"MABC" (space) message & send to 7575

انصاف کا ترازو

قصہ سننے والوں میں سے کسی نے سوال کیا کہ جعلی تعلیمی ڈگریاں، جعلی ڈومیسائل اور ایک سے زیادہ شناختی کارڈ رکھنے پر اب تک کتنے اراکین اسمبلی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں سے محروم کیا جا چکا ہے؟ قصہ گو نے فوری طور پر جواب دیا گیا کہ یہ سب خامیاں پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں پاکستان میں متعارف ہوئیں۔ نجانے کس ارسطو نے انہیں سبق دیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کیلئے کم ازکم تعلیمی قابلیت گریجویٹ مقرر کی جائے، ورنہ اس سے پہلے تو انگوٹھا لگانا ہی ضروری قابلیت سمجھی جاتی تھی اور جیسی تیسی انگریزی بولنا اضافی قابلیت تھی۔ اس پر ہی آپ کو ملک و قوم کیلئے آئین و قانون بنانے والے ایوان کا رکن بننے کا حق میسر آ جاتا تھا۔ پرویز مشرف دور میں جیسے ہی رکن اسمبلی بننے کے لیے سیاسی خاندانوں کے سروں پر بی اے کی تلوار لٹکائی تو ہر طرف ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔ ڈگریوں کے جگاڑ کیلئے سیاسی خانوادوں اور ڈیروں کے وارث امیدوار لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خاک چھاننا شروع ہو گئے اور جس کو‘ جہاں سے بھی‘ جیسی بھی ڈگری ملی اس نے الیکشن کمیشن میں پیش کر کے اپنی خاندانی نشستوں کو ہمیشہ کی طرح محفوظ کر لیا۔ اس سلسلے میں انگلیاں کچھ آر اوز پر بھی اٹھتی ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر کچھ افراد کو ''خصوصی رعایت‘‘ سے نوازا اور یوں انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی۔
کہا جاتا ہے کہ چار پانچ درجن سے زائد ایسے سیاستدان‘ جنہوں نے کبھی یونیورسٹی تو دور‘ کسی کالج کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا‘ نے بھی کہیں نہ کہیں سے ڈگریوں کا بندوبست کر لیا لیکن جلد ہی ان کے مخالفین انہیں کٹہروں میں لے آئے اور پھر ایک دو برس بعد ڈی سیٹ کئے جانے کا فیصلہ سن کر وہ کوئی شرم محسوس کیے بغیر اکڑتے ہوئے گھروں کو واپس چل دیے۔ کچھ سیاستدان تو ایسے بھی تھے جنہوں نے افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک کی گریجویشن کی ڈگریاں پیش کیں۔ باقی یہ تضاد تو سب کے علم میں ہو گا کہ کہ کچھ نے میٹرک بعد میں اور ایف اے، بی اے پہلے کر لیا۔ دراصل معاملہ یہ تھا کہ سب نے خانہ پُری کو ضروری سمجھا اور جو کچھ جس کے ہاتھ جیسے بھی لگا وہ جمع کرا دیا گیا جس پر بعد میں سارا بوجھ الیکشن کمیشن اور عدالتوں پر پڑ گیا۔ کچھ سیاست دانوں کو جعلی ڈگریوں، دُہری شناختی دستاویزات اور دو نمبر اسناد پیش کرنے پر سزائیں دے دی گئیں مگر بعد ازاں یہ قانون ختم ہو گیا تو کچھ لوگوں کو‘ جن کے خلاف ریفرنس وغیرہ فائل ہو چکے تھے‘ اس پابندی سے ماورا سمجھا گیا۔ ڈگریوں کا ذکر ہو اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جناب اسلم رئیسانی کا وہ مشہور جملہ یاد نہ آئے‘ ایسا ممکن نہیں‘ پاکستانی سیاست کے تناظر میں ان کا جملہ حقیقت ِ حال کی عکاسی کرتا ہے کہ ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘ چاہے اصلی ہو یا نقلی‘‘۔ جعلی ڈگریوں کا یہ قصہ صرف سیاست یا الیکشن تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پائلٹس اور وکلا سمیت ہر شعبے میں ایسے افراد کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جن کے پاس جعلی ڈگریاں موجود ہیں۔ پنجاب بار کونسل نے تو ایسے افراد کی نہ صرف لسٹ جاری کی تھی بلکہ ان کے خلاف مقدمات بھی درج کروائے گئے تھے۔
قصہ گو نہ جانے کن خیالوں میں گم تھا‘ ہماری آواز پر چونک کر کہنے لگا کہ ہمارے چند دوستوں‘ جو وفاقی حکومت کی ایک وزارت میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے‘ کے متعلق کسی نے خبر اڑا دی کہ اس سال انہوں نے اپنے اثاثوں کی جو تفصیلات محکمے کو جمع کرائی ہیں ان میں انہوں نے جان بوجھ کر اپنے کچھ ایسے ا کائونٹس چھپا لئے ہیں جو ان کے اپنی اہلیہ، والدہ یا والد کے ساتھ مشترکہ کھاتے تھے اور ان میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے جمع تھے۔ ظاہر ہے کہ جب محکمے کے سربراہان تک یہ شکایات پہنچیں تو انہوں نے ان افسران کو نوٹس دیتے ہوئے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن وہ افسران بجائے جواب دینے کے یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ ہمارے رشتہ داروں کے بینک اکائونٹس سے متعلق سوالات پوچھنے کا اختیار آپ کے پاس نہیں ہے۔ بڑی مشکل سے انہیں بلا کر کہا گیا کہ آپ سے آپ کی اہلیہ، والد یا والدہ کے اکائونٹس کے نہیں بلکہ ان اکائونٹس کے متعلق سوالات پوچھے جا رہے ہیں جو آپ اور آپ کے رشتہ داروں کے مشترکہ ناموں پر ہیں۔
حالیہ دنوں میں ملکی سیاست میں ایک طلاطم جہانگیر ترین ایشو پر برپا ہوا تھا جو اب قدرے تھم چکا ہے۔ حکومت مخالفین نے تو اپنا وزن اس پلڑے میں ڈال دیا تھا اور حسبِ روایت اس ایشو پر حکومت جانے کی تاریخیں دی جانے لگیں۔ ترین صاحب سے تحقیقاتی اداروں کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات پر حکومتی جماعت میں ناراضی اس قدر بڑھ گئی کہ پنجاب کے 32 صوبائی اور قومی اسمبلی کے 8 اراکین نے اعلان کر دیا کہ ہم حکومت کا تختہ الٹ کر رکھ دیں گے بلکہ انہوں نے تو اسمبلی میں الگ نشستیں مختص کرنے اور الگ پارلیمانی لیڈر مقرر کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا تھا۔ اپوزیشن اتحاد کی ساری توقعات اب اس گروپ سے وابستہ ہو چکی تھیں مگر حسرت ان غنچوں پر۔
اب وزیراعظم سے ہمارے ایک دوست کی ہونے والی ملاقات کا احوال سنیے‘ اس دوست کے مطابق‘ وزیراعظم صاحب کی اصل پریشانی یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں کسی سے اس کے ماں‘ باپ یا بیوی بچوں اور دنیا بھر میں خریدی گئی جائیدادوں کی تفصیلات مانگنا جرم بن چکا ہے۔ انصاف اور قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر کسی سے ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے نہ کہ ایک شخص جس پر الزام ہو‘ اس کو پکڑ لیں اور دوسرے کو چھوڑ دیں۔ اس سلسلے میں زلفی بخاری ہوں یا جاوید لطیف‘ ترین ہوں یا شہبازشریف‘ ''چُوز اینڈ پِک‘‘ کی پالیسی اپنائی گئی تو یہ معاشرے میں تباہی کا باعث بنے گی۔ طاقتور کو رہائی اور کمزور کو قید کرنا اخلاقیات اور تہذیب کے علاوہ دینی احکامات کی بھی نفی ہے۔ احادیث شریف میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ پچھلی اقوام کو اسی لیے تباہ کر دیا گیا تھا کہ ان کے ہاں انصاف کے دہرے معیار تھے، اگر کوئی کمزور اور غریب جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی مگر وہی جرم اگر کوئی امیر اور طاقتور شخص کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا۔ انصاف کا ترازو توازن مانگتا ہے، ایک شخص کو پکڑ لیں اور دوسرے کو چھوڑ دیں تو ترازو ایک جانب جھک جاتا ہے۔
فرض کر لیتے ہیں کہ ترین صاحب یا مذکورہ سرکاری افسران یا دیگر افراد جن پر بیرونِ ملک خریدی گئی جائیدادیں چھپانے کا الزام ہے‘ کو سزا دے دی جاتی ہے‘ تو کیا یہ سزا تمام ایسے لوگوں کو نہیں دی جانی چاہیے جنہوں نے اس کا ارتکاب کیا یا یہ سزا صرف مخصوص افراد اور مخصوص لوگوں کے لیے ہی ہے؟ انصاف اور قانون کی عملداری اور ملک کے آئین سے وفاداری تو تب ہو گی جب سب کو قانون کی ایک ہی لاٹھی سے ایک ہی طرح ہانکا جائے۔ قصہ گو بتانے لگا کہ جائیدادیں ڈکلیئر نہ کرنے پر صرف ترین صاحب کا ہی ٹرائل و میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے‘ دوسرے لوگوں پر یہی قانون نافذ کرنے میں نجانے کون سا امر مانع ہے۔ اس وقت یقینا حکومت بالخصوص وزیراعظم کے سامنے ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ ایک جانب شہباز شریف کے معاملے پر دبائو ہے تو دوسری جانب ترین ایشو پر اپنی ہی جماعت کے اراکین نے علم بغاوت بلند کر دیا ہے اور ان سب کا مطالبہ ہے کہ ''مٹی پائو‘‘۔ اگر انصاف کرنا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ سب سے برابر کا سلوک کیا جائے‘ چُوز اینڈ پک سے انصاف کے ترازو کا پلڑا ایک طرف جھک جاتا ہے۔ جو لوگ لندن یا امریکا اور دنیا کے دیگر براعظموں میں خریدی گئی جائیدادوں کا حساب دینا جرم تصور کرتے ہیں‘ وہ ترین صاحب سے کس منہ سے اور کون سا حساب مانگ رہے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں