"MABC" (space) message & send to 7575

ایک اور حادثہ

تسلیم کر لیجئے کہ وطنِ عزیز پاکستان کی قسمت سے کھیلنے والا چاہے کوئی بھی ہو ہمارا رہبر نہیں ہو سکتا ۔ہم جس قدرچاہیں اپنے تراشے ہوئے بتوں کو ہر طرح کے عیبوں سے پاک سمجھتے ہوئے کسی مہان کا درجہ دیتے رہیں لیکن یہ وہ فریب اور جھوٹ ہے جس کا انجام بھیانک پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ریل گاڑی کے حادثے میں ساٹھ سے زائد انسانی لاشیں ابھی گور و کفن کے انتظار میں تھیں کہ پاکستان کی سیا سی جماعتوں نے اپنے اپنے دلوں کی بھڑاس نکالناشروع کر دی۔ چودھری احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق حکومت پر برس رہے تھے تو دوسری جانب وزیر اطلاعات تقریریں کرتے ہوئے بے تکی قسم کی منطق پیش کر کے اس حادثے کی ذمہ داری نواز لیگ کے سر منڈھنے کی کوشش کر رہے تھے‘ اور اس ناکام کوشش میں وہ دلائل کے انبار لگا رہے تھے۔ بھلا کوئی پوچھے کہ آپ تین سال سے حکومت سنبھالے ہوئے ہیں اور ابھی تک نقائص ہی ٹھیک نہیں کر سکے؟ہر عیب اور حادثہ پچھلی حکومتوں پر ڈالنے سے رک جائیے اور اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کر کے ایک اچھا سیاستدان ہونے کا ثبوت پیش کریں۔اگر تین برسوں میں ریلوے کی پرانی پٹریاں ہی ٹھیک نہیں کر سکے تو نئی ریلوے لائنیں بچھانے کا نسبتاً مشکل کام کیسے کر سکیں گے۔ آپ ML4 اورML5 کی بات تو کر تے ہیں لیکن پہلے جگہ جگہ سے ادھڑے ہوئے ڈھانچے کی تو خبر لیجئے۔ رہی استعفے کی بات تو استعفیٰ وہاں لیا ۱ور دیا جاتا ہے جہاں فنڈز کی بھر مار ہو اور محکمے میں تعینات ہونے والا ہر اہلکار فنی ماہر ہونے کے علا وہ اپنے کام کو عبادت سمجھے‘ پھر حادثہ ہو جائے تو استعفیٰ لینے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہیں لگتی۔
ٹرین حادثہ اس حکومت کا وہ الٹرا سائونڈ ہے جس میں دیکھا جائے تو صاف پتہ چلے گا کہ ہر شخص اس حادثے کا ذمہ دار ہے۔ جب قوم کا ہر فرد اس سلطنت اور اس کے ایک ایک وسیلے کو نوچنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جا رہا ہو وہاں جسم کا ہر حصہ درد ہی کرے گا۔دوسرے تمام محکموں کی طرح ریلوے میں بھی خیبر سے کراچی تک کوئی ایک اہلکار دکھا دیجئے جو اپنی جگہ''کمائوپوت‘‘ نہیں؟جیسے ہی ٹرین حادثہ ہوا تو سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق جس طرح گرجتے برستے رہے لگ رہا تھا کہ ان سے بہتر منتظم ریلوے کو شاید اب تک ملا ہی نہیں۔ لگتا ہے کہ اپنی وزارت میں ریلوے کی کار کردگی وہ صیغہ ماضی کی طرح بھلا بیٹھے ہیں۔ ریلوے کب ٹھیک ہو گا تو اس کا جواب اتنا ہی ہے کہ جب تک میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند افسران کی پوسٹنگ ہوتی رہے گی ریلوے میں اس قسم کے حادثات ہوتے رہیں گے ۔ ملت ایکسپریس کی بوگیوں کا اپنے انجن سے علیحدہ ہونے کے بعد سر سید ایکسپریس سے ٹکراناانتظامیہ سمیت اس روٹ پر کام کرنے والے تمام ریلوے افسران اور اہلکاروں کی نا اہلی سستی اور لاپروائی کی وہ داستان ہے جس نے پاکستان کے ہر شعبۂ زندگی کو کینسر زدہ کر رکھا ہے۔ ساٹھ سے زائد انسانی جانوں کا ضیاع اور 160 افراد کا زخمی ہوکر کئی کئی گھنٹے لاوارثوں کی طرح تڑپنے کا تصور آج بھی وجود کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
اس حادثے کے بعد جب خواجہ سعدر فیق اپنی وزارت کی خوبیاں اور کامیابیاں بیان کر رہے تھے تو میری نگاہوں کے سامنے ان کی لاجواب کارکردگی کے منا ظر ایک ایک کرتے ہوئے گھومنے لگے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ2014ء کراچی سے روانہ ہونے والی قراقرم ایکسپریس جونہی کوٹری پہنچی تو اس کا انجن جواب دے گیا سینکڑوں کی تعداد میں مسافر تین گھنٹے تک گرمی میں سلگتے رہے‘ حبس سے ان کا دم گھٹتا رہا ‘حیدر آباد سے ایک نیا انجن آنے پر یہ گاڑی کوٹری سے روانہ ہوئی لیکن خانیوال کے قریب پہنچ کر پھر انجن جواب دے گیا‘ وہاں بھی دو گھنٹے سے زائد مسافر ذلیل و خوار ہونے کے بعد نیا انجن آنے پر روانہ ہوئے لیکن ٹوبہ ٹیک سنگھ آتے ہی یہ دوسرا انجن بھی جواب دے گیا۔ گرمی کی شدت نے بوڑھوں اور بچوں کو ہلکان کر دیا۔ اس بار کہا گیا کہ ریلوے انجن کی بیٹری فیل ہو گئی ہے‘ کوئی ڈھائی گھنٹے سے بھی زائد وقت گزرنے کے بعد فیصل آباد سے تیسرا انجن ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچا تو یہ گاڑی لاہور کی طرف روانہ ہوئی۔ یہ تھی اس دور میں ریلوے حالت کہ ایک گاڑی کوکراچی سے لاہور پہنچنے کیلئے تین تین انجنوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ 18 ستمبر2016ء کو جیکب آباد کے ریلوے سٹیشن پر سکھر ایکسپریس کی تین بوگیوں میں آگ لگ گئی اور یہ واقعہ جس وزیر کے دور میں پیش آیا آج وہ سب سے بہتر وزیر ریلوے ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق فرما رہے تھے کہ ان جیسا ریلوے وزیر اب تک کوئی نہیں آیا لیکن وہ شاید اپنی وزارت میں یہ جان ہی نہ سکے کیونکہ ریلوے انجنوں کے جگہ جگہ بند ہونے کے واقعات سے ہونے والی تکلیف اورپریشانیوں کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اپنی زندگی میں کبھی اس کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
خواجہ سعد رفیق نے بھی 2016ء میں عید الفطر کے دنوں میں ٹیلیویژن چینلز پر یہ خبر سنی اور دیکھی ہو گی کہ وزیر آباد کے قریب انجن فیل ہونے سے دو ریل گاڑیاں وزیر آباد سے فیصل آباد کی طرف جاتے ہوئے واشنگ لائن کے قریب بند ہو گئیں‘ اس دوران لاہور جانے والی راولپنڈی ایکسپریس کا انجن بھی وزیر آباد کے قریب فیل ہو گیا اور ان میں سوار مسافر سخت گرمی اور حبس سے بے حال ہو کر ہر صاحبِ اختیار کو فون کر تے رہے‘ ان میں سے کئی مسافروں نے مختلف ٹی وی چینلز کو بھی فون کرکے اپنی حالت زار سے آگاہ کیا اور مدد کی اپیل کی۔ اُسی دور میں لاہور سے کراچی کی جناب محو سفر ریل گاڑی کا گمبٹ کے قریب تیل ختم ہو گیا‘ کوئی دو گھنٹے سے زیادہ انتظار کرنے کے بعد اس ریل گاڑی میں سوار مسافروں نے شور مچانا شروع کر دیا‘ ریل گاڑی کے عملے نے مسافروں کو بتایا کہ تیل ختم ہو گیا ہے ہم اپنے اعلیٰ افسران سے تیل مہیا کرنے کیلئے بار باررابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ مزید ایک گھنٹہ انتظار کے بعد عوام کو خوشخبری دی گئی کہ اعلیٰ افسران سے ان کا رابطہ ہو گیا ہے اور انہوں نے تیل مہیا کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں ‘لوگ خوش ہو گئے کہ ابھی چند منٹوں بعد گاڑی چل پڑے گی لیکن ایک گھنٹہ او رگزر گیا‘ حبس اور گرمی نے سب کو پگھلانا شروع کر دیا اور تیل تھا کہ کہیں دور دور نظر نہی آ رہا تھا شام کے سائے جب پھیلنے شروع ہو ئے تو خواتین میں گھبراہٹ بڑھنا شروع ہو گئی‘ مسافروں کی طرف سے شور و غوغا شروع ہو گیا جس پر مسافروں کو بتایا گیا کہ ریلوے سرکار کی طرف سے تیل آنے میں ابھی مزید وقت لگ سکتا ہے اس لیے تھوڑی دیر اور انتظار کر لیں خواتین اور بچوں کے ساتھ پریشان حال عوام خوفزدہ ہو رہے تھے کہ اگر رات اس ویرانے میں بیوی بچوں کے ساتھ گزارنا پڑی تو پھر کیا ہو گا؟ ٹرین کے مسافر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ کیا کیا جائے کیونکہ شام تک اگر تیل نہ آیا تو اس ویرانے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے؟ آخر فیصلہ ہوا کہ اندھیرا ہونے پر ڈاکو ئوں کے ہاتھوں لٹنے کی بجائے بہتر ہے کہ اس ریل گاڑی کے سب مسافروں سے چندہ اکٹھا کر کے گاڑی کیلئے تیل خریدا جائے تاکہ گاڑی چلنے کے قابل ہو سکے بس پھر کیا تھا سب مسافروں نے مل کر چندہ اکٹھاکرنا شروع کر دیا اور جب ایک معقول رقم اکٹھی ہو گئی تو ان میں سے صحت مند قسم کے نوجوان لوگ وہاں سے پیدل قریبی قصبے کے ایک پٹرول پمپ سے ایک ڈرم تیل خرید لائے اور ریل گاڑی میں ڈالا اس طرح چھک چھک کرتی ریل گاڑی اپنی منزل کی طرف چلنے کے قابل ہوئی ۔نہ وہ ہمارے تھے نہ یہ ہمارے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں