"MABC" (space) message & send to 7575

تیل، ایران، چین اور خلیج

فرض کیجئے کہ ایران اپنے تیل کا سب سے زیادہ حصہ چین کو بیچنا شروع کر دے یا چین‘ جو دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے‘ اگر اپنی ضرورت کا سب سے زیادہ تیل ایران سے خریدنا شروع کر دیتا ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ ہو گا یہ کہ چین دوسرے ممالک سے اپنی توانائی کے حصول کا انحصار کم کر دے گا جن میں خلیجی ممالک بھی شامل ہوں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خلیجی ممالک کے تیل کا ایک بڑا گاہک چھن جانے سے ان کے سودوں میں کمی ہو جائے گی جبکہ دوسری جانب ایران کا چین پر انحصار اس لئے بھی سودمند ہو گا کہ امریکا، برطانیہ اور یورپ اگر پہلے کی طرح ایران پر معاشی پابندیاں عائد کر تے ہیں تو چین ان پابندیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا، اسے ان ممالک کی کوئی پروا نہیں ہو گی اور وہ ایران سے تجارت اور اس کا تیل بغیر کسی ڈر اور خوف کے خریدتا رہے گا جس سے ایران کی معیشت کو زبردست سہارا مل سکتا ہے۔ ایرانی قوم کی ضرورت کی ایسی تمام اشیا‘ جنہیں یورپ کی جانب سے ایران کیلئے شجر ممنوعہ قرار دے دیا جائے گا‘ ایران وہ سب کچھ چین سے بہ آسانی خرید سکے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران چین سے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کر کے مغرب کی مکمل محتاجی کے دائرے سے نکل سکتا ہے۔ دوسری طرف چین کی ایران میں سرمایہ کاری سے اس کا خطے میں سیاسی اور دفاعی عمل دخل بڑھنے لگے گا اور ایسے میں جب چین اربوں ڈالرز ایران میں سرمایہ کاری کیلئے لائے گا تو اس سے ایران کی معیشت کو بہت بڑا سہارا ملنے سے ایران کی فوجی طاقت بھی چین کی مدد اور تعاون سے بڑھنا شروع ہو جائے گی، پھر چین اپنے سرمائے سے شروع کئے گئے پروجیکٹس کی حفاظت کیلئے کسی بھی بیرونی حملے یا مداخلت کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھے گا، یورپ اور اسرائیل کی بھی یہ جرأت نہیں ہو سکے گی کہ وہ چینی منصوبوں پر حملہ کر سکیں یا ایسے مقامات کو نشانہ بنائیں جس سے چین کے مفادات کو زک پہنچے۔
جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا تھا‘ اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن کی وائٹ ہائوس سے ایک مختصر تقریر نشر کی گئی جو انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ اس تقریر کے مطابق امریکا یکم مئی سے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل شروع کر رہا ہے اور گیارہ ستمبر تک امریکا اپنی تمام افواج افغانستان سے واپس بلا لے گا۔ امریکی صدر کی تقریر کا سب سے اہم فقرہ اور حوالہ ان بیس برسوں کا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ امریکا اب ماضی کے بیس برسوں کی جانب دیکھنے کے بجائے اگلے بیس برسوں کو سامنے رکھے گا۔ اکتوبر 2011ء میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان میں امریکی فوجیں لانے کی جو غلطی کی تھی‘ لگتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اور صدر جو بائیڈن ویسے ہی فوجوں کا رخ سائوتھ چائنا سمندر اور ایران سمیت عرب ممالک، خلیج اور برصغیر کی طرف موڑنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ سی آئی اے ان علا قوں میں اپنے پلان یکلخت نہیں شروع کرے گی بلکہ بغیر محسوس کرائے یہ پلان پانچ سے دس برس پہلے سے شروع کر دیے جاتے ہیں اور امکان ہے کہ 2022ء یا شاید اس سے بھی پہلے اس کے اثرات دکھائی دینے لگیں گے۔ امریکا کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ ایران سے توانائی کے حصول میں چین کامیاب ہو اور پرشین گلف بھی چین کے زیر اثر چلا جائے اور یہاں چینی کرنسی مضبوط ہو؟ ایران اور چین نے جس معاہدے پر دستخط کئے ہیں اس میں چینی کرنسی کی شرط نے امریکا سمیت تمام مغربی ممالک کو چونکا دیا ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ اب مڈل ایسٹ کے تیل کے سودے‘ جو مدتوں سے امریکی ڈالر کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں‘ آہستہ آہستہ چینی کرنسی میں تبدیل ہوتے جائیں گے اور ابتدا میں ایران‘ چین معاہدہ ہوا کا ایک لطیف جھونکا محسوس ہو رہا ہے۔ کوئی ملک چینی کرنسی کی طرف جانے کا سوچے تو کیسے ممکن ہے کہ امریکی حکام اور ادارے اس سے بے خبر ہوں؟ یقینا وہ اپنی پلاننگ میں مصروف ہوں گے اور جو امریکا کی روایت رہی ہے‘ وہ خطے کے حالات خراب کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہ درست ہے کہ چین ایران سے زیادہ سے زیادہ توانائی کے وسائل خریدنے میں انتہائی سنجیدہ ہے مگر ساتھ ہی اس کی یہ بھی خواہش ہے کہ امریکی ڈالر کی طرح اس کا یوآن بھی دنیا میں مضبوط ہو اور اسے تمام بین الاقوامی سودوں میں استعمال میں لایا جائے، کسی پر یہ پابندی نہیں ہونی چاہئے کہ ڈالر کے سوا کسی دوسری کرنسی میں لین دین نہیں کیا جا سکتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاہدے سے ایران کی معیشت مضبوط ہو گی اور اس کی تیل کی برآمد بڑھنے سے اس کی معیشت کا حجم بھی بڑھے گا جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا، اس لئے وہ ایران کو گھیرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
اگرچہ امریکی چھتر چھایہ تلے خود کو محفوظ سمجھنے والے خلیجی ممالک کسی بھی صورت چینی کرنسی کو امریکی ڈالر کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہوں گے‘ اس لئے جب بڑے خلیجی ممالک چینی کرنسی میں تیل کے سودے قبول نہیں کریں گے تو چینی حکومت یہ کہتے ہوئے ان ممالک سے تیل خریدنا یا تو کم کر دے گی یا بالکل بند کر دے گی کہ اگر ایران چینی کرنسی میں تمام سودے کرنے کیلئے تیار ہے تو پھر ہمیں اپنی کرنسی اور سہولت کیلئے ایران سے ہی تیل خریدنا زیادہ مناسب محسوس ہوتا ہے۔
حال ہی میں امریکا نے اسرائیل کے ذریعے ایران کی نیوکلیئر سائٹ پر جو حملہ کرایا‘ میری نظر میں وہ ایران اور چین کے اعصاب اور ردعمل کا اندازہ کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی حملے سے ایران کا زبردست نقصان ہوا ہے اور وہ ابھی تک اسرائیل کو سوائے زبانی دھمکیاں دینے کے‘ اور کچھ نہیں کر سکا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس حملے سے چین کو یہ اشارہ دے دیا گیا ہے کہ وہ اس معاہدے سے باز رہے۔
چین نے ایران کے بعد مڈل ایسٹ کی دوسری ریاستوں کو اپنے مستقبل اور بہترین سودوں کی جانب آنے کی تحریک دے دی ہے۔ یہ وقت بتائے گا کہ کون اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے البتہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکا اب اپنی پوری توجہ خلیج، ایران، ایشیا اور برصغیر کی جانب مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اپنے وقتی مفادات کیلئے پاکستان کو استعمال کرنے کیلئے اس کی اہمیت پہلے سے بڑھ جائے گی۔ ممکن ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں جس سے امریکا کو چین کا راستہ روکنے میں مدد مل سکے۔ میرے خدشات تو یہی ہیں کہ پاکستانی سیاست میں نظر آنے والی ہلچل اور تبدیلیاں مستقبل کے کسی ممکنہ پلان کو پایہ تکمیل کی جانب لے جانے کیلئے پیدا کی جا سکتی ہیں۔
اگر امریکا اپنی کسی بھی قسم کی فوجی قوت کو خلیج فارس میں ایران کی جانب بڑھاتا ہے اور چین اپنے بحری بیڑے پرشین گلف کی جانب روانہ نہیں کرتا تو سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا اور دوبارہ سے سمٹنا شروع ہو گیا ہے، لیکن اگر چین ردعمل کے طور پر آگے بڑھتا ہے تو اس سے پرشین گلف سمیت پورے خلیج میں امریکا کیلئے بے تحاشا مسائل سر اٹھا سکتے ہیں۔ ایران معاشی پابندیوں سے بے نیاز ہو کر بے خوف ہو جائے گا، ڈالر کے بجائے مڈل ایسٹ چینی کرنسی یوآن کی جانب بڑھنے لگے گا اور سب سے بڑھ کر چین اپنی فوجی قوت سمیت پرشین گلف میں آ بیٹھے گا۔
اگر پاکستان چاہے تو ایران ا ور چین کے اس معاہدے سے بے پناہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے اسے اپنی کشتیاں جلا کر میدان میں اترنا ہو گا۔ عوامی جمہوریہ چین ایران سے پچیس سالہ معاہدے کے تحت 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے جس میں توانائی کا شعبہ سب سے اہم ہے۔ ایران چین معاہدے سے مغربی رستے سے آذربائیجان، ترکی اور مشرقی حصے میں پاکستان سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کیلئے تو اور بھی آسانیاں ہیں کیونکہ BRI (بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی اٹیو) اور اس سے منسلک سی پیک میں اس کا مرکزی کردار اسے سب سے نمایاں کرتا ہے۔ سی پیک، مغربی روٹ اور آذربائیجان، ترکی اور پاکستان کی تین طرفہ کوآرڈینیشن میں ایران کی شمولیت سے TIPA Regional Integration Network ترقی کی راہیں کھول دے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں