2021ء کا موسم بہار شروع ہو چکا تھا ‘خزاں رسیدہ پودے جو اپنی ویرانی پر ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے اچانک اپنے وجود سے نکلنے والی نئی نئی کونپلوں کو دیکھ کر خوشی اور مسرت سے جھومنا شروع ہو گئے تو ایسے میں دور کسی پر سکون کونے میں پاکستان اور بھارت کے لیے انتہائی نرم گوشہ اور محبت رکھنے والے ایک دوست ملک کی میزبانی میں یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے دوستی کی نیت سے ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ ان کے درمیان وہ سلسلہ جو 2018ء میں شروع ہوا تھا اسے اب تمام تلخیاں بھلاتے ہوئے پھر سے آگے بڑھانا چاہئے کیونکہ اب یہ نا ممکن ہو چکا ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک اپنی ایٹمی طاقت یا فوجی برتری کے زور پر کسی ایک ملک کو تباہ کرنے یا اپنے زیر نگین کرنے کے بعد اپنا گھر بھی اسی طرح صحیح سلامت حالت میں دیکھنے کے لیے زندہ بچ سکے۔ نوشتۂ دیوار ہے کہ اگر دونوں میں سے کسی نے بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کسی بھی طریقہ سے کسی بھی جگہ سے جنگ کا میدان منتخب کرنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ کسی کو بتانے کے لیے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا کیونکہ دیوار پر موٹے حروف میں لکھا ہوا سب کو نظر آ رہا ہے کہ ہماری اس جنگ کے نتیجے میں خاک دونوں جانب ہی اُڑے گی‘ جس کے بعد ہم دونوں کی راکھ پر جس میں صفائی ستھرائی کی طاقت اور ہمت ہو گی وہ ہماری جگہ آ کر بس جائے گا ‘اس لئے کیوں نہ ہم اپنی اپنی حدود میں امن اور بھائی چارے سے رہنا شروع کر دیں اور وہ مسئلہ کشمیر جو دونوں ممالک کو راکھ میں بدل سکتا ہے اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے۔ وہ کشمیری جو73 برسوں سے بھارتی سنگینوں کے ظلم و ستم سہتے چلے آ رہے ہیں‘ انہیں امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔
2019ء میں بھارت کے عام انتخابات کے دوران وزیراعظم عمران خان کا وہ بیان جس میں انہوں نے مودی کی کامیابی سے امن آگے کی جانب بڑھنے کا اشارہ دیا تھا اس کے پیچھے بھی2018ء میں آگے بڑھنے والی امن بات چیت ہی تھی جسے ہماری اپوزیشن جماعتوں نے بلا وجہ نشانے پر رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے خوب لتے لینے شروع کر دیے تھے اور اس تنقیدکا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے یہ بیان اس لئے دیا تھا کہ اس کے پیچھے ایک کہانی تھی اور یہ کہانی پاک بھارت تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر ‘سیا چن اور دریائوں کے پانی پر ہونے والے دونوں ممالک کے بیک چینل رابطے اور مذاکرات تھے جو اپنی منزل کی جانب تیزی سے بڑھ رہے تھے ۔یہ بیک چینل مذاکرات کسی اورسے نہیں بلکہ نریندر مودی اور اس کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے کئے جا رہے تھے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی کی اگلی چار سالہ ٹرم کی وزارت عظمیٰ کے عہدے میں کامیابی کی صورت میں بھارت سے اچھے تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے حل کی امید ظاہر کی تھی تو اس بیان کا پس منظر وہی بیک چینل مذاکرات کی رفتار اور اس عمل میں بھارت کی سنجیدگی تھی۔اگر کسی کو یاد رہ گیا ہو تو پی پی پی کی فروری 2008ء کے انتخابات میں کامیابی اور پھر پرویز مشرف کے استعفیٰ کے بعد آصف علی زرداری کے بطور صدر حلف برداری کی تقریب کے موقع پر بھی کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ پی پی پی اب بہت جلد مسئلہ کشمیر کے حل کی خوش خبری دے گی کیونکہ اس سلسلے میں تمام معاملات طے ہو چکے ہیں ۔تاہم سال 2019ء پاک بھارت تعلقات میں یکے بعد دیگرے ہونے والے واقعات میں اس قدر تلخیاں لاتا رہا کہ وہ رابطے جو برصغیر میں امن کی کوششوں میں بہت حد تک کامیابی حاصل کر چکے تھے ان تلخیوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے۔
فروری2019ء میں پلوامہ میں بھارت کی سنٹرل ریزور پولیس فورس کے کانوائے پر حملے میں چالیس اہلکاروں کی ہلاکت نے بھارت میں ایک کہرام مچا دیا اور جلتی پر تیل کے ٹینکر گراتے ہوئے بھارتی میڈیا نے بغیر کسی تحقیق کے 'انتقام انتقام ‘کے نعروں کی گونج سے ہر ہندو ووٹر کے دل میں پاکستان کے خلاف ہی نہیں بلکہ جگہ جگہ کمزور بھارتی مسلمانوں کو بھی شعلوں کی نذر کر دیا‘ اسی نفرت کی آگ نے نریندر مودی کو دو تہائی اکثریت تھما دی۔ پھر کشمیر پر بیک ڈوررابطے ہوا ہو گئے بلکہ یہاں تک ہو گیا کہ پانچ اگست2019 ء کو مودی نے مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے موجود سات لاکھ فوج کے با وجود مزید فوجی بھیجتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کو اپنے گھروں میں محصور کرتے ہوئے ان کا ہر قسم کے سیٹلائٹ ذریعہ سے دنیا سے رابطوں کو معطل کرنے کے بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت کے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل370 کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو دو یونین علاقوں میں تقسیم کرنے کا بل منظور کرا لیا۔
قیام پاکستان سے اب تک پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے امن قائم رکھنے میں پہل کی ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کی ایک دنیا گواہ ہے۔ بھارت نے پلوامہ میں اپنے ملک اور اپنے ہی اہلکاروں کے ساتھ جو کیا اسے بھی وقت نے دنیا بھر کے سامنے آشکارکر کے رکھ دیا ہے اور جھوٹ کا وہ دھندہ جو اس ارنب گو سوامی جیسے میڈیا اینکرز اورجعلی سری واستو گروپ اور انڈین کرانیکلز نے شروع کر رکھا تھا وہ EU Info Labکے ہاتھوں نقاب کشائی کے بعد زمین بوس ہو چکا ہے اور اب دنیا بھر کا میڈیا بھارت کی کسی رپورٹ پر یقین کرنے سے پہلے کئی مرتبہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ٹی وی ریٹنگ میں فراڈ کے الزام میں گرفتار ا ر بھارت کے فائر برانڈ اینکرار نب گوسوامی کے کیس کی تحقیق کرتے ہوئے ممبئی پولیس نے گوسوامی کا واٹس ایپ چیٹ کا سارا ڈیٹا نکلوا کر اسے میڈیا میں وائرل کردیا۔ یہ ڈیٹا اتنا زیادہ تھا کہ 500 صفحات پر اس کا پرنٹ نکلا۔ اس واٹس ایپ چیٹ میں پلوامہ واقعے کی پوری صورتحال نمایاں ہو جاتی ہے ۔پلوامہ واقعے سے تین دن قبل گوسوامی کو اس واقعے کے بارے میں پتا تھا اور ایک ٹی وی ریٹنگ ایجنسی کے سربراہ کو گوسوامی نے بتایا تھا کہ کچھ بہت بڑا ہونے والا ہے۔بھارتی پروفیسراشوک سوائن پہلے ہی پلوامہ کوڈرامہ قراردے چکے ہیں۔ اشوک کے مطابق مودی نے پلوامہ میں وہی کیا جو 2002ء میں گجرات میں کیاتھا۔ اشوک سوائن کے مطابق مودی نے ووٹ بٹورنے کے لیے پلوامہ ڈرامہ رچایا۔اس واقعے کے بعد بھارتی جنگی طیارے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو ئے ۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے بروقت جوابی تیاری نے بھارت کو کسی سٹرائیک کا موقع نہ دیا اور بھارتی طیاروں کو جنگل میں اپنا گولہ بارود گرا کر سراسیمگی میں واپس دوڑنا پڑا مگر 1971ء کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بھارتی جنگی طیارے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ اس سے اگلے روز پاک فضائیہ کی شاندار کارروائی میں بھارت کے دو طیارے تباہ ہوئے اور ایک طیارے کا کیپٹن ابھی نندن پاکستان کی حراست میں آ گیا۔
تاہم ایک قریبی دوست ملک کی میزبانی میں پاک بھارت امن کے لیے ہونے والے بیک چینل مذاکرات کا نتیجہ ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر ہونے والی آئے روز کی گولہ باری میں اچانک خاموشی کی صورت میں دکھائی دینے لگا ہے۔ دوست ملک کی سر زمین پراب تک ہونے والے مذاکرات میں پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کشمیر پر ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔آرٹیکل370کی پھر سے بحالی‘ مقبوضہ کشمیر میں سیا سی عمل کی بحالی اور گرفتار کئے گئے تمام کشمیریوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنے کے علا وہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے بھارت کی جانب سے کی جانے والی حرکات پر بھی اعتراض کیا ہے۔ دوست ملک کی میزبانی میں شروع ہونے و الے مذاکرات کے آغاز میں بھارت نے وہی پرانی رَٹ لگانے کی کوشش کی کہ جب ہمارے تعلقات بحال ہوں گے تجارت ہو گی اورویزوں کے اجرا میں نرمی ہونے پر لوگ کثرت سے ایک دوسرے کی جانب جانا شروع ہوں گے تو آپس کی غلط فہمیاں ختم ہونے لگیں گی اور پھر وہ وقت بھی آئے گا کہ ہم کشمیر پر جو بھی فیصلہ کریں گے بھارت کے اندر ہماری کوئی زیا دہ سیا سی مخالفت نہیں ہو گی۔بھارت کی جانب سے کہا گیا کہ نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کا دورہ کریں گے جہاں وہ کشمیریوں کے لیے نرمی اور ایسی مراعات کاا علان کریں گے جن سے مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ نکل آئے گی۔بھارت نے اسی نیت سےCovid-19 ویکسین بھاری تعداد میں پاکستان کو تحفے میں بھیجنے کی پیشکش بھی کی‘ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ٔسری لنکا کے لیے بھارتی ایئر سپیس سے گزرنے کی ا جا زت اور وزیر اعظم عمران خان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر نریندر مودی کی جانب سے صحت بحالی کی نیک خواہشات کاپیغام اور یوم پاکستان پر تہنیتی پیغام اسی سلسلے کی کڑی ہے۔جواب میں پاکستان نے دوست ملک کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ پاکستان سے نان سٹیٹ ایکٹرز بھارت میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔بھارت نے کپاس اور چینی بھیجنے کی پیشکش کی تھی جس پر ہماری وزارت تجارت نے جلد بازی میں بغیر مشورہ اور غور کرنے کے سمری تیار کر کے آگے بڑھا جس پر کابینہ نے حقیقت پسندانہ فیصلہ کیا کہ جب تک بھارت پانچ اگست کا فیصلہ واپس نہیں لیتا یہ تجارت نہیں ہو گی ۔اس انکار پر بھارت نے کوئی رد عمل نہیں دیا ۔