نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ نے متعدد مواقع پر اپنے دستِ مبارک سے درخت لگا کر صحابہ کرامؓ اور بعد کے تمام انسانوں کو درخت لگانے کی ترغیب دی اور نصیحت کی کہ زمین کو غیر آباد چھوڑنے کے بجائے اسے کاشت کاری اور شجر کاری کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس حوالے سے اتنی ترغیب دی کہ فرمایا:اگر کوئی شخص کوئی پودا یا درخت لگا رہا ہو اور قیامت برپا ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا کام جاری رکھے۔ (مسند احمد) دینِ اسلام میں جنگ کے دوران بھی درختوں اور فصلوں وغیرہ کو کاٹنے، جلانے یا نقصان پہنچانے سے سختی سے منع کیا گیا جبکہ رسول اللہﷺکا یہ بھی فرمان ہے کہ جو مسلمان کوئی پودا اگاتا ہے تو اس میں سے جو کچھ کھایا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس سے کم (چوری وغیرہ) ہو جائے‘ وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے۔ (صحیح مسلم)
بدقسمتی سے ہمارا ملک ٹمبر مافیا اور کرپشن کی وجہ سے اس وقت درختوں کی بدترین کمی کا شکار ہو چلا ہے حالانکہ درختوں کو بے دریغ کاٹنے والے بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ سمندروں کے کڑوے پانی کا ٹھنڈے میٹھے چشموں میں ڈھلنا درختوں کا ہی مرہون منت ہوتا ہے۔ کئی دہائیاں پہلے جب سکول میں ہمارے سائنس کے استاد نے یہ بتایا تو ان کی بات ہمارے سروں کے اوپر سے گزر گئی تھی۔ اس وقت استاد کے ادب اور خوف نے ہمارے ہونٹ سی دیے تھے لیکن بعد میں ہم اس پر خوب ہنسے کہ بھلا درختوں کا چشموں اور سمندر کے کڑوے پانی سے بھی کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟ یہ تو بہت بعد میں بھید کھلا کہ سمندروں سے آبی بخارات کی شکل میں اٹھنے والا پانی بارش کی شکل میں برستا ہے تو درختوں سے آہستہ آہستہ زر خیز مٹی‘ جو درختوں کے ہی پتوں اور شاخوں سے بنی ہوتی ہے‘ میں جذب ہوتا ہے۔ یہ مٹی ایک بے مثال فلٹر کا کام دیتی ہے اور بارش کے پانی کو تمام کثافتوں سے پاک کرتے ہوئے زمین کی تہہ میں اتار دیتی ہے جہاں صحت بخش معدنیات اور جڑی بوٹیوں کی آمیزش اسے انتہائی میٹھا اور زود ہضم بنا دیتی ہے۔ پھر یہ پانی بنی نوع انسان اور ہر قسم کے چرند پرند کی پیاس بجھانے کیلئے چشموں کی صورت میں پہاڑوں کے سینوں سے ابل پڑتا ہے۔ اس لئے انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ درخت اس کا سب سے سچا اور مخلص دوست ہے‘ جسے انسان کی اور اس کے بچوں کی صحت و تندرستی بہت عزیز ہے۔
یہ بات درست ہے کہ درخت لگانا ماحولیاتی تبدیلی سے بچائو اور نباتاتی تنوع کے تحفظ کا بہترین ذریعہ ہیں لیکن لندن کے کیو گارڈن میں رائل بوٹینیکل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سب درخت ایک ہی جگہ پر نہیں لگانے چاہئیں کیونکہ غلط جگہوں پر لگائے گئے درختوں سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ درخت وہاں لگائے جائیں جہاں پہلے کبھی جنگل رہا ہو‘ دلدلی میدان اور گھاس والی زمین بھی شجر کاری کے لئے انتہائی مناسب سمجھی جاتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو عالمی بینک کی وہ رپورٹ یقینا مل چکی ہو گی جس میں پاکستان کے 6 اضلاع کی نشاندہی کرتے ہوئے وارننگ دی گئی ہے کہ اگر یہاں بھرپور شجر کاری نہ کی گئی تو 2050ء تک یہ اضلاع ریگزاروں میں تبدیل ہو جائیں گے۔
2015ء کی گرمی نے برطانیہ سمیت پورے یورپ کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا، جس پر اسی سال فرانس میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے ماحولیاتی تبدیلی کے تحت ایک کانفرنس منعقد کی گئی اور دنیا کے 195 ممالک کو توانائی کے ذرائع کی تبدیلی کی تجاویز دی گئیں مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے درجنوں ممالک سے تیل، گیس اور کوئلے پر مشتمل نامیاتی ایندھن کے استعمال کا حق چھیننا کس قدر مناسب ہے؟ ہمیں گرین انرجی کا سبق پڑھانے والے امیر ملک خود 200 برس تک یہ ذرائع کھل کر استعمال کرتے رہے اور دنیا بھر میں تباہی پھیلاتے رہے، اب اگر پسماندہ، غریب اور ترقی پذیر ممالک جو مہنگی شمسی توانائی اور پن بجلی جیسے توانائی ذرائع کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ ان ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں تو انہیں پابندیوں کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ ایسی پابندیوں کی صورت میں نئے توانائی کے ذرائع کے اخراجات کون اٹھائے گا؟ غریب ممالک کو بلند ہوتی ہوئی سمندری سطح، شدید خشک سالی اور شدید گرمی کی لہر سے نمٹنے اور مطابقت پیدا کرنے کیلئے درکار وسائل کون دے گا؟ کیا مستقبل میں بڑھنے والے درجہ حرارت کے اثرات کے شکار ترقی پذیر ملک امیر اور بڑے ممالک پر ماضی میں ماحول کو آلودہ کرنے والی گیسوں کے اخراج پر مقدمہ دائر نہیں کیا جانا چاہیے؟ کیا ان سے ہرجانہ لے کر تمام ممالک کو گرین انرجی پر منتقل نہیں کرنا چاہیے؟
پچیس اپریل کو ''دنیا ٹی وی‘‘ کے پسندیدہ پروگرام ''حسب حال‘‘ میں اینکر پرسن جنید سلیم نے بے موسمی بارشوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ قرار دیتے ہوئے درست کہا کہ یہ بارشیں فروری میں ہونا تھیں جن سے گندم کی فصل کو چار چاند لگ جاتے لیکن اب یہ بارشیں اپریل اور مئی میں ہو نے لگی ہیں اور کسی کو بھی احساس نہیں کہ اس کی اصل وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ چند روز قبل امریکی صدر جو بائیڈن کی خصوصی دعوت پر دنیا کے چالیس ممالک کو ''گیسوں کے اخراج کے ہدف‘‘ کے حوالے سے کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔ ان میں سے 17 ایسے ممالک کے سربراہ بھی تھے جنہیں زہریلی گیسوں کے 80 فیصد اخراج کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں ماحولیاتی آلودگی کے خلاف موثر اور مشترکہ حکمت عملی پر عملدرآمد کے فیصلے کئے گئے۔ وزیراعظم عمران خان کا بلین ٹری منصوبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن بدقسمتی سے پنجاب میں اس حوالے سے متعلقہ محکموں نے چند ہفتے تک رنگ برنگے ٹرک اور بینرز لگانے پر ہی اکتفا کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئے لگائے گئے درخت خال خال ہی دکھائی دے رہے ہیں ۔ آج پنجاب بھر کے دیہات کا سروے کریں تو وہ پنجاب‘ جس کے ہر گھر میں ایک‘ دو درخت ہوا کرتے تھے‘ آج درختوں کی شدید کمی کا شکار نظر آئے گا۔ آج ان کی تعداد پنجاب جیسے زرعی صوبے میں 22 فیصد تک رہ گئی ہے اور ہمارے دیہات کی جب یہ حالت ہے تو شہروں کا ذکر ہی کیا۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ وزیراعظم کے عظیم مشن کو محض کاغذی کارروائیوں تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔
نئی طبی تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے لوگوں کی اوسط عمر میں تین سال کی کمی آ رہی ہے۔ کارڈیو ویسکیولر ریسرچ جرنل کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہماری زندگیوں میں سے 2.9 برس کم ہو گئے ہیں۔ زمین، پانی اور فضا کی ماحولیاتی آلودگی ایک عالمگیر وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ نجانے ہمارے دیہات اور شہروں کے لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ یہ درخت ہی ہیں جو فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور زمین سے پانی چوس کر سورج کی روشنی اور اپنے پائے جانے والے سبز مادے ''کلوروفل‘‘ کی مدد سے اپنے لیے گلوکوز اور ہمارے لئے آکسیجن پیدا کرتے ہیں، اس عمل کو ضیائی تالیف کہا جاتا ہے۔ درخت فضا اور ماحول کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک کر رہے ہیں جو ایسی زہریلی گیس ہے کہ جس سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ درختوں کی اہمیت بتانے کیلئے نہ جانے کتنے صفحات پر مشتمل کتابوں اور مقالوں کی ضرورت ہے مگر یہ کیا کم ہے کہ اگر درخت نہ ہوں تو بارشوں کا پانی زمین میں جذب ہونے کے بجائے اس کی سطح پر ہی تیرتا ہوا واپس سمندروں کی نذر ہو جاتا ہے۔ یاد رکھئے گا کہ اس وقت تک پاک سر زمین شاد باد نہیں ہو سکتی جب تک ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں کسی ایک درخت کی اسی طرح پرورش نہ کرے جس طرح اپنی اولاد کی کرتا ہے کیونکہ انسان کو جان لینا چاہئے کہ درخت زمین کے کٹائو کو بھی روکتے ہیں جس سے ہمارے ڈیموں کی زندگیاں بڑھنے کے علاوہ ان کی استعداد اور کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
وہ مری جسے ہم 1980ء کی دہائی میں دیکھا کرتے تھے‘ آج درختوں کے بغیر کسی بیوہ کی اجڑی ہوئی مانگ کی طرح لگتا ہے۔ ٹمبر مافیا نے گلیات اور کے پی سمیت شمالی علاقہ جات کو انتظامیہ، پولیس، محکمہ مال اور محکمہ جنگلات کی مبینہ مدد سے اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے ملک میں پھیلے ہوئے جنگلات‘ جو کبھی ہماری دھرتی کا حسن ہوا کرتے تھے‘ مختلف پیٹوں کے ایندھن کی نذر ہو چکے ہیں۔ نجانے ہمارے روایتی اور غیر روایتی تعلیم کے ادارے اس قوم کو یہ سمجھانے میں کیوں ناکام رہے ہیں کہ درخت پر کلہاڑی یا آرا چلانا ایسے ہی ہے جیسے اپنے بچے یا خود اپنے پائوں پر کلہاڑی چلانا۔