ٹائم میگزین نے ستمبر1958ء کے شمارے میں بریکنگ نیوز دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب دنیا دیکھے گی کہ پاکستان گوادر میں اپنی بندر گاہ ‘ ایک بحری اڈہ اور ایئر پورٹ تعمیر کرے گا اور پھر نصف صدی بعد ٹائم کی یہ پیش گوئی پوری ہو گئی۔ اس سے بھی پہلے 1954ء میں امریکی جیالوجیکل سروے اپنی رپورٹ میں گوادر کو ڈیپ سی پورٹ کیلئے بہترین مقام کا درجہ دے چکا تھا۔
گوادر بندر گاہ میں تجارتی جہاز لنگر انداز ہونا شروع ہو چکے ہیں‘ لیکن یہاں ایک بہترین ائیر پورٹ کی بہت ضرورت تھی۔ نجانے کیوں اس کا کام شروع ہونے میں چودہ برس لگ گئے؟ بہرکیف اس کا افتتاح بھی بالآخر اس سال26 مارچ کو وزیر اعظم عمران خان نے کر دیا۔ گوادر ایک بند رگاہ ہی نہیں بلکہ ایک قدرتی دفاعی دیوار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔پاکستان کے کیبنٹ سیکرٹری آغا عبد الحمید مسقط سے گوادر کی خریداری کیلئے جب کراچی سے بذریعہ سمندر گوادر پہنچے تو وہاں کے لوگ اپنی کشتیوں پر اور سمندر کی لہروں پر تیرتے ہوئے اس کروز کے استقبال کیلئے امڈ آئے جس میں پاکستان کے کیبنٹ سیکرٹری گوادر پہنچ رہے تھے۔
کل تک کچھ لوگوں نے دھو م مچا رکھی تھی کہ گوادر چین کے قبضے میں دیا جا رہا ہے لیکن اب ان سب نے دیکھ لیاکہ جیسے ہی کچھ چینی ٹرالر گوادر کی حدود میں مچھلیاں پکڑنے کیلئے دیکھے گئے تو اسی وقت پاکستان کی میرین سکیورٹی ایجنسی نے انہیں اپنی تحویل میں لیتے ہوئے دنیا پر واضح کر دیا کہ اپنی سمندری حدود کی حفاظت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ گوادر بندر گاہ پر قبضے کیلئے کئی ممالک سر توڑ کوششیں کر چکے ہیں۔ افغانستان نے1839ء میں گوادر پر تسلط قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور یہ بھی چند لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ بھارت نے بھی گوادر حاصل کرنے کی بڑی کوششیں کیں لیکن پاکستان کا یہ قدرتی حصہ پاکستان کے حصے میں ہی آیا اور پاکستان کی حکومت نے نہایت مستعدی سے کام کرتے ہوئے بھارت کی ایک نہ چلنے دی اور مسقط کے سلطان کوساڑھے پانچ ارب روپے جو اُس وقت دو ارب ڈالر کے مساوی رقم تھی‘ دے کر گوادر کو اپنے لیے حاصل کر لیا۔اس بھاری رقم کا ایک معقول حصہ آغا خاں کی جانب سے ملنے والی فنڈنگ پر مبنی تھا۔
حضرت دائود علیہ السلام کے دور میں '' وادی کلانچ اور دشت ‘‘ اس وجہ سے مشہور ہو گئیں کہ یہاں کے لوگ بھوک اور قحط سالی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے آپ کو زمیں میں زندہ دفن کر لیتے تھے۔ آج کا گوادر اُسی مشہور وادی کلانچ اور دشت کا حصہ ہے۔سکندر اعظم جب ہندوستان سے واپس مقدونیہ جا رہا تھا تو اس کے ساتھ چالیس ہزار سے زائد فوج تھی اور مکران کا وہ ساحلی علا قہ جسے آج گوادر کہتے ہیں وہاں گرمی‘ پیاس اور بھوک سے پچیس ہزار سے زائد یونانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔وہ خطہ کہ حضرت دائود علیہ السلام کے عہد میں جہاں بھوک اور قحط سے لوگ زندہ دفن ہو جاتے تھے آج اسی کلانچ اور دشت کے علاقے گوادر بندر گاہ کے قیام اور وہاں تجارتی جہازوں کے فنکشنل ہونے سے ترقی وخوشحالی کا سماں پیش کر رہے ہیں اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے دلوں میں یہ مقام اپنے لیے کشش بڑھاتا جا رہا ہے۔ یہ وہی گوادر ہے جہاں سینکڑوں برس پہلے کھجور کے پتوں کے بنائے گئے جال مچھلیاں پکڑنے کیلئے استعمال میں لائے جاتے تھے اور اُس وقت کے سردار بڑی بڑی مچھلیوں کی ہڈیوں سے بنائی گئی جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ ان مچھلیوں کی ہڈیوں کو شہتیر اور چھت کی کڑیوں کیلئے استعمال کرتے تھے اور چپٹی ہڈیاں ان جھونپڑیوں کے دروازوں کیلئے استعمال کی جاتی تھیں۔مچھلیوں کو دھوپ میں خشک کرنے کے بعد ان کو پیس کر آٹا بنایا جاتا جس سے وہ اپنے لیے روٹی تیار کیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی اسی روٹی اور آٹے کو بھیڑ بکریوں بلکہ مچھلیوں کی خوراک کیلئے کام میں لایا جاتا تھا۔شاہ کیکائوس کے عہدِ حکومت میں مکران کا یہ علاقہ ایرانی سلطنت میں شامل تھا۔ کیکائوس کے بعد خسرو‘ لہراسپ‘ بہیمن‘ ہوما‘ گشتاسپ اور دراب خاندانوں کی یہاں حکومتیں رہیں اور پھر دسویں صدی کے آخر میں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ یہ ایک آباد اور مشہور بندرگاہ بن گئی جسے سمندروں کے چوراہے (کراس رُوٹ) کے نام سے پکارا جانے لگا۔1508ء میں اس بندر گاہ کو پرتگالی حملہ آوروں نے تہس نہس کر کے رکھ دیا اور سینکڑوں برس تک یہ علا قہ ویران رہا پھر18ویں صدی کے آخری عشرے میں گوادر کے تمام حصے پر مسقط کا قبضہ ہو گیا لیکن 1958ء میں پاکستان نے اس علاقے کو مسقط سے خرید کرپاکستان کی حدود میں شامل کر لیا۔
آج کی جغرافیائی اور سٹریٹیجک اہمیت کے پیش نظر قدرتی دولت سے مالا مال گوادر کا علاقہ کراچی کے مغربی سمندر سے234 ناٹیکل میل اور اہم ترین خلیج ہرمز کے مشرق سے390 ناٹیکل میل کی دوری پر واقع ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کو اپنی جانب متوجہ کئے ہوئے ہے۔ اپنے اسی جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے گوادر بندر گاہ کو کراچی‘ ایران‘سری لنکا‘ دبئی‘ ہانگ کانگ‘ سنگا پور اور ہندوستان کی تمام بندر گاہوں پر فوقیت حاصل ہے ۔ گوادر کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ ارد گرد کی دوسری بند رگاہیں خلیج فارس کے مخالف سمت واقع ہونے کی وجہ سے وہ بندرگاہیں سینٹرل ایشیا اور افغانستان کو تجارتی سرگرمیوں کیلئے کسی قسم کی مددفراہم نہیں کر سکتیں اور یہ ہمہ وقتWar Zones/Congested حصوں میں واقع ہیں۔گوادر کے مقابلے میں دبئی کی بندرگاہ500 ناٹیکل میل ہے اس لیے کسی بھی بحری جہاز کو گوادر کے مقابلے میں خلیج کی کسی بھی ریاست میں جانا ہو تو اسے یک طرفہ فاصلے کیلئے 30 گھنٹے خرچ کرنے پڑیں گے اوراگر جہاز کا وزن بیس ہزار ٹن ہے تو اسے ایک لاکھ ڈالر شاید ادا کرنے پڑیں گے جبکہ یہی جہاز گوادر بندر گاہ استعمال کرے گا تو اس کا تیس گھنٹے سے زائد کا وقت اور مجموعی طو رپر دو لاکھ ڈالر کی بچت ہو گی۔اس کے ساتھ ان بحری تجارتی جہازوں کیلئے انشورنس اور سکیورٹی رسک کی ادائیگیاں بھی کم ہوں گی۔
گوادر واحد بندر گاہ کہی جا سکتی ہے جس کے زمینی راستے چین ‘ افغانستان‘ ایران اور سینٹرل ایشیائی ریا ستوں سے منسلک ہیں۔26 جون2006ء کو جنرل مشرف کے عہدِ اقتدار میں چین‘ قازقستان‘ کرغیزستان اور ازبکستان کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا تاکہ ان سب سے ریلوے اور سڑک سے رابطہ ہو نے کے علا وہ سنکیانگ کو گوادر سے منسلک کر دیا جائے اور یہ جنرل مشرف ہی تھے جنہوں نے سنکیانگ سے حویلیاں تک ریلوے لائن بچھانے کے احکامات جاری کئے‘جس سے شمالی علا قوں اور ہزارہ میں ہر قسم کی نقل وحمل آسان اورتیز ہو جائے گی اور نئی خوشحالی اور سیا حتی اور صنعتی مقاصد کیلئے بہترین سہولتیں پیدا ہوں گی۔وہ جنرل مشرف ہی تھے جنہوں نے اپنی حکومت میں مکران کی600 کلو میٹر لمبی ساحلی پٹی پر کام شروع کرایا جو ارد گرد کے تمام ملکوں کیلئےEnergy Corridor کا کام دے گی۔
گوادر بندرگاہ ایک طرف پاکستان کیلئے خوش حالی اور دنیا کی سرمایہ کاری کیلئے کشش رکھتی ہے تو ساتھ ہی یہ ملٹری بیس بنے گی اور آنے والے وقت میں خلیج کی سیا ست میں اہم کرادر ادا کرے گی۔اسی وجہ سے بھارت‘ امریکہ اور کچھ دوست ممالک کو بھی گوادر بندر گاہ سے تشویش ہونے لگی اور اس کا ذکر سنتے ہی ان کی پیشانی کی شکنیں مزید گہری ہونے لگتیں اور پھر بلوچستان پر سب مل کر حملہ آور ہونا شروع ہو گئے‘ جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔