"MABC" (space) message & send to 7575

منظر کچھ یوں بنتا ہے

امریکی سنٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ میکنزئی جونیئر نے اپریل میں پینٹاگان میں ایک بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بعدارد گرد کے علاقوں میں القاعدہ اور داعش دوبارہ منظم ہونے کی اطلاعات مل رہی ہے جو ایک خطرناک عمل ہے اور اگر ایسا ہوا تو افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک جن میں خاص طور پر پاکستان شامل ہے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان اگر ایک طرف طاقتور ہوں گے تو اس کے مقابلے میں افغان وار لارڈز‘ این ڈی ایس اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور داعش ایک طرف کھڑے ہوں گے جس سے افغانستان ایک مرتبہ پھر جنگ و جدل کا میدان بن سکتا ہے۔ جنرل میکنزی نے پینٹاگان کو بتا یا کہ امریکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد کی صورتحال کی مانیٹرنگ کیلئے ہم افغانستان اور اس کے ارد گرد چند ایئر بیس ڈھونڈرہے ہیں تاکہ وہاں سے دہشت گردوں پر نظر رکھی جا سکے۔بقول اُن کے امریکہ کے پاس کچھ اس قسم کی اطلاعات ہیں کہ داعش اور القاعدہ پاکستان کو سب سے زیادہ سٹرائیک کرسکتے ہیں کیونکہ اس کے پشتون علاقوں اور کراچی میں ان کیلئے سافٹ پوائنٹس موجود ہیں‘اسی لئے امریکہ کو اب اس پر نظر رکھنا ہو گی کہ کہیں القاعدہ دوبارہ منظم ہو کر پھر سے حملے شروع نہ کر دے۔
جنرل میکنزی نے جو کہا اس سے ہم سب کو اس بات کی سمجھ آگئی ہو گی کہ امریکہ پاکستان میں کچھ ہوائی مستقر اپنے استعمال میں کیوں لانا چاہ رہا ہے اور یہ کوئی قصہ کہانی یا میڈیا کی دلچسپی یا ریٹنگ کی بات نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے جس کا آج پاکستان کی سیا سی اور فوجی طاقت کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔مگر پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان پر دبائو کو مزید بڑھانے کیلئے جلد ہی کوئی بڑا کھیل سکتی ہیں جس کی ابتدا کرتے ہوئے انہوں نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کر دی ہے۔ یہ سب یک لخت نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے وہی امریکی اڈوں کی کہانی ہے ۔ چند روز میں ممکن ہے ہم دیکھیں کہ پنجاب میں بھی تین میں سے کسی ایک عہدے کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاسکتی ہے۔دوسری جانب مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف پی ڈی ایم کو ایک نئی شکل میں اور نئے ایجنڈے کے ساتھ جولائی میں متحرک کرنے جا رہے ہیں جس کیلئے جو چند طریقے استعمال میں لائے جانے کا امکان ہے ان میں سے ایک تو کسی بھی وقت اسرائیل‘ یورپ یاامریکہ کے حوالے سے کوئی نیا آمیز مواد اچھالا جاسکتا ہے تاکہ ملک میں کوئی نیا طوفان کھڑا کر دیا جائے جسے سنبھالنا وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے بس کی بات نہ ہو گی‘ مگر یہ بات دعوے سے کہہ رہا ہوں کہ انتظامیہ اور پولیس اس سلسلے میں امریکہ کی مکمل معاونت کریں گی کیونکہ اس وقت پنجاب بھر میں باقاعدہ منصوبے کے تحت پولیس اور ڈی ایم جی گروپ کی80 فیصد سے زائد تعیناتیاں ایسے لوگوں کی کرائی گئی ہیں جو اپنی نجی محفلوں میں حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے نہیں تھکتے اور حکومت کی بد قسمتی دیکھئے کہ اس کے ماتحت ‘خبر رکھنے والے ادارے ابھی تک انہیں یہ رپورٹ ہی نہیں کر پائے کہ پنجاب یا مرکز میں کوئی ایسی طاقت موجودہے جو تحریک انصاف کی حکومت کے مخالف افسران یا دوسرے لفظوں میں ایسے افسران کی پوسٹنگ کی بھر مار کر رہا ہے جن کا پنجاب کے سابقہ حکمران خاندان سے قریبی تعلق پنجاب کے ہر فردِ عاقل کودکھائی دے رہا ہے۔ابھی حال میں ساہیوال سے ایک ایسے پولیس افسر کو تین ماہ بعد ہی کھڈے لائن پوسٹنگ کر دی گئی جس کے متعلق دو باتیں زبان زدِ عام تھیں کہ وہ انتہائی ایماندار اور لوٹ مار سے کوسوں دور رہنے والا پولیس افسر ہونے کے علا وہ عمران خان کو قوم کیلئے نجات دہندہ کے طور پر دیکھتا تھااور وہ اس کا بر ملا اظہار بھی کرتا تھا‘ لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ انہیں ایک اندھیرے کونے میں پھینک دیا گیا ۔ سچ ہی کسی نے کہا ہے کہ مرے ہم جن کیلئے وہ رہے وضو کرتے۔
بات ہو رہی تھی United States Central Command کے جنرل میکنزی کی ‘ تو انہوں نے پاکستان کے کچھ ہوائی اڈوں کو اپنے استعمال میں لانے کا وہ راز کھول دیا ہے جس کی پاکستان میں چند دنوں سے دھوم مچی ہوئی تھی۔اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا‘ امریکہ آئے دن کبھی ڈو مور کے مطالبے سے تو کبھی امداد کا لالچ دے کر اپنے مقاصد پورے کرتا رہتا ہے‘ مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کی بھلائی اور سلامتی کیلئے پاکستان کے ناقابلِ برداشت فوجی اور مالی نقصان کی ذرا بھر بھی قدر نہیں کی گئی۔ اس جنگ میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کی ایک لاکھ سے زائد قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان پہلی دفعہ سینہ تان کر امریکی دبائو کا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا ہو چکا ہے لیکن اس بار پاکستانی قوم کا بھی امتحان ہے کیونکہ ہمیشہ سے وہ اپنی فوجی اور سیا سی لیڈر شپ سے شکوہ کناں ہی رہی ہے کہ وہ امریکہ کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ ان کا کہنا بجا ہے کیونکہ کچھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ امریکہ کے سامنے بولنا تو دور کی بات چند منٹوں کیلئے کھڑے بھی نہیں ہو سکے‘ مگراس سٹینڈ پر پاکستانیوں کو امریکی دبائو کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی تیار رہنا ہو گا اور اس کیلئے اپنی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے کیونکہ امریکہ نے پاکستان پر یکے بعد دیگرے سیا سی اور معاشی وار کرنے کی ابتدا کر دی ہے۔امریکہ صدر ایوب خان سے ناراض ہوا تو بھٹو کو استعمال کیا‘ جب بھٹو سے خفا ہوئے تو قومی اتحاد سامنے لے آئے‘ جب ضیا الحق سے تنگ ہوئے تو جو ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک خونچکاں باب ہے۔پرویز مشرف سے دل بھرا تو 'عدلیہ کی آزادی‘ کا ڈھول پٹوانا شروع کرا دیا گیا‘ درمیان میں میاں نواز شریف اور محتر مہ بے نظیر بھٹو کی وقفے وقفے سے جنگ کرائی جاتی رہی اور اب موجودہ حکومت امریکہ کے نشانے پر ہے‘ دیکھئے ان کیلئے کون سا نیا نعرہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بس اتنا جان لیجئے کہ نہ روٹی کپڑا اور مکان‘ نہ نظامِ مصطفی اور نہ ہی نظام عدل کی آزادی ہمیں دور دور تک دکھائی دے رہی ہے۔ امریکی نعرے مشن پورا ہوتے ہی دفنا دیے جاتے ہیں۔
امریکہ کے کہنے پر یورپی یونین کی جانب سے ایک قرار داد پیش کر دی گئی ہے کہ اگر پاکستان میں انسانی حقوق کی'' خلاف ورزیاں‘‘ ہوتی رہیں تو ان کیلئے مختص کئے گئے تجارتی کوٹہ سسٹم پر نظر ثانی کی جائے اور اگر کوٹہ سسٹم کا وار کر دیا گیا تو اس کا سب سے پہلا اثر ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری اور برآمدات پر پڑے گا۔ انسانی حقوق کے حملے کے ساتھ ہی پاکستان میں اقلیتوں کا معاملہ بھی یورپی یونین میں اٹھا دیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان کو وارننگ دے دی گئی ہے کہ ہمیںGSP plus status over blasphemy law منظور نہیں ۔ 26 اپریل کو پینٹاگان میں جنرل میکنزی کی وارننگ آتی ہے اور دو دن بعد29 اپریل کو یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان مخالف قرار دار پیش کر دی جاتی ہے۔اب اندازہ کیجئے کہ عمران خان کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کس طرح شکنجہ کسنے جا رہے ہیں‘ ایک جانب یورپی یونین کا پاکستان پر دبائو ہو گا کہ مخصوص قوانین میں ترمیم کرو نہیں تو ٹیکسٹائل کوٹہ ختم کر دیا جائے گا تو دوسری جانب امریکی جنرل کہتے ہیں کہ انہیں اطلاعات مل رہی ہیں کہ داعش اور القاعدہ دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چند روز سے القاعدہ کے لیڈروں کی افغانستان اور پاکستان کے درمیان کسی جگہ پرمو جودگی کی خبریں بھی بین الاقوامی میڈیا کے ایک مخصوص حلقے میں اچھالی گئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں