"MABC" (space) message & send to 7575

کوئی بھی خرید سکتا ہے؟

سات جولائی 2018ء کو بھارت کے شہر کولکتہ سے پانچ بھارتی باشندوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے قبضے سے ایک کلو یورینیم بر آمد ہوا تھا جس نے کولکتہ سے نئی دہلی تک ہلچل مچا دی تھی۔ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ اس یورینیم کی ڈیل تھرڈ پارٹی سے انڈین کرنسی میں 3 کروڑ روپے کے عوض طے پا چکی تھا اور یہ ایک کلو گرام یورینیم زرد رنگ کے دو پیکٹوں میں رکھا ہوا تھا۔ اس وقت کے جوائنٹ کمشنر پولیس کرائمز نے میڈیا کو یورینیم برآمد کرنے کی تصدیق سے انکار کر دیا لیکن انڈیا کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والے سینئر سائنسدان روی کمار گپتا نے بھارتی ٹی وی چینل NewsX کو انٹرویو دیتے ہوئے جوائنٹ کمشنر پراون ٹھاکر کے جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ یہ خالص یورینیم ہے، اسے اب پولیس جو بھی نام دے لیکن یورینیم کوئی بھی ہو‘ ٹاکسن کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ روی کمار کے الفاظ میں:
Even low grade or lower radiation uranium can be used as a Toxin.
12 مارچ 2021ء کی شام ملنے والی ایک اطلاع پر نیپالی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا تو وہاں سے ڈھائی کلو گرام خام یورینیم برآمد ہوا۔ تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ یہ یورینیم بھارت سے سمگل کر کے لایا گیا تھا۔ گرفتار شدگان میں شامل ایک خاتون نے ایس ایس پی سشیل سنگھ راٹھور کو بتایا کہ اس کے سسر گزشتہ بیس برسوں سے بھارت کے ایٹمی مرکز میں کام کر رہے ہیں‘ یہ یورینیم انہوں نے ہمیں فراہم کیا ہے۔
8 مئی 2021ء کو بھارت میں مہاراشٹر پولیس کی انسداد دہشت گردی شاخ کے انٹیلی جنس ونگ نے جگر جے ایش پانڈیہ اور افضل چودھری نام کے دو افراد کو ممبئی کے نواح سے گرفتار کیا۔ ان افراد کے قبضے سے سات کلو ایک سو گرام قدرتی یورینیم برآمد کیا گیا ہے جس کی قیمت مارکیٹ میں 21 کروڑ بھارتی روپے بتائی گئی ہے۔ اے ٹی ایس کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کی خصوصی شاخ نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر ملزم جگر پانڈیہ کو یورینیم کی کچھ مقدار کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ پانڈیہ اس یورینیم کی فروخت کے لیے گاہک کی تلاش میں تھا۔ بھارت کے اٹامک سنٹر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ مادہ قدرتی یورینیم ہے اور ''انتہائی تابکار‘‘ معیار کا ہے جو انسانی زندگی کے لیے شدید خطرناک ہو سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے ممبئی پولیس کی انسدادِ دہشت گردی یونٹ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل شیو دیپ لانڈے کے حوالے سے خبر دی کہ جو قدرتی یورینیم برآمد کیا گیا ہے وہ 90 فیصد سے زیادہ خالص ہے۔
یہ اس بھارت کی چند مثالیں ہیں جس نے ڈاکٹر قدیر کے حوالے سے دنیا بھر میں آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا اور امریکا سمیت تمام مغربی ممالک سوتے جاگتے ایک ہی راگ الاپتے تھے کہ پاکستان کے نیو کلیئر اثاثے محفوظ نہیں ہیں، شدت پسندوں کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں۔ اسی بھارت میں ہونے والے یہ تین واقعات چیخ چیخ کر دنیا اور اقوام متحدہ کو بتا رہے ہیں کہ بھارت میں حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ نیوکلیئر دھماکوں میں استعمال ہونے والے یورینیم کے بھارت کے گلی کوچوں میں سودے ہونے لگے ہیں جسے کوئی بھی خرید کر عالمی امن کو تہس نہس کر سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں دس سے زیادہ ممالک افزودہ کیے گئے یورینیم کی خریداری کیلئے تگ و دو میں ہیں اور ایسے میں اگر ان میں سے کسی ایک کو بھنک بھی پڑ جائے کہ بھارت کے ایٹمی مراکز میں کام کرنے والے سینئر اہلکار سات کلو افزودہ یورینیم کی فروخت کیلئے ''آن لائن‘‘ تجارت کر رہے ہیں تو اس کے نتائج دیکھنے کیلئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ وقفے وقفے سے واشنگٹن میں یہ جو رونا رویا جاتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں‘ تو کیا امریکا اور مغربی ممالک سمیت ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے حساس ملک جاپان کو دکھائی نہیں دے رہا کہ بھارت کے کم از کم 8 نیوکلیئر ری ایکٹرز ''آئوٹ آف سیف گارڈز‘‘ ہیں اور ایک سوالیہ نشان بن کر پوری دنیا کیلئے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔ مذکورہ آٹھ بھارتی ایٹمی ری ایکٹرز کی سکیورٹی کسی عام سی فوجی تنصیب کی سکیورٹی کے معیار کے برابر کیوں ہے؟ یہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے طے کردہ سکیورٹی معیار سے انتہائی کم تر ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کے لیے خطرے کا باعث بن چکے ہیں۔
IINDIA's Nuclear Exceptionalism & India's Strategic Nuclear and Missile program کے نام سے کنکز کالج برطانیہ کی ترتیب دی گئی دو رپورٹس‘ جن میں بھارت کے 2600 سے زائد ایٹمی ہتھیاروں کا جائزہ لیا گیا ہے‘ سامنے رکھیں تو دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا ہوا شخص ان کی کمزور سکیورٹی اور نقل و حمل بارے جان کر کانپ کر رہ جائے گا۔ پاکستان کا اپنے جوہری اثاثوں کی سکیورٹی کیلئے نظام اس قدر مربوط اور فول پروف ہے کہ اس نے پچیس ہزار کے قریب انتہائی تربیت یافتہ، چاق و چوبند فوجی نفری ایٹمی اثاثوں کی ہمہ وقت سخت ترین حفاظت کیلئے مقرر کی ہوئی ہے۔ نیو کلیئر اثاثوں کے تہہ در تہہ حفاظتی حصار، قدم قدم پر ناقابل عبور رکا وٹوں اور ہر قسم کے مواد کی بھرپور سکیننگ کیلئے جدید ترین مشینیں اور آلات، ایٹمی اثا ثوں کیلئے علیحدہ علیحدہ مقامات اور ان کے گرد سکیورٹی کا جامع اور ناقابل تسخیر حصار ان تمام شرائط اور انتظامات کو پورا کرتا ہے جو IAEA نے نیوکلیئر اثاثوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے اپنے نیوکلیئر اثاثوں کی حفاظت اور ممکنہ حالات سے موثر اور بروقت نمٹنے کیلئے الگ سے موبائل ایکسپرٹ امدادی ٹیمیں تعینات کر رکھی ہیں اور یہ سب ان پچیس ہزار انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کی نفری کے علاوہ ہیں جو ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ ان سب ذمہ داریوں کی براہ راست نگرانی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کیلئے خصوصی طور پر تشکیل دیئے گئے ایک ادارے کے ذمے ہے جو بلاشبہ اپنی تشکیل کے وقت سے فرائض اور طے کردہ طریق کار پر جانفشانی سے عمل پیرا ہے۔
اپنے نیوکلیئر اثاثوں کی حفاظت کیلئے جس قسم کے حفاظتی اور انتظامی انتظامات پاکستان نے اختیار کر رکھے ہیں‘ ان کے پیشِ نظر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ایٹمی صلاحیتوں کے حامل کسی بڑے سے بڑے ملک میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود امریکا اور مغرب ایک ہی راگ الاپے جا رہے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں اور یہ کسی بھی وقت دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ کسی امریکی سینیٹر یا رکن کانگریس نے عالمی میڈیا اور یورپ سمیت امریکا کے مختلف اداروں کیلئے لیکچرز دینے کی خواہش پوری کرنی ہو تو وہ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام اور اثاثوں پر تنقید کرتے ہوئے خود ساختہ کہانیاں بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔
کیا دنیا بھر کے میڈیا اور معلوماتی اداروں کیلئے یہ بات حیران کن نہیں کہ ان کی ہر روز نئی گھڑی جانے والی کہانیوں کے باوجود اب تک پاکستان کے پاس ایک ایسا منفرد اعزاز ہے جو کسی اور نیوکلیئر سٹیٹ کے پاس نہیں ہے۔ وہ یہ کہ
Pakistan is the only nuclear country with zero incidents of mishap.
کیا امریکی رکن سینیٹ اور کانگریس سمیت اس کے تمام تھنک ٹینکس امریکا میں ایٹمی تابکاری کی غفلت کے اَن گنت واقعات کی تردید کر سکتے ہیں؟ کئی برس تک القاعدہ کا شور مچایا گیا کہ وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار پر قبضہ کر لے گی اور جب القاعدہ کا شوشہ اور خوف مٹ گیا تو پھر کہا جانے گا کہ یہ طالبان کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں‘ اب جبکہ طالبان صرف افغانستان تک محدود ہو چکے ہیں تو اب داعش اور اس سے منسلک انتہا پسندوں کا ہوّا کھڑا کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے نام پر کھلی دھمکیاں تو دوسری جانب بھارت کی سپیشل سروسز گروپ پر مشتمل 45 رکنی ٹیم‘ جو اسرائیل میں دو ہفتے کی مشترکہ ایکسر سائز کیلئے بھیجی گئی تھی۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فوجی کمانڈوز کی اس 45 رکنی ٹیم کو اسرائیل بھیجنے کا مقصد ''کراس بارڈر کائونٹر ٹیررزم آپریشنز‘‘ میں جدید خطوط پر مہارت حاصل کرنا تھا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس 45 رکنی کمانڈو ٹیم کے ہمراہ بھارتی ایئر فورس کے گروپ کیپٹن ملوک سنگھ ''بلیو فلیگ ایئریل ایکسرسائز‘‘ کے کوڈ نام سے کن مقاصد کیلئے اسرئیل کی سپیشل فورسز میں حصہ لیتے رہے۔ بلیو فلیگ کے نام سے یہ مشقیں اسرائیل کے Uvda ایئر بیس پر ہوئیں۔ انڈین آرمی کی ایس ایس جی ٹیم‘ جسےGARUD کمانڈوز کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جس کا ماٹو Defence by Offence ہے‘ کی اسرائیلی فوج کی کمانڈو یونٹس کے ساتھ مشترکہ مشقیں ایسے ہی تو نہیں تھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں