"MABC" (space) message & send to 7575

کیاامریکہ کے بعدبھارت؟

نومبر2001ء میں‘ افغانستان پر امریکی حملے کے کوئی ایک ماہ بعد بھارت کے چوٹی کے تین ماہرین ایس کے لامبا‘ ارون سنگھ اور مکھ اوپاڈیا پر مشتمل ٹیم 1996ء سے طالبان کی حکومت کی وجہ سے بند انڈین سفارت خانے کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے کابل پہنچی۔ وقت کبھی بھی ایک سا نہیں رہتا ‘عالمی سیا ست اور بین الاقوامی اور قومی معاملات میں اونچ نیچ‘ جسے ہمارے ہاں یو ٹرن کا نام دے کر سیا سی جگتیں کی جاتی ہیں‘ ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہی اور اسی یو ٹرن سے قومیں حال اور ماضی کے معاملات طے کرتی ہیں۔مثال کے طور پر بارنٹ روبن جو 2009-13 ء تک امریکی حکومت کا پاکستان اور افغانستان میں خصوصی نمائندہ تھا‘ نے ایک پریس کانفرنس میں سینہ پھلا کر کہا تھا کہ امریکہ کسی بھی صورت طالبان کو اپنے ساتھ کھڑا ہونے کی اجا زت نہیں دے گا‘ لیکن پھرسب نے دیکھا کہ امریکہ طالبان سے ہاتھ ملانے کیلئے کس طرح بے تاب ہوتا رہا۔
افغانستان عجیب سر زمین ہے جہاں انسانی تاریخ کا ہر برس اپنے اندر کا شعلہ اگلتا رہتا ہے۔ نائن الیون کی آڑ میں اکتوبر2001ء میں امریکہ چین اور روس کے پہلو میں آنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اپنے ہر پیشرو کی طرح اس کی بد قسمتی کہ افغانستان کی تسخیر کے تمام ارادے پہاڑوں سے ٹکرا کر ادھر ہی بکھر کر رہ گئے۔چودہ مارچ کو '' افغانستان آج اور کل ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے مضمون کی چند سطریں پھر سے پیش خدمت ہیں '' اٹھارہ مارچ کو ماسکو کی میزبانی میں طالبان‘ اشرف غنی‘ پاکستان‘ چین اور ایران کو ایک ساتھ بٹھا کر افغانستان میں قومی حکومت پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی اس کے بعد بھارت کو ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں شریک کیا جائے گا لیکن یہ ایسے ہی نہیں ہو گا کہ بھارت کو ایک بڑی قوت کے طور پر اس کا مقام دیا جا رہا ہے بلکہ اس کے بدلے آپ سب جلد ہی نریندر مودی کی اب تک کی کشمیر پالیسی میں بہت بڑا یو ٹرن دیکھیں گے‘‘۔ یہی وہ نکتہ ہے جو حالیہ دنوں پاکستان میں شدت سے زیر بحث ہے کہ کیا بھارت اپنا پانچ اگست کا فیصلہ واپس لینے جا رہا ہے؟ اس کی وجہ کشمیری قیادت کے ساتھ بھارتی حکومت کی حالیہ اے پی سی ہے جس بارے کہا جا رہا تھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی فیصلے کو بدلنے اور پانچ اگست کے بھارتی اقدام کی واپسی کے ا شارے مل رہے ہیں۔
راقم تین ماہ پہلے ہی ان امکانات کی نشاندہی کر چکا ہے۔ 29فروری2020ء کو دوحہ قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان کیا گیا معاہدہ جس میں طالبان کی جانب سے ملا عبد الغنی برادر اورملا حبیب اﷲ اخوانزادہ نے دستخط کئے تھے‘ یہ تاریخی امن معاہدہ اب اپنے دوسرے دور میں داخل ہو نے جا رہاہے۔ ایک جانب اگر امریکی افواج افغانستان سے نکلنا شروع ہو گئی ہیں تو دوسری طرف کابل‘ جلال آباد اور قندھار کے ارد گرد کے صوبوں اور ان سے ملحقہ اہم شہروں سے افغان فوج کے کچھ حصے اپنے زیر قبضہ دفاعی ہتھیاروں سمیت اشرف غنی کو چھوڑ کر طالبان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ہمارے تمام فیصلہ ساز اور تھنک ٹینک بھارت کے افغانستان کیلئے پہلے سے بنائے گئے ارادوں اور کارنیگی رپورٹ میں بتائے گئے طریقوں اور منصوبوں سے اگر مار کھا گئے تو اس کا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔اس لئے کابل سے امریکی افواج کی واپسی کے عمل میں پاکستان کو ہر دم اور ہر زاویے سے خبردار رہنا ہو گا کیونکہ یہی وہ وقت ہے جو ہماری سیا سی اور عسکری قیا دت کی صلاحیتوں کیلئے ایک امتحان ثابت ہو گا ۔
امریکہ اور طالبان معاہدے کی ایک شق کے مطا بق طالبان افغانستان میں دہشت گردی کو کنٹرول کریں گے اور دوسری کسی بھی عسکری تنظیم کو دہشت گردی سے روکیں گے۔اس سلسلے میں امریکی جنرل میکنزی جونیئر کی اس تشویش کو لازمی سامنے رکھنا ہو گا کہ امریکہ کے جانے کے بعد القاعدہ اور داعش دوبارہ منظم ہو سکتے ہیں‘ مگر اسے اس طرح سمجھا جائے کہ ان تنظیموں کو اسرائیل‘ بھارت وغیرہ کی مدداور تعاون سے منظم کیا جاسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کابل‘ جلال آباد اور قندھار سمیت پاک افغان سرحدوں پر بیٹھے ہوئے گروپس جنہیں RAW/NDS کی مکمل سپورٹ حاصل ہے‘ کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی سے کس طرح روکیں گے؟
ایک بھارتی تھنک ٹینک جو وہاں کی خفیہ تنظیم راء کیلئے کام کرتا ہے‘ نے امریکہ کے جانے کے بعد کی صورت حال سے نبٹنے اور مستقبل کی پلاننگ کرتے ہوئے ایک رپورٹ میں اپنی حکومت کے سامنے افغان امن معاہدے کی صورت میںپیدا ہونے والے بہت سے امکانات اور ان سے نبٹنے کے طریقے وضع کرتے ہوئے بھارتی اداروں کے سامنے چند سوالات رکھتے ہوئے کہنا ہے کہ امریکی افواج کے بعد بھارت کا سب سے اہم ٹاسک یہ ہونا چا ہئے کہ افغانستان میں پاکستان کے ا ثر کو کس طرح کم اور ختم کرتے ہوئے دونوں اطراف کی آبادیوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔
کابل میں طالبان کی قانونی موجو دگی بھارت کیلئے کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہو گی اور ان کے تھنک ٹینک سوچ رہے ہیں کہ نائن الیون کے بعد حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کے ساتھ مل کر افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کہیں ضائع ہی نہ ہو جائے۔ اور یہ پریشانی بھارت کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ کارنیگی رپورٹ میں بھارت کو مشورہ دیا گیا ہے افغان امور کے کسی انتہائی ماہر کو اپنا مستقل مندوب تعینات کرنے کے علاوہ طالبان کے اندر اپنے لئے کسی ایسے گروہ کو بھی ہر طریقے سے اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں تیز تر کرنی ہو گی ورنہ افغان سر زمین سے بھارت کے قدم اکھڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔
انڈین تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو پہلے سے زیا دہ دلچسپی کے ساتھ افغان فوج اور اس کے سکیورٹی اداروں کی تربیت‘ ان کی بڑھ چڑ ھ کر مالی معاونت اور ان کے انفرا سٹرکچر کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے بے تحاشا فنڈز استعمال کرنا ہوں گی اور اس سلسلے میں وزارت خزانہ یا خارجہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔انڈین تھنک ٹینک بھارتی حکومت کو مزید تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بھارت کو افغانستان کی NDS کی تربیت دینے کیلئے پہلے سے بھی زیا دہ وسائل صرف کرنے اور انٹیلی جنس شیئرنگ کو بڑھانے کے علا وہ جدید آلات کی فراہمی کو بھی ترجیح دینا ہو گی۔بھارت تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی دگرگوں معیشت کو بہتر بنانے کے نام پر بھارت کو فوری اقدام کرنا ہوں گے‘اور جب طالبان کے ساتھ رابطوں کی بات کی جاتی ہے تو پاکستان کو 2010ء میں ملا عبد الغنی برادر کے افغان صدر حامد کرزئی سے خفیہ رابطوں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔بھارت کی ہر ممکن کوشش ہو گی کہ افغانستان کے موجودہ اور کل کو سامنے آنے والے حالات میں روس اور ایران کو اپنے قریب لانے کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرلے۔ اگلے مضمون میں افغانستان ‘ طالبان اور بھارت کیلئے امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹس اور مقاصد پر مزید بحث کی جائے گی۔ ان دنوں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا جاری ہے اس لیے ہمیں ان حالات پر اچھی طرح نظر رکھنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں