے۔ کرپشن اور بدعنوانی کا کینسر‘ جو غریب ممالک کو کھوکھلا کر رہا ہے‘ نیم جمہوریت کے ذریعے ہی فروغ پاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا‘ اس میں سارے نظام کو اس طرح خرابی سے دوچار کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی اس نظام کے مہروں پر ہاتھ نہیں ڈال پاتا۔ ہمارے ملک کی سیاسی اشرافیہ کے معاملات، ان کے فیصلے، سزائیں اور ان سزائوں پر عمل درآمد کی مثالیں جابجا بکھری پڑی ہیں۔
مغرب کی مسلط کردہ نیم جمہوریت نے بدمعاشوں، قبضہ گروپوں، رسہ گیروں، منشیات فروشوں اور لینڈ مافیا کیلئے قانون کو موم کی ناک کی طرح استعمال کرنا اتنا آسان بنا دیا ہے کہ انہیں کسی چیز کا کوئی ڈر اور خوف ہی نہیں رہا۔ چور اور کوتوال اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے ہمدرد اور مدد گار بن چکے ہیں۔ اس کھیل یا ڈرامے کو آگے بڑھانے کیلئے یا کسی اور کو باری دینے کیلئے جب بھی نئے الیکشن کا بگل بجتا ہے تو سیاسی جماعتوں کے نشان اور جھنڈے تلے برادریوں اور دھڑے بندیوں کا جو میلہ شروع ہوتا ہے‘ اس میں حصہ لینے والے امیدوار ایک طرف اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں جگہ جگہ قائم کئے گئے ڈیروں پر ووٹروں کو مرغ اور بکرے کا گوشت کھلا رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان غریب ووٹروں کو بوٹیاں اور ہڈیاں نوچتے دیکھ کر حقارت سے ہنس رہے ہوتے ہیں کہ جب تک ملک کی باگ ڈور ہمارے ہاتھوں میں ہے کسی تبدیلی یا بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔
نیم جمہوریت اور جمہوریت کے نام پر یہ تماشا گزشتہ سات عشروں سے جاری ہے‘ ہمارا ملک جمہوری نظام کی معطلی کی وجہ سے عالمی پابندیوں کی زد میں بھی رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں میانمار پر جمہوریت کی معطلی پر عالمی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ جمہوریت کی معطلی پر پابندیاں لگانے والوں سے اتنا تو ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ وہ ممالک جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور جن کو اسلحہ اور دفاعی سامان بیچ کر مغربی ریاستوں نے ترقی کی ہے‘ کبھی وہاں پر جمہوریت کیلئے امریکا، یورپی یونین یا دیگر ممالک اور اداروں نے دبائو کیوں نہیں ڈالا؟ جمہوریت کا یہ سارا ''فیض‘‘ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے لیے ہی کیوں ہے؟