"MABC" (space) message & send to 7575

سستی بجلی کیوں نہیں؟

اس وقت تحریک انصاف حکومت کی جانب سے بجلی مہنگی کرنے کے ایک نئے آرڈیننس کا شور برپا ہے جس سے سب سہم کر رہ گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 2021ء سے 2024ء تک وقفے وقفے سے فی یونٹ بجلی تقریباً ساڑھے چار روپے فی یونٹ تک مزید مہنگی ہو جائے گی۔ یہ ہونا ہی تھا کیونکہ جب آئی ایم ایف، عالمی بینک یا دیگر ممالک سے قرضے مانگیں گے تو پھر وہ بھی بدلے میں ہم سے کچھ نہ کچھ چاہیں گے۔ ہماری قوم کی کم علمی دیکھئے کہ یہ ابھی تک اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ ہم پر برس ہا برس سے حکومتیں کرنے والی سیاسی جماعتیں اور شخصیات تو سستی بجلی فراہم کرنا چاہتی تھیں اور اس کے لیے پانی سے بجلی پیدا کرنے والے سستے ڈیم بھی بنانا چاہتی تھیں لیکن ان کی اربوں ڈالرز کی لاگت اور پانچ چھ سال کی طویل مدتِ تکمیل کی وجہ سے وہ مجبور تھیں۔ اس کا ازالہ انہوں نے یہ کیا کہ عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بچانے کیلئے فرنس آئل، گیس اور کوئلے پر چلنے والے مہنگے پاور پلانٹس لگا دیے تاکہ عوام کو روزانہ دس سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ سے محفوظ رکھ سکیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ واقعی ان کے پاس سستی بجلی پیدا کرنے کے مواقع نہیں تھے تو یہ سفید جھوٹ اور قوم کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
اگر ماضی کے حکمران چاہتے تو سستی بجلی پیدا کرنے کیلئے ہر تحصیل میں پانی سے چلنے والے چھ ماہ کی مدت میں مکمل ہو جانے والے سستے ترین پاور پلانٹس تعمیر کر سکتے تھے لیکن انہوں نے قوم کو مہنگے سودی معاہدوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔ ہمارے ملک کا حکمران طبقہ‘ ان کی مددگار بیورو کریسی اور سرمایہ دار‘ اگرچہ سب نہیں‘ یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں سستی بجلی پیدا کرنے کے ذرائع استعمال کئے جائیں۔ اگر وہ ایسا کر دیتے تو ملکی خزانے کو آئی پی پیز کی آڑ میں اب تک 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا چونا کیسے لگاتے؟ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں 1960ء سے 1969ء تک وارسک، منگلا، سملی، راول، حب، تربیلا اور خان پور ڈیموں کے بعد کسی ایک نے بھی ہائیڈرل پاور منصوبہ شروع کرنے کا نہیں سوچا کیونکہ اگر بجلی کے سستے پیداواری منصوبے شروع کیے جاتے تو پھر دنیا بھر میں محلات کیسے خریدے جاتے؟ (مقام شکر ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیراعظم عمران خان کی ذاتی دلچسپی سے بھاشا اور مہمند ڈیم پر کام شروع ہوا) اگر آپ کا بجلی کا بل گرمیوں میں پنکھے، کولر اور اے سی استعمال کرنے کے بعد چند ہزار روپے تک ہو اور بجلی کی قیمت زیادہ سے زیادہ چار‘ پانچ روپے فی یونٹ ہو تو پھر آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک سمیت دنیا کے دوسرے مالیاتی اداروں سے بڑے بڑے قرض کون لے گا؟ اگر قرض نہیں لیں گے تو یہ مالیاتی ادارے کہاں جائیں گے؟ ان قرضوں کیلئے امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کی منتیں کون کرے گا؟ ان کی چودھراہٹ کیسے قائم ہو گی؟ یہ ممالک ہم پر عالمی اور علا قائی مفادات کے پھندے کیسے کسیں گے؟ جب ہم مالیاتی اداروں سے قرضہ نہیں لیں گے تو پھر انہی ممالک میں یہ قرضہ کمیشن، کک بیکس اور دو نمبر مشینوں کی خریداری کی صورت میں واپس کیسے منتقل ہو گا؟ اگر بجلی مہنگی نہیں ہو گی تو اربوں ڈالرز کا قرضہ کس جواز پر وصول کیا جائے گا؟ سیدھا سا جواب ہے کہ اس کیلئے بجلی، پانی اور گیس مہنگی کی جائے گی اور ہر ماہ ان کے بلوں پر درج مختلف اقسام کے بھاری بھر کم ٹیکس لیے جائیں گے۔ اگر بجلی سستی ہو گئی تو گھروں اور دکانوں کو دس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کے بل کیسے آئیں گے؟ اگر یہ بل نہیں آئیں گے تو پھر ان بلوں پر چالیس‘ پچاس ہزار روپے تک ٹیکس کیسے لیا جائے گا؟ بلوں پر وصول کیا جانے والا یہی استحصالی ٹیکس تو عالمی مالیاتی اداروں کو اصل رقم اور سود کی واپسی کی گارنٹی دیتا ہے۔ قرض دینے والے ساہوکار سے جب مجبوریاں بھیک منگواتی ہیں تو پھر وہ بلیک میل کرتے ہیں اور اپنی شرائط بھی عائد کرتے ہیں کہ بجلی مہنگی کر دو، فلاں ٹیکس زیادہ کر دو، فلاں نیا ٹیکس عائد کر دو، فلاں سبسڈی ختم کر دو تاکہ قرض کی صورت میں دیے گئے پانچ‘ سات ارب ڈالرز اور اس پر سود کی وصولی کی ضمانت مل سکے۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے مالیاتی ادارے اور ان کے کرتا دھرتا ہم سے کچھ غیر تحریر شدہ شرائط بھی منواتے ہیں مثلاً صرف گیس، کوئلے اور تیل سے ہی بجلی پیدا کی جائے گی جبکہ سچ یہ ہے کہ اگر ہمت اور نیت ہو تو چھ ماہ میں سستی ترین بجلی کا پاکستان میں انبار لگایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو اس کیلئے چیچو کی ملیاں، نندی پور اور رسول پاور پروجیکٹس دیکھ لے، ہمیں ان جیسے درجنوں نئے پاور پروجیکٹس شروع کرنا ہوں گے۔ کیا ہم اتنے نادان ہیں کہ ہمیں کچھ پتا ہی نہیں۔ کیا ہمارے سب انجینئرز، واپڈا کے افسران اور حکومتوں کے کرتا دھرتا پاکستان میں ہزاروں کلومیٹر طویل نہروں کے جال سے لا علم ہیں؟ کیا دنیا بھر میں‘ بھارت سمیت‘ نہری نظام پہ چھوٹے چھوٹے منصوبوں سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا نہیں کیا جا رہی؟ اپنے طویل نہری نظام سے ہم چند مہینوں میں سستی ترین بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ نہروں پر ہائیڈرو پاور پلانٹس لگانے کیلئے نہ تو کسی نئی اور پیچیدہ ٹیکنالوجی کی محتاجی تھی اور نہ ہی اس کیلئے کسی ترقی یافتہ ملک کی طرف دیکھنے کی ضرورت تھی۔ نہ اس کے لیے بیرونی ملکوں سے قرضے لینے کی ضرورت تھی اور نہ ہی کروڑوں روپے تنخواہیں اور مراعات لینے والے انجینئرز کی ضرورت تھی۔ کروڑوں لوگ ہر روز دیکھتے ہیں کہ ملکی نہروں پر ہر دس پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر دس سے بارہ فٹ کا ایک ڈائون فال ہے جن سے آبشار کی صورت میں لاکھوں کیوسک پانی گرتا رہتا ہے۔ ان نہروں کے علاوہ بیراجوں اور ڈیموں کے سپیل ویز ہیں‘ ان کو دیکھیں تو لاکھوں کیوسک پانی نہایت تیز رفتاری سے نیچے کی جانب گرتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے انجینئرز یا ان کے ماتحت عملہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ یہ ایسی زبردست قوت ہوتی ہے جسے اگر استعمال میں لایا جائے تو اس سے ہزاروں میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے اور وہ بھی نہایت سستے داموں۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس طرح ہم کتنی بجلی حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ سمجھنے کیلئے ایک نہر کی مثال سامنے رکھتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ اس کے ہیڈ یا بیراج کے کئی دروازے ہیں اور ان سے2/3 فٹ موٹی پانی کی تیز لہر ڈائون سٹریم کی طرف گر رہی ہے جس کی ولاسٹی 100 کیوسک فی سیکنڈ ہے۔ اس بہائو کے آگے اگر ڈیڑھ یا دو فٹ پر محیط Wing Wheel کسی شافٹ کے ذریعے فکس کر دیا جائے تو پانی کے دھارے کی قوت 4.71 سیکنڈ کے حساب سے اسے گھماتی رہے گی یعنی ایک منٹ میں 12.74 چکر ہوں گے۔ 100 کیوسک فی سیکنڈ پانی کے Thrust کی قوت 19.5 ہارس پاور بنتی ہے، اس سے 66 امپیئر کا جنریٹر چلایا جا سکتا ہے، جس کا آئوٹ پٹ 14541 واٹ ہو گا۔ یہ تو محض ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری نہروں کے ہیڈ بیراجوں اور ڈیموں کے سپیل وے سے روزانہ لاکھوں کیوسک پانی گرتا ہے، اگر اسے استعمال میں لایا جائے تو اس طرح ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
اگر تحریک انصاف حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان واقعی ملک کو بیرونی دبائو اور آئی پی پیز کے بوجھ سے چھٹکارا دلانا چاہتے ہیں تو انہیں یہ پروجیکٹس فوری شروع کرنا ہوں گے، جن سے ملک میں اس قدر بجلی پیدا ہو گی کہ صرف ایک سال کے عرصے میں نہ صرف لوڈشیڈنگ سے ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے گی بلکہ اس قدر وافر بجلی پیدا ہو گی کہ ہر گھر اور دکان کو سستی ترین بجلی مہیا کرنے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔
گزشتہ ایک دو دن سے ٹی وی چینلز پر بجلی مہنگی کرنے کی خبروں پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مذمتی بیانات کا ڈھیر لگا ہوا ہے، اگر اپوزیشن والے بھول گئے ہوں تو انہیں یاد دلاتا چلوں کہ چند برس پہلے جب خواجہ آصف پانی وبجلی کے وزیر تھے تو انہوں نے بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ پر میڈیا کے سوالات پر تنک کر یہ جواب دیا تھا کہ یہ لوگ جو بجلی‘ بجلی کا شور مچا رہے ہیں، اگر انہیں بجلی چاہئے تو پھر بجلی کے دُگنا بل ادا کرنا شروع کر دیں‘ ہم بلا روک ٹوک اور لوڈ شیڈنگ کے بغیر بجلی مہیا کرنا شروع کر دیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں