جب بھی عالمی سیاسیات کے کسی طالب علم سے دورِ حاضر میں دنیا کی کریمنل ریا ستوں کے بارے سوال کیا جائے گا‘ تو امریکا کے بعد بلاشبہ دوسرے دو نام اسرائیل اور بھارت کے لیے جائیں گے۔ بھارت اور اسرائیل نے یکے بعد دیگرے 1947ء اور 48ء میں مظلوم کشمیری اور فلسطینی قوموں کا خون اپنی روز مرہ خوراک میں شامل کیا۔ ایک جانب عربوں کے پہلو میں ان سے نفرت کرنے والے صہیونی یہودی بسائے گئے تو دوسری جانب پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر ہندو انتہا پسندوں کو لا بٹھایا گیا۔ 50 سے زائد مسلم ممالک اور مقابلے میں کشمیر ی بچوں کی پیلٹ گنوں سے بینائی چھیننے والا اور کشمیر کی بیٹیوں کی عزتیں لوٹنے والا بھارت اور فلسطینیوں کو چیر پھاڑنے والا اسرائیل۔ ایران پر امریکا کی جانب سے اقتصادی پابندیاں لگتے ہی تمام ممالک ایران سے پہلو بچا لیتے ہیں لیکن اسرائیل اور بھارت کیلئے اپنے دل و جان کے دروازے پھول برساتے ہوئے کھلے رکھتے ہیں۔ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ذاتی مفاد ہی جب مطمح نظر بن جائے، عیش و عشرت جب مقصود بن جائے اور حرصِ حکومت اور شاہانہ جلال جب مقصدِ حیات ہو کر رہ جائے تو پھر رسول خداﷺ کا وہ فرمان کہاں یاد رہتا ہے کہ ''مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘ ان کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم بخار و پریشانی میں مبتلا رہتا ہے‘‘۔
''میں کشمیر ہوں!‘‘ اور میرے ساتھ بھی میرے بھائی فلسطین جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ایک جانب فلسطین میں اسرائیل نامی ایک ملک ہروقت ٹینک چڑھائے رکھتا ہے تو دوسری طرف بھارت کی شکل میں اس کا بڑا بھائی اپنی بکتر بند گاڑیوں اور توپوں سے میرے دامن کو تار تار کئے ہوئے ہے۔ اگر غزہ میں عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا کر انسانوں کو لاش بنا دیا جاتا ہے تو کشمیر میں بھی ہر صبح اور ہر شام مشین گنوں کی تڑتڑاہٹ اور گولا باری سے میرے بچوں کے جسم چھلنی کیے جاتے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ دنیا کا ہر باضمیر انسان فلسطینی بھائی بہنوں کی آواز بن کر اسرائیل کو للکارتا رہا‘ اس حوالے سے پوری دنیا میں احتجاج ہوئے جن میں دنیا بھر میں موجود میرے بچے اور ہمدرد سینہ تانے سب سے آگے آگے شاطر اور ظالم یہودیوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ ان کے حلق سے بلند ہونے والی صدائیں مجھ تک پہنچتیں تو میرا جذبہ و جنون اور بڑھنے لگتا۔ مجھے یہ حوصلہ ملنے لگتا کہ ایک دن یہ سب میرے ساتھ بھی اسی طرح کھڑے ہوں گے‘ یہ جلد ہی میری آواز بن کر انسانی ہجوم کو جھنجھوڑیں گے‘ یہ اقوام عالم کی بند آنکھوں کو میرے عوام پر بھارت کے ڈھائے جانے والے مکروہ مظالم کی جانب بھی متوجہ کریں گے۔
میں دنیا کے ہر زندہ ضمیر رکھنے والے وجود اور انسانی حقوق کے لیے بلند ہونے والی ہر آواز سے پوچھتا ہوں کہ میری جانب بھی دیکھو! بھارتی بندوقوں اور مشین گنوں سے ادھڑے ہوئے میرے جسم کو دیکھو‘ کیا میں بھی فلسطین کی طرح پابجولاں نہیں؟ کیا بھارتی فوجیوں کے ناپاک ہاتھوں سے میری بیٹیوں کے تار تار بدن لہو لہو نہیں؟ کیا بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج کی مشین گنوں سے برسنے والی گولیوں سے میرا جسم چھلنی چھلنی نہیں؟ کیا 74 برسوں سے وادیوں، دریائوں، سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں میرے بچوں کے بہتے لہو سے اٹھنے والی آزادی کی پکار آپ کی سماعتوں سے نہیں ٹکراتی؟ کیا میرے بدن پر برسائے جانے والے راکٹ اور گرنیڈ کے دھماکے تمہاری شہنائیوں کی گونج میں دب جاتے ہیں؟ کیا بھارتی فوج، سی آر پی ایف اور پولیس کے ٹارچر سیلز سے میری بہو‘ بیٹیوں، میرے بچوں‘ بوڑھوں اور جوانوں کی درد اور اذیت سے رات گئے بلبلاتی اور دلوں کو دہلاتی ہوئی چیخوں سے آپ کے وجود اور آپ کے احساس کو جھٹکے نہیں لگتے؟
دنیا کے تیس سے زائد بڑے شہروں کی اہم شاہراہوں پر جب ہر رنگ‘ ہر نسل اور ہر مذہب سے وابستہ لوگوں کو فلسطین کیلئے ہم آواز ہو کر طاقتور اسرائیلی مملکت کے خلاف سراپا احتجاج دیکھا‘ جب انہیں اسرائیلی سفارت خانوں اور ان کے بڑ ے بڑے کاروباری دفاتر کے باہر معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں پر ظلم و ستم ڈھانے اور مظالم کی تصاویر والے پلے کارڈ اٹھائے دیکھا تو یہ منا ظر دیکھ کر‘ یہ آوازیں سنتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ خوشی ہوئی‘ میرے دل سے ان سب کیلئے دعائیں نکلنے لگیں اور میں سوچنے لگا کہ ان احتجاجی ریلیوں میں شریک یہ قومیں‘ یہ ذہن‘ یہ وجود‘ جن کا فلسطینیوں کے مذہب اور نظریات سے کوئی تعلق نہیں‘ محض انسانی حقوق کے نام پر فلسطین کی آزادی کے نام پر کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر اپنے احساس کی اتھاہ گہرائیوں سے اسرائیل کے خلاف مذمتی نعرے لگاتے ہوئے جس طرح رواں دواں ہیں‘ یقین ہے کہ بہت جلد وہ میری اور دنیا کے دوسرے ایسے خطوں کی تکالیف کا بھی احساس کریں گے۔ مجھ پر اٹھنے والے ظالم ہاتھوں کو روکنے کیلئے اسی طرح سراپا احتجاج ہوں گے‘ وہ بے خوف ہو کر انسانی ذہنوں کو اسرائیل اور بھارت جیسے غاصبوں کے خون آلود چہروں سے روشناس کرائیں گے۔ دنیا میں اس وقت اسرائیل اور بھارت‘ دو ہی تو ملک ہیں جن کے مفادات آپس میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ یہ ایک دوسرے کے ہم قدم دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف یہ دونوں اقوام ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی تھیں تو دوسری جانب دنیا کا آزاد میڈیا تھا، جو بھارتیوں کے سوشل میڈیا اور اسرائیلی پنجے تلے دبے ہوئے میڈیا کا مقابلہ کر رہا تھا۔
میں بھارتی فوج کے سات لاکھ سے زائد فوجیوں کے بوٹوں تلے سسکتا ہوا کشمیر ہوں‘ مقبوضہ کشمیر! میرے ایک لاکھ سے زائد بچے بھارت کے خونخوار جبڑوں نے نگل لیے ہیں‘ میری ہزاروں بیٹیوں کی مسلی ہوئی لاشیں دریائوں اور ندی نالوں میں بہا دی گئی ہیں‘ میرے سینکڑوں ننھے بچوں کی آنکھیں بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں نے چھین لی ہیں۔ میں آج جھولی پھیلائے پاکستان کے حکمرانوں‘ سیاسی اور مذہبی جماعتوں‘ اور اداروں سے التجا کر رہا ہوں کہ جس طرح فلسطین اور غزہ کیلئے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے‘ اسی طرح کشمیریوں کیلئے بھی عالمی رائے عامہ کو بیدار کریں‘ اقوامِ عالم کو بھارت کے خلاف سڑکوں پر لائیں۔ کشمیر‘ جو بھارتی فوج کی شعلہ اگلتی بندوقوں سے لہو لہو ہے‘ کے گلی کوچوں میں بہنے والے لہو سے ہر باضمیر شخص کو جگائیں‘ انہیں میری حقیقت بتائیں‘ مجھ پر سات دہائیوں سے ڈھائے جانے والے مظالم و بربریت کو بے نقاب کریں۔ میں پاکستانیوں سمیت دنیا بھر میں بسنے والے ہر انسان دوست سے‘ ہر باضمیر شخص سے‘ انسانی حقوق کی ہر تنظیم سے‘ قانون کی ہر کتاب سے‘ انصاف کی ہر کرسی سے‘ مکتب کی ہر کتاب سے مخاطب ہوں اور ہر ذی روح جو دنیا کے ساتوں براعظموں میں کہیں بھی بستی ہے‘ آپ کی غزہ اور فلسطین کے حوالے سے اسرائیلی مظالم اور بر بریت کے خلاف کی جانے والی جدوجہد پر آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں‘ آپ نے اپنا دن رات کا چین و آرام قربان کر کے فلسطین کے مظلوم بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور نوجوانوں کی لاشوں، ملیا میٹ کی گئی عمارتوں اور زمین بوس کئے گئے سکولوں اور ہسپتالوں کو دیکھنے کے بعد اسرائیل کی دولت‘ اس کے وسائل، رعب و دبدبے اور دنیا بھر کی معاشی، سیاسی اور دوسری مشکلات کا ادراک ہونے کے باوجود دنیا کے ہر دارالحکومت کی سڑکوں کو فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی بربریت کے خلاف احتجاج کرنے والے لامتناہی انسانی سروں سے سجا دیا۔ میں بھارت کی سات لاکھ فوج کے جبر تلے دبا ہوا مظلوم، محصور اور مجبور کشمیر ہوں، میرا ہر گھر سہما ہوا ہے، میری وادیاں، پہاڑ اور میدان قبرستان بن چکے ہیں۔ میرے بچے جوان ہونے سے پہلے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتے ہیں‘ اے کرۂ ارض پر بسنے والے انسانو! یورپ و امریکا سمیت دنیا بھر کے جوانو! میں جو لہو لہو ہوں‘ میرے لیے کب آواز اٹھائو گے؟ میرے بچوں کو بھارت کے ظلم و ستم سے کب بچائو گے؟