"MABC" (space) message & send to 7575

اپوزیشن لیڈر کی بجٹ تقریر

پندرہ جون کو اپوزیشن لیڈر کی بجٹ پر کی جانے والی تقریر کے دوران قومی اسمبلی میں عوام کے منتخب نمائندوں کے سرکس میں جو کمالات دکھائے گئے‘ اسے ہمارے ہاں کچھ زیا دہ ہی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے؛ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے سات اراکینِ اسمبلی کے اسمبلی حدود میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ دنیا بھر کے منتخب ایوانوں میں مار کٹائی کے مناظر ایک معمول بن چکے ہیں‘ اس لئے اس دھینگا مشتی اور زبان درازی پر کچھ کہنے کے بجائے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی تقریرِ دل پذیر ہی ہمارا آج کا موضوع رہے گا۔
مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف نے بجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے جو باتیں کی ہیں‘ وہ تمام قابلِ غور تھیں لیکن ان کی چند باتوں نے تو سننے والوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر وزیراعظم عمران خان پر گرجتے برستے ہوئے جب ان کی ہائوسنگ پالیسی کا مذاق اڑاتے ہوئے پچاس لاکھ گھروں کا طعنہ دے رہے تھے تو مجھے ان کی وہ ہائوسنگ پالیسی یاد آ گئی جس نے آج سے 35 برس قبل اس ملک کا پچاس کروڑ(آج کے حوالے سے اسے پچاس سے ضرب دے دیں) سے زائد قیمتی قومی سرمایہ کھنڈرات کی شکل میں ضائع کر دیا تھا۔ اگر کوئی پینتیس برس قبل برباد کئے گئے ان پچاس کروڑ روپوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے تو لاہور نہر کے ساتھ سڑک پر چلتا جائے‘ ڈاکٹرز ہسپتال سے کوئی ایک کلو میٹر فاصلے پر ٹھوکر نیاز بیگ کی جانب جاتے ہوئے بائیں جانب دیکھنے والوں کو پندرہ بیس اینٹوں کے کھنڈر بنے ڈربے نما گھر دکھائی دیں گے۔ قصور سے چونیاں جانے والے جب کھائی روڈ کا روٹ استعمال کرتے ہیں تو انہیں بھی اپنے بائیں ہاتھ پر اسی طرح کے اینٹوں کے تیس چالیس گرے پڑے کھنڈرات نظر آئیں گے۔ یہ شریف برادران کا پہلا ہائوسنگ منصوبہ تھا جس کے ذریعے قوم کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی دولت برباد کی گئی۔ اسی طرح پورے پنجاب میں جگہ جگہ یہ کھنڈرات بکھرے پڑے ہیں جو ہر آنے جانے والے کو قوم کا پیسہ ضائع کرنے کی داستانِ عبرت سنا رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف نے پی ٹی آئی حکومت کے پیش کئے گئے بجٹ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے بہت سی کام کی باتیں بھی کی ہیں‘ جن پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کو ضرور غور کرنا چاہئے کیونکہ اچھی بات ملک کے مفاد میں ہوتی ہے اور اسے سیاست اور سیاسی مخالفت سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہیے۔ کسی بھی اچھی تجویز‘ خواہ وہ اپوزیشن یا سیاسی مخالفین کی طرف سے ہی کیوں نہ آئے‘ سے فائدہ اٹھانا ہر حکمران پر لازم ہوتا ہے۔
دورانِ تقریر اپوزیشن لیڈر نے شاید جوشِ خطابت میں موجودہ حکومت کو لتاڑتے ہوئے ملک بھر میں جعلی ادویات کے معاملے پر لمبی چوڑی تمہید باندھے رکھی، جب وہ جعلی اور دونمبر ادویات کا ذکر کر رہے تھے تو ان کی تقریر دل کو بہت بھلی لگی لیکن جب انہوں نے ان ادویات سے مرنے والوں کی بات کی تو یقین جانئے‘ انتہائی خوشی ہوئی کہ آج کی دنیا میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو خود کو بھی عوامی کٹہرے میں کھڑا کرنے سے ذرہ برابر نہیں گھبراتا، لیکن جیسے جیسے ان کی تقریر آگے بڑھتی گئی‘ وہ بات ان کے موضوع سے دور ہوتی چلی گئی۔ ویسے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کہ بھول بھال گئی ہو۔ یہ موصوف کا ہی دورِ حکومت تھا جب جعلی ادویات کے سبب 216 سے زائد افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ ان بدقسمت افراد میں میرا ایک ایسا دوست بھی شامل تھا جو اپنے پیچھے چار معصوم بچے چھوڑ گیا تھا۔ اگرچہ اس خاندان کی مدد کیلئے اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ نے دو انسان نما فرشتوں کو مقرر کر دیا اور مرحوم کی بیوہ اور دو بیٹوں اور دو بیٹیوں پر مشتمل خاندان کے رزق کا غیبی بندوبست ہو گیا مگر جانے والوں کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی سے میرا یہ دوست بھی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں 2012ء کی قیامت ِصغریٰ میں ہلاک ہو نے والوں میں شامل تھا۔ وہ 216 خاندان‘ جن کے مریضوں کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں امراضِ قلب کی ادویات دی جاتی تھیں‘ آج بھی یہ معاملہ بھولے نہیں ہیں۔ مریضوں کو جعلی ادویات دی جاتی رہیں اور پنجاب حکومت کی نالائقی کی وجہ سے پورا ہسپتال‘ اس کے صحن، بر آمدے حتیٰ کہ باہر سڑکوں پر درد سے ترپٹے ہوئے مریضوں کی قطاریں دکھائی دیتی رہیں۔ 26 جنوری 2012ء کو بی بی سی نے اس قیامت کی گھڑی کے منا ظر دکھاتے ہوئے ایک تصویر کا کیپشن لکھا تھا،ترجمہ:متنازع ادویات رکھنے والے مریض ہسپتال انتظامیہ کو ادویات لوٹا رہے ہیں۔
21 دن‘ یعنی تین ہفتے تک اس وقت ساہیوال سے لاہور تک کے دل کے امراض کے واحد ہسپتال میں ایک کہرام مچا ہوا تھا، کبھی ٹی وی چینلز کی ا س وقت کی فوٹیج نکال کر دیکھئے‘ ہر جانب چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطا بق‘ لاہور میں واقع پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں چالیس ہزار سے زائد مریض علاج کیلئے آ چکے تھے‘ ان سب سے ہسپتال کی جانب سے دی جانے والی ادویات استعمال نہ کرنے اور واپس ہسپتال میں جمع کرانے کی اپیلیں کی جا رہی تھیں۔ اے ایف پی نے اس جانکاہ سانحہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا ''امراضِ قلب میں مبتلا مریضوں کو دی جانے والی ان ادویات کی لیبارٹری رپورٹس کیلئے یہ ادویات لندن اور پیرس بھیج دی گئی ہیں تاکہ ان کے بارے میں پتا چلایا جا سکے کہ یہ کس حد تک خطرناک ہو سکتی ہیں کیونکہ پہلے تین دنوں میں 100 کے قریب امراضِ قلب میں مبتلا افراد ان ادویات کے استعمال سے جاں بحق ہو چکے ہیں‘‘۔ شہباز شریف صاحب کی پنجاب میں ''مثالی گڈ گورنس‘‘ کا بھانڈا اس طرح پھوٹا کہ ہسپتال سے ادویات لینے والے غریب مریض دھڑا دھڑ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں کے مختلف سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں داخل ہونا شروع ہو گئے جس سے ان ہسپتالوں میں جگہ کم پڑنا شروع ہو گئی۔ ان مریضوں کے پلیٹ لیٹس اور وائٹ بلڈ سیلز کم ہونے کے علا وہ ان کے جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔ بعد ازاں تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ گڈ گورننس کی ناک تلے انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو ادویات فراہم کرنے والی ایک کمپنی ایسی بھی تھی جس کے لائسنس کی میعاد قریب ایک سال قبل‘ اپریل2011ء میں ختم ہو چکی تھی۔ اس سے آگے کا حال وہ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ وہ کمپنی کون سی تھی‘ اس کے کرتا دھرتا کون تھے اور ان کا تعلق کس سے تھا؟ محکمہ صحت اور ایف آئی اے کی فائلوں میں آج بھی برطانیہ کی میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (MHRA)کی بھیجی گئی رپورٹ موجود ہو گی۔
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے‘ اخبارات کے صفحات اور ٹی وی کی سکرینیں گواہ ہیں کہ‘ بجٹ سوائے حکومت کے انتہائی قریبی لوگوں کے باقی دوسرے کسی کو بھی پسند نہیں آیا، اس لئے ہم مجموعی بجٹ کی تعریف یا تنقید میں کچھ کہنے سے گریزاں رہیں گے، لیکن ایک بات تحریک انصاف کی حکومت سے ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ افواجِ پاکستان کے مختلف رینکس کی تنخواہیں گزشتہ دو سالوں سے نہیں بڑھائی جا رہیں۔ پاکستان میں فوج کے کیپٹن کی تنخواہ ساٹھ ہزار جبکہ بھارت کے فوجی کیپٹن کی تنخواہ75 ہزار روپے سے زائد ہے۔ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کیلئے مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کا ذکر اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف بھی اپنی طویل تقریر میں کرنا بھول گئے۔ اس لئے گزارش ہے کہ ڈیفنس سروسز سے تعلق رکھنے والوں کی بھی سرکاری ملازمین کی طرح تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں حضرت علیؓ کا اپنے گورنر کو لکھا گیا خط ہمیشہ پیشِ نظر رکھئے جس میں انہوں نے اسلامی لشکر کے سپاہیوں اور افسران کو پُرکشش مراعات دینے اور ان کی تمام ضروریات کو بہترین انداز میں پورا کرنے کی سختی سے تلقین کی تھی۔
میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے مختلف ٹی وی پروگراموں میں اس بجٹ کو عوام دشمن قرار دیا تو جواب میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک ٹی وی چینل پر شاہد خاقان عباسی کو تفصیلی بحث یا منا ظرے کا چیلنج دیا۔ شاہد خاقان عباسی کو چاہئے کہ وہ یہ چیلنج قبول کر کے سچ جھوٹ عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیں۔ ہم سب کو اس منا ظرے کا انتظار رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں