حکومتی عہدوں میں اپروچ کو میرٹ پر ترجیح دینے کے کیا نتائج نکلتے ہیں ‘ شہنشاہ اکبر کے دربار کی اس کہانی سے یہ معاملہ بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے:
مغل شہنشاہ اکبر کی حکومت کا تذکرہ اس کے نو رتنوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتااور ان نو رتنوں میں سے ایک وزیر بیر بل کا کردار انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔ بیربل کی ذہانت جہاں ایک طرف اسے شہنشاہِ ہندکی قربت کا شرف بخشتی تھی تو دوسری طرف وہاں سینکڑوں کے حساب سے ایسے لوگ بھی تھے جو اُس کی ان خدا داد صلاحیتوں کو اپنی کامیابی اور رتبے کیلئے رستے کی دیوار سمجھنے لگے تھے ۔ بیربل سے حسد کرنے والوں میں دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح اکبر بادشاہ کی چہیتی بیگم کا ایک بھائی سب سے پیش پیش تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ بیر بل کی جگہ بادشاہ سلامت اسے اپنا وزیر یامشیر بنا لیں۔ جب اس کا اصرار حد سے بڑھنے لگا تو بیربل کو بھی معلوم ہو گیا کہ محل کے اندر سے اسے ہٹانے کی سازشیں پروان چڑھ رہی ہیں ا س لیے ایک دن اس نے خود ہی اپنا استعفیٰ بادشاہ کی خد مت میں پیش کر دیا۔شہنشاہ اکبر نے بیربل کی جگہ اپنے برادرِ نسبتی کو وزیر مقرر کرنے سے پہلے اس کی قابلیت جانچنے کیلئے اسے سونے کے سکوں سے بھری تین تھیلیاں دیتے ہوئے کہا '' جائو اور ان کو اس طرح خرچ کر کے آئو کہ ان میں سے ایک تھیلی مجھے فوری طور پر واپس مل جائے دوسری تھیلی مرنے کے بعد اور تیسری تھیلی نہ اس جہاں میں نہ ہی اُس جہاں میں؟ اکبربادشاہ کی طرف سے سونے سے بھری ان تینوں تھیلیوں کو وصول کرنے کے بعد وزیر جب گھر آیا تو اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کو کس طرح خرچ کیا جائے کہ بادشاہ کی تینوں خواہشیں ایک ساتھ پوری ہو جائیں۔ وہ کئی راتیں مسلسل جاگتا رہا اس نے بہت سے طریقے‘ سوچے جب اسے کوئی رستہ دکھائی نہ دیا تو اس کی بیوی نے اسے مشورہ دیا کہ تمہاری عزت اسی میں ہے کہ بیربل کے پاس جا کر اس سے مدد مانگو ‘وہ تمہیں ضرور کوئی طریقہ بتائے گا۔دونوں میاں بیوی رات کی تاریکی میں بیربل کے گھر پہنچے اور اس سے مدد کی درخواست کی۔ بیربل نے ان سے کہا کہ وہ سونے کے سکوں پر مشتمل یہ تینوں تھیلیاںاسے لا کر دے دیں اور مطمئن ہو کر گھر چلے جائیں‘ جلد ہی بادشاہ کو بتانے کیلئے انہیں تینوں جواب مل جائیں گے۔
اگلے دن ایک گھوڑے پر سوار ہو کر بیربل شہر میں ادھر ادھر گھومنے لگا ‘وہ ایک آبادی کے پا س سے گزرا تو اچانک ایک بہت بڑی حویلی کے سامنے ٹھٹھک کر رہ گیا۔ دیکھنے میں ہی یہ کسی مالدار تاجر کا گھر لگتا تھا جسے اس نے اپنے بیٹے کی شادی کی خوشی میں خوب سجارکھاتھا اور وہ تاجر انتہائی قیمتی اور فاخرانہ لباس پہنے اپنے بیٹے کی شادی کی خوشی میں شرکت کیلئے آنے والے مہمانوں کا آگے بڑھ بڑھ کر بڑے تپاک اور جوش سے استقبال کر رہا تھا۔ بیربل سیدھا اس تاجر کے پاس پہنچا اور گلے سے لگاتے ہوئے اسے بیٹے کی شادی کی مبارکباد دیتے ہوئے سونے سے بھری ہوئی ایک تھیلی اسے پیش کرتے ہوئے کہا: جناب یہ شہنشاہ اکبر کی جانب سے آپ کے بیٹے کی شادی کی خوشی میں تحفہ ہے ۔تاجر حیرت اور مسرت سے کبھی مہمانوں اور کبھی بیربل کا منہ دیکھنے لگا۔ شہنشاہ ہند کی طرف سے دیے گئے اس بیش قیمت تحفے اور عزت افزائی سے اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ۔شادی میں شریک اس کے بڑے بڑے رتبے والے مہمانوں نے جب دیکھا کہ بادشاہ سلامت نے ان کے میزبان کو تحفے کے طور پر سونے کی اینٹیں بھیجی ہیں تو ان کے دل میں اس تاجر کا رتبہ اور عزت پہلے سے بھی کئی گنا بڑھ گئی۔ تاجر نے سونے کی اینٹوں سے بھری تھیلی کو چومتے ہوئے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اور جاتے ہوئے اس نے بیر بل کو لباس فاخرہ اور بادشاہ سلامت کیلئے سچے موتیوں کی مالائوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی اور ہیرے جواہرات سے بھرا بیگ دیتے ہوئے اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنے کی درخواست کی۔ بیر بل تاجر کی طرف سے ملنے والی اس تھیلی کو لئے ہوئے اپنے گھر واپس آ گیا۔اگلی صبح ہوتے ہی بیربل پھر اپنے گھر سے نکلا اور سونے کی دوسری تھیلی کے عوض اس نے بازار سے ڈھیروں اناج اور کپڑے خریدے اور انہیں بیل گاڑیوں پر لاد کر شہر کے ارد گرد کی غریب بستیوں میں داخل ہو گیااور وہاں لوگوں میں اناج اور کپڑا تقسیم کر دیا۔یہاں سے فارغ ہو کر وہ گھر آگیا اب اس کے پاس سونے کی اینٹوں سے بھری صرف ایک تھیلی رہ گئی تھی جس کیلئے اگلے دن تک آرام کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے لمبی تان کر سو گیا۔ اگلے دن صبح دیر تک سونے کے بعد اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اس طرح تیار ہونا شروع کر دیا جیسے کسی بہت بڑی محفل میں جانا ہو۔ جیسی ہی شام ڈھلی اس نے سونے کی تیسری تھیلی ہاتھ میں پکڑی اور سیدھا ناچنے گانے والیوں کے بازار میں جا پہنچا اور سونے کی یہ تھیلی ان پر لٹا نے کے بعد رات گئے خالی ہاتھ گھر لوٹ آیا۔
اگلے دن جیسے ہی دربارِ اکبری اپنی رونق پر پہنچا تو بیر بل بھی خاموشی سے دربار میں ایک طرف جا کر بیٹھ گیا لیکن اس کی موجودگی ہر ایک کو اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی کیونکہ وہ تو شہنشاہ اکبر کا انتہائی منظورِ نظر تھا اور اس کا مرتبہ یہ تھا ہی نہیں کہ وہ دربار میں ایک طرف بیٹھے۔ جلد ہی کھسر پھسر شروع ہو گئی اور سب لوگ اس طرف دیکھنا شروع ہو گئے۔ جلد ہی اکبر بادشاہ نے بھی اس کا نوٹس لیا اور اس کے مصاحبوں نے بیربل کو قریب آنے کا اشارہ کر تے ہوئے اس کی اچانک آمد کا پوچھا۔ بیربل نے حسبِ روایت بادشاہ کو آداب بجا لانے کے بعد کہا :اگر اجا زت ہو تو آپ کو سونے کی ان تین تھیلیوں کی کہانی سنائوں؟بادشاہ نے بے تابی سے پوچھا کہ بیر بل سونے کے سکوں سے بھری تین تھیلیاں تم تک کیسے پہنچ گئیں یہ تو میں نے اپنے نئے وزیر اور ملکہ کے بھائی کو دی تھیں؟ بیر بل نے آداب بجا لاتے ہوئے کہا: حضور وہ یہ تین تھیلیاں میرے حوالے کر گئے تھے کہ انہیں اس طرح استعمال میں لائوں کہ جس سے بادشاہ کو ان کے تینوں سوالوں کا منا سب جواب مل جائے۔ اس کیلئے میں نے پہلی تھیلی شہر کے ایک تاجر کو اس وقت دے دی جب وہ اپنے سینکڑوں مہمانوں کے ہمراہ اپنے بیٹے کی شادی کی پر شکوہ تقریبات میں مصروف تھا۔ جیسے ہی اسے بادشاہ کی طرف سے یہ تھیلی ملی تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور اس نے بادشاہ کی اس عنایت کا شکریہ ادا کرنے کیلئے سونے کی اس تھیلی سے بھی زیا دہ بیش قیمت تحائف بادشاہ کی نظر کر دیے۔ اس طرح آپ کا پہلا سوال مکمل ہوگیا کہ یہ تھیلی آپ کو اسی دنیا میں اور فوراً واپس مل گئی۔سونے کی دوسری تھیلی سے میں نے ڈھیروں اناج خریدا اور پھر اسے بڑے بڑے چھکڑوں میں لاد کر شہر کے قریب غریبوں کی ایک بستی کی طرف چل دیا جہاں میں نے ہر گھر کو اناج کپڑے‘ جوتے اور زندگی کے دوسرے سامان تقسیم کئے یہ سب ہاتھ اٹھا اٹھا کر بادشاہِ ہند اکبر کو دعائیں دے رہے ہیں ‘یہ تھیلی جو میں نے شہنشاہ کے نام سے غریب آبادیوں میں تقسیم کی اس کی واپسی اس دنیا میں بھی ہو گی لیکن اس کا سب سے بڑا اجر اور واپسی اس وقت ہوگی جب ہم سب اﷲ کے دربار میں حاضر ہوں گے اور وہ اپنی راہ میں اپنے غریب ‘ لاچار‘ بیمار اور مفلوک الحال لوگوں کی دست گیری کرنے والوں کو اپنے ہاتھ سے واپسی کریں گے اور سونے کے سکوں کی تیسری تھیلی میں ایک رات ناچنے گانے والیوں پر لٹا کر خالی ہاتھ گھر پہنچ گیا۔ یہ تیسری تھیلی اس طرح ضائع ہو گئی۔
یہ واقعہ امور حکمرانی کا بڑا گہرا سبق لیے ہوئے ہے ۔یعنی یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اہم عہدے حاصل کرنے کی خواہش کے ساتھ کوئی قابلیت بھی ہے یا صرف حکمران سے ذاتی تعلق ہی اس شوق کا سبب ہے۔ دھیان رہے کہ اگر قابلیت نہیں تو اہم عہدہ مل جانے کے باوجود ''بیربل‘‘ کی ضرورت رہے گی اور آخر کار وہی آپ کو مشکل سے نکالے گا۔ حاکم کا بھی فرض ہے کہ سرکاری عہدہ دیتے وقت صرف تعلق کو نہ دیکھے‘ بلکہ قابلیت اور میرٹ ہی حکومتی عہدوں کا بنیادی معیار ہونا چاہیے۔