یہ اطلاع حیران کن تھی کہ یورپ اور امریکا میں تعینات سفارت کار وں کی بہت بڑی اکثریت نے انہی ممالک کی شہریت حاصل کر رکھی ہے۔ اس خبر کے بعد آپ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ سرکاری نوکری کے ساتھ غیر ملکی شہریت لینے والوں میں اپنے ہم وطنوں کیلئے کسی قسم کا احساس یا ہمدردی پیدا ہوتی ہو گی؟ کویت‘ سعودی عرب‘ انگلینڈ‘ متحدہ عرب امارات سمیت جرمنی اور فرانس سے اوور سیز پاکستانی یہی التجا کرتے نظر آتے ہیں کہ وزیراعظم سے کہیں کہ ان سفارت کاروں کو یہ باور کرائیں کہ اپنے دروازے کے باہر کئی کئی دن کھڑے رہنے والوں کی مدد کیا کریں۔ اور یہ شکایات ملک بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس شدت سے ابھرنے لگیں کہ آخرکار وزیراعظم کی قوتِ برداشت اس وقت جواب دے گئی جب سعودی عرب میں مار پیٹ کی وڈیوز ان تک پہنچ گئیں۔ اسی وجہ سے وہاں کے سفارتی عملے سے سخت باز پرس کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ سلسلہ صرف سعودی عرب تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں سفارتی عملہ ایمبیسی میں آنے والے پاکستانیوں کو زیادہ وقعت دینے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ سعودی عرب، برطانیہ، کویت، جاپان، چین، فرانس، جرمنی اور عرب امارات کے سفارت خانوں میں جو کچھ اوور سیز پاکستانیوں سے ہوتا رہا ہے‘ وہ اس قدر افسوس ناک ہے کہ انہیں دہرانے کی ہمت بھی نہیں ہے۔
تنگ آمد‘ بجنگ آمد کے مصداق جب حکومت کی قوتِ برداشت یہ سلوک دیکھ کر جواب دینے لگی تو وزیراعظم نے ایک دن تمام سب سفارتکاروں کو اوور سیز پاکستانیوں سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرنے کیلئے وڈیو کانفرنس کا انعقاد کیا جسے دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں نے بے تحاشا سراہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پسندیدگی کے پیغامات اور فون کالز کا ایک لامتناہی سلسلہ اس حوالے سے شروع ہو گیا۔ ابھی یہ جذبات زوروں پر تھے کہ اچانک جناب وزیراعظم کے معذرت خواہانہ بیان نے ان خوشیوں اور تحسینی کلمات کو گنگ کر کے رکھ دیا۔ نجانے کس نے وزیراعظم کو وزارتِ خارجہ کے افسران کو دیارِ غیر کے چپے چپے میں بیٹھے اپنے ہم وطنوں یعنی پاکستانیوں کو انسان اور ایک پاکستانی سمجھ کر شائستگی سے بات کرنے کی تلقین کو بھی برا محسوس کیا ۔
کرۂ ارض کے ہر قابل ذکر ملک‘ جہاں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں‘ میں موجود اوور سیز پاکستانی وزیراعظم کی دنیا بھر میں تعینات سفارت کاروں سے براہ راست گفتگو کو ایک حقیقی تبدیلی کا نام دے کر ایک دوسرے کو مبارک بادیں دے رہے تھے۔ ان سب کو اس دن احساس ہو رہا تھا کہ ان کی پندرہ‘ بیس سال کی محنت، تحریک انصاف کیلئے فنڈز کی فراہمی اور سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کے وژن کے فروغ اور اس کی مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز اور کوشش کو ناکام بنانے میں ان کی شب و روز کی محنت رائیگاں نہیں گئی اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا حکمران دیکھنے کو مل رہا ہے جو ان سفارت کاروں کو یہ احساس دلا رہا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں بسنے والے ان پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی سے بھیجے گئے زرمبادلہ کے ذریعے ہی آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو آسائشیں، آرام اور مراعات دی جا رہی ہیں، لہٰذا ان پاکستانیوں کی جانب محبت اور خلوص کا ہاتھ بڑھایا کریں‘ ان کے دکھ، تکلیف اور مسائل کو دھتکار کر ان سے رشوت اور نذرانے وصول کرنا یا انہیں کئی کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک چکر لگوا نے کے بجائے اپنا بھائی‘ اپنا ہم وطن‘ اپنا مسیحا سمجھ کر ان سے اچھا سلوک کیا کریں لیکن نجانے ایسی کیا بات ہو گئی کہ بعد ازاں ان سب سے معذرت کرنا پڑی۔
ہر طبقے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ فارن آفس میں بھی یقینا بہت سے اچھے لوگ بھی موجود ہیں جن کے دل میں اپنے ہم وطنوں کیلئے خلوص اور ہمدردی کے جذبات ہیں اور جو ہر وقت اوور سیز ہم وطنوں کی پریشانیوں کو دور کرنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ ایسے جذبات بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ عمومی طور پر سفارتخانوں سے عوام کو شکایات ہی رہتی ہیں۔ اگر یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک میں موجود پاکستان کا سفارت خانہ وہاں کے پاکستانیوں کا گھر ہوتا ہے تو پھر لوگوں کو اپنے ہی گھر سے دھکے کیوں ملتے ہیں؟
کئی دہائیوں سے اور خاص طور پرگزشتہ چند برسوں سے‘ ٹی وی چینلز پر وزیراعظم سمیت تمام حکومتی وزراء بالخصوص وزیر خزانہ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اوور سیز پاکستانی ہمارا سرمایہ ہیں‘ آج اگر ہم بیرونی قرضوں اور در آمدات کی ادائیگیاں ڈالرز میں کر رہے ہیں تو اس کی وجہ ہمارے یہ قابل احترام اوور سیز پاکستانی ہیں جو ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر کو اطمینان بخش حالت میں لانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ نجانے کیا وجہ ہے کہ ہمارا یہی سرمایہ جب اپنے سفارت خانے یا قونصل خانے میں اپنے کسی کام کے سلسلے میں جاتا ہے تو وہاں اس کے ساتھ عمومی طور پر ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے کہ جیسے یہ اچھوت ہوں۔
وزیراعظم نے سفارت کاروں سے کوئی غلط بات نہیں کی تھی‘انہیں محض ان کے فرائض یاد کرائے تھے، لیکن نجانے کیوں حکومت پھر ڈر گئی اور جلدی سے ان سب سے معذرت کرنے لگی۔ اس سے ہوا یہ کہ وہ لاکھوں اوور سیز پاکستانی‘ جنہیں اس سے قبل حوصلہ ہوا تھا کہ اب ان کی بات کرنے والا آ چکا ہے‘ ان کے جذبات اور احساسات کو محسوس کرنے والا اور ان کی قد رکرنے والا حکمران اب برسر اقتدار ہے مگر ان سب کی امیدیں دوبارہ خاک میں مل کر رہ گئیں۔ شنید ہے کہ چند ممالک کے سفارت کاروں نے معذرت نہ کرنے پر استعفوں کا اعلان کیا تھا‘ لیکن اگر واقعی ایسا معاملہ تھا تو ایسے پاکستانیوں کی کمی نہیں جنہیں اگر سفارت کاری کا موقع دیا جائے تو وہ اس قدر بہترین نتائج دینے لگیں گے کہ اوور سیز پاکستانی سب کو دعائیں دیں گے۔ متحدہ عرب امارات میں کئی ایسے بااثر، ذہین اور ماہر پاکستانی ہیں جن کے شاہی خاندانوں سے بھی انتہائی قریبی روابط ہیں‘ اگر ان میں سے کسی کو سفیر لگا دیا جائے تو ایک تو سفارت خانے کے اخراجات میں نمایاں کمی واقع ہو گی کیونکہ ایسے پاکستانی کسی تنخواہ کے بغیر کام کرنے پر بھی تیار ہو سکتے ہیں، دوسرا اس سے ان ممالک کے ساتھ قریبی روابط قائم ہوں گے۔ اسی سوچ کے لوگ فرانس، کینیڈا، امریکا، برطانیہ، جرمنی، ناروے، آسٹریلیا اور دوسرے ممالک میں بھی تعینات کئے جا سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اب تک جہاں اپنی پسند اور ڈھب کے اتنے سیاست دانوں اور ریٹائرڈ افسروں کو سفارت کے منصب عطا کئے ہیں تو ایک مرتبہ ایسے لوگوں کو بھی موقع دے کر دیکھ لیا جائے جو ان ممالک میں اس قدر بااثر ہوتے ہیں کہ قصر صدارت و بادشاہت بھی ایسے لوگوں کا احترام کرتے ہیں۔
اوور سیز پاکستانیوں کی تعریفیں اور ملک و قوم کیلئے ان کے احسانات کی زبانی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن افسوس کہ اب تک کسی بھی حکومت نے انہیں مراعات دینے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ایئر پورٹس پر ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے‘ اس کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں لگتا۔ اب سنا ہے کہ بینکوں سے گاڑی کیلئے قرضے کی سہولت میں مارک اَپ میں کمی کے نام پر ایک لنگڑی لولی سہولت کی خوشخبری انہیں دی جا رہی ہے جو میرے نزدیک ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ وہ اوور سیز پاکستانی‘ جو سروس پوری کرتے ہوئے ساٹھ سال کی عمر کے بعد ملک میں واپس آ تے ہیں ان کیلئے ان کی پسند کی ایک گاڑی ساتھ لانے کی اجا زت دینے سے پاکستان کو کون سا بھاری نقصان ہو سکتا ہے؟ اس وقت مصر سمیت دنیا کے متعدد ممالک کے لوگوں کو ان کی حکومتوں نے ملک واپس آتے ہوئے ایک گاڑی لانے کی اجازت دے رکھی ہے تو پاکستان یہ رعایت دیتے ہوئے کیوں گھبراتا ہے؟