سیاست سے ہٹ کر کچھ موضوع ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر روز بروز بڑھتی تنگ نظری اور انتہا پسندانہ سوچ کے سائے میں گفتگو کرتے یا کچھ لکھتے ہوئے خوف سا محسوس ہوتا ہے۔ ان موضوعات پر الفاظ کے ہار پروتے ہوئے بہت کچھ مدنظر رکھنا پڑتا ہے، ایسا ہی ایک حساس اور لطیف موضوع موسیقی ہے۔ انتشار و خلفشار کے اس ما حول میں جب ایک دوسرے کو سیاست، قوم، زبان، رنگ اور نسل کے نام پر کاٹ کھانے والے خیالات طاقت پکڑ رہے ہیں‘ وہیں آرٹ اور کلچر کیلئے احترام اور پسندیدگی سے اختلاف رائے رکھنے والے معاشرے میں موسیقی کا ذکر کرنا یا اس کی حمایت میں بات کرنا بھی کسی جرم سے کم نہیں۔ اگر ہم رقص و موسیقی کا مشاہدہ کریں تو کیا یہ درست نہیں کہ پوری کائنات گردش کرتی دکھائی دیتی ہے؟ چاند او ر سورج کا زمین کے گرد گھومنا بھی اپنے اندر بہت سے معنی لیے ہوئے ہے۔ شیکسپیئر کے الفاظ میں موسیقی روح کی غذا ہے‘ جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن دوسری جانب اس سوچ کی بھی حمایت نہیں کی جا سکتی جو اسے گناہِ عظیم قرار دے رہی ہے۔ بعض قومیں موسیقی کو اپنی عبادت کا جزو سمجھتی ہیں، صوفیائے کرام کا قوالی سن کر وجد میں آ جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ روحانیت میں ایک اصلاح ''صوتِ سرمدی‘‘ مستعمل ہے۔ اس کے مطابق‘ جب کوئی بندہ اپنے خالق کا عرفان حاصل کر لیتا ہے اور خدا اس سے مخاطب ہوتا ہے تو یہ آواز بندے اور خدا کے درمیان صفاتی پردہ ٹھکرا کر ایسی مدھ بھری اور مسحور کن آواز بن جاتی ہے کہ بندہ استغراق کے عالم میں دنیا وما فیھا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔
سیاست اور اس سے منسلک حالات پر کچھ لکھنے کو دل نہ چاہتا ہو‘ قانون اور ضابطوں کا احترام نہ کرایا جا سکے اور قانون نافذ کروانے والے اپنے فرائض سے غافل نظر آئیں تو ایسے میں جد ھر بھی نظر دوڑائیں‘ دفاتر، سڑکوں اور گھروں میں بیٹھی بیٹیاں سہمی سہمی اور پریشان نظر آنے لگتی ہیں۔ ہر چھوٹے‘ بڑے سکول اور کالج کے سامنے ریت کی بوریوں کے مورچوں آنکھوں میں گھومنے لگیں تو یہ سوچ پریشان کرتی رہتی ہے کہ ملک و معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو ہماری نئی نسل کیا کرے گی؟ جب انتہا پسندی امن و سکون کو نگلنا شروع ہو جائے تو یہ سوال ہم سب سے ہے کہ کیا یہ بائیس کروڑ عوام کا ملک ہے یا چند ہزار لوگوں کی ذہنیت کی گرفت میں آیا ہوا معاشرہ؟ اسی افسردگی میں جب دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں یہ نظم ''لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری‘‘ سماعتوں سے ٹکرائی تو ایسے لگا کہ سارا پاکستان ملالہ یوسفزئی کے ساتھ مل کر ملک سے جہالت کے اندھیرے ختم کرنے کا عزم کر رہا ہے۔ اس نظم کے پس منظر میں ابھرنے والی ہلکی سی موسیقی نے دل کو سہارا دیا۔ موسیقی واقعتاً روح میں اترتی محسوس ہوتی تھی۔ میرے خیال میں دنیا کا ہر وہ کام جس سے انسانیت کی بھلائی کا کام لیا جا سکتا ہے‘ برا نہیں ہو سکتا۔ کہتے ہیں کہ انسانی دماغ کا ایک حصہ جذبات و احساسات پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔ تازہ ترین تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جانوروں‘ کیڑے مکوڑوں اور پودوں پر بھی''سروں‘‘ کا جادو چلتا ہے۔ موسیقی سے انسانی جذبات کا متاثر ہونا ایک عام سی بات ہے۔ چاندنی رات میں مدھ بھری بانسری کی آواز سب کو ہی مست و مسحور کر دیتی ہے جبکہ المیہ سازوں کو سن کر ایک عجیب سی افسردگی طاری ہو جاتی ہے۔
اصل اور صحیح موسیقی ہم آہنگ اور خوش گوار آوازوں کے مجموعے کو کہا جاتا ہے اور موسیقی میں ہی ہم قدرت کے ذریعہ پیدا کی گئی آوازوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں، جس کو مشہور انگریزی شاعر کیٹس نے زمین کی شاعری کہا ہے۔ سرسراتی ہوا، جھاڑیوں اور پودوں سے پیدا ہونے والی سیٹیاں، پرندوں کی چہچہاہٹ، مور کا ناچنا، بارش کا راگ، دریا کی موجوں اور لہروں کا سنگیت، ساحل سمندر سے اٹھنے والی ملی جلی آوازوں کی گونج موسیقی نہیں تو اور کیا ہے؟ موسیقی سے آشنا کرانے کیلئے ہر گھر میں پیدا ہونے والے بچے کو ہم جھنجھنا پکڑا دیتے ہیں اور وہ ایک ردھم میں بجتے ساز سے خوش ہو جاتا ہے۔ اب خود فیصلہ کریں کہ چند ماہ کے بچے کو موسیقی پر کون لگاتا ہے؟ ہاتھ کی انگلیاں اکثر ایک دوسرے کے ساتھ از خود چٹک جاتی ہیں۔ دیکھا جائے توان تمام آوازوں میں ایک موسیقانہ تاثر پوشیدہ ہے۔ عام انسان پر موسیقی کا تاثر صحت مندانہ ہوتا ہے‘ اسے اس سے ذہنی سکون اور سرور ملتا ہے، اس کے برعکس ہیجان انگیز موسیقی انسانی جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے، بلکہ تیز اور ناروا آوازی ں نسانی صحت اور خیالات پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ امریکا اور مغرب کے بعد اب ایشیائی ممالک میں بھی نوجوان نسل میں بڑھتے ہوئے جرائم میں اس تیز اور بے ہنگم شور مچانے والی موسیقی کا بہت ہاتھ ہے۔ اس سے پہلے جب موسیقی کی لَے مدھم اور ہلکی ہوتی تھی تو اس سے انسانی وجود جرم کی طرف مائل نہیں ہوتا تھا بلکہ المیہ سازوں کو سن کر ایسی افسردگی طاری ہو جاتی تھی کہ ہیجانی کیفیت خود بخود دور بھاگ جاتی تھی۔ قدیم عرب کے لوگ جب اونٹوں کے قافلوں کے ساتھ چلتے تھے تو ''حدی‘‘ گاتے تھے اور اونٹ اس آواز سے مست ہو کر ہفتوں کا سفر دنوں میں طے کر لیتے تھے۔ آج کے نفسیات دانوں کے موسیقی کی مدد سے دماغی مریضوں کو پُرسکون کرنے اور تندرست بنانے کے تجربات کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پیڑ‘ پودوں پر موسیقی کے اثر انداز ہونے کی بات بھی ثابت ہو چکی ہے۔ ہندوستان کے دو ماہرین حیاتیات نے اس سلسلے میں بہت سے تجربات کئے ہیں۔ پودوں کے نزدیک صبح صبح دھنیں بجا کر انہوں نے خورد بین سے ان کے اندر ہونے والے حیاتیاتی عمل کو شدید ہوتے دیکھا۔ موسیقی کے اثرات جانوروں پر بھی اثر ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں قدیم روایات بھی ملتی ہیں کہ یونانی چرواہے اپنی بھیڑوں کو بانسری سنایا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے ان کی بھیروں کا ہاضمہ ٹھیک رہتا ہے اور وہ رغبت سے چرتی ہیں۔
دنیا کے سبھی ملکوں اور برصغیر پاک و ہند میں خاص طور پر مویشی چرانے والے بانسری اور الغوزہ خوب بجاتے ہیں، شاید یہ قدیم زمانے کے ان سمجھدار لوگوں کی تعلیم ہے جو بہت کچھ جانتے تھے اور جن کے علم کو آج سائنس محض تجزیے اور تشریح کر کے پیش کر رہی ہے۔ لوک داستان ہیر رانجھے میں بھینسوں کو چراتے ہوئے رانجھے کی بانسری کا کردار کسی کو بھی نہیں بھولا ہو گا۔ ستم طریفی یہ ہے کہ سائنسی تحقیق کے مطابق سانپ بہرے ہوتے ہیں اور بین کی آواز پر نہیں جھومتے بلکہ بین کی آواز کی لہریں جب ان کے جسم سے ٹکراتی ہیں تو وہ اس سے متاثر ہو کر جھومنے لگتے ہیں۔ بعض سمندری ملاحوں کے مطابق‘ جس جہاز پر گانا بجانا ہوتا ہے‘ شارک مچھلیاں دور تک اس جہاز کا تعاقب کرتی ہیں۔ موسیقی کے سلسلے میں مختلف قسم کے جانوروں کی پسند اور رد عمل مختلف ہوتے ہیں، مثلاً چیتا موٹے سروں میں رزمیہ دھنیں پسند کرتا ہے تو گینڈا تیز موسیقی سے مست ہو جاتا ہے، ببر شیر شاہانہ مزاج رکھتا ہے اور شور وغل والی موسیقی کو ناپسند کرتا ہے، گھڑیال تیز موسیقی سے جذباتی ہو جاتا ہے، سرکس کا تیندوا تو موسیقی پر رقص بھی کرنے لگتا ہے، اس طرح ڈیری فارم والے آج کل موسیقی کے ذریعے زیادہ دودھ حاصل کر کے سالہا سال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ امریکا کے ڈیری فارمنگ کے ماہرین نے بھی یہ حقیقت معلوم کی ہے کہ موسیقی کے اثر سے گائے میں زیادہ دودھ اترتا ہے۔ موسیقی کے لاکھ فائدے سہی لیکن ہر چیز حدِ اعتدال میں ہی اچھی لگتی ہے۔ اب تو ٹی وی پر ہر جگہ کھانے پکانے کے سارا سارا دن جاری رہنے والے پروگراموں میں ولائتی، دیسی اور کانٹیننٹل کھانوں کی تیاری اور ان کے نت نئے نسخے اور طریقے بھی موسیقی اور رقص کی لے پر پیش کیے جا رہے ہوتے ہیں، چاہے موسیقی میں کھو کر ہنڈیا جل جانے سے گھر میں رزمیہ کیفیت پیدا ہو جائے۔