"MABC" (space) message & send to 7575

کب تک‘ کہاں تک؟

انڈین سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی رپورٹ کے مطابق‘ جموں ایئر بیس پر بم گرانے والے جن ڈرونز کو مار گرایا گیا‘ انتہائی محتاط تلاش کے با وجود ابھی تک ان میں سے کسی ایک کا ملبہ بھی کہیں سے نہیں مل سکا ہے، سوائے ان بموں کے سپلنٹرز کے‘ جو ایئر بیس کے ٹیکنیکل ایریا میں گرائے گئے تھے۔ یہ بھارت کی جانب سے ہمیشہ کی طرح پاکستان کو ملوث کرنے کی نئی کہانی سمجھ لیں یا بالی ووڈ کی کسی ایکشن فلم کا سین لیکن اس فلم کے ہدایت کار اس وقت مار کھا گئے جب ان ڈرونز کا ملبہ دیکھنے کیلئے انڈین فوج کے افسران میڈیا ٹیم کوریج کیلئے لے کر وہاں پہنچے۔ میڈیا اہلکار پوچھتے ہی رہ گئے کہ ہمیں گرائے جانے والے ڈرونز کا ملبہ یا ان کی کوئی تصاویر ہی دے دیں تاکہ ہم اپنے ٹی وی چینلز کو بھیج سکیں لیکن جواب ندارد۔ چونکہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اس لیے اسے پکڑنا قطعاً دشوار نہیں ہوتا۔ چلیں ایک لمحے کیلئے بھارتی اداروں کی جانب سے بتائی جانے والی یہ کہانی تسلیم کر لیتے ہیں کہ جموں ایئر بیس پر ڈرون کے ذریعے MI17 ہیلی کاپٹروں کے ہینگرز کے قریب یا ان کے اوپر بم پھینکے گئے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تو بتایا جائے کہ کیا بھارت ان حملوں سے بے خبر تھا؟ کیا اس کے ریڈار کام نہیں کر رہے تھے؟ جب غیر ملکی میڈیا نے بھارت کے فوجی ترجمان سے یہ سوال پوچھا تو جواب ملا کہ اتنے چھوٹے ریڈار یا ڈرونز کو ٹریس کرنے کیلئے ابھی ان کے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ بھارت کے فوجی ترجمان نے غلط بیانی سے کام لیا۔ اگر یہ ڈرون بارڈر پار سے آ رہے ہوتے تو یہ بات میں پورے دعوے کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ بھارت کے پاس چھوٹے ڈرونز کو ٹریس کرنے والے اور ان کی آمد کی خبر دینے والے ریڈار نہ صرف موجود ہیں بلکہ یہ جموں ایئر بیس میں نصب بھی ہیں۔ انڈین ایئر فورس کے جموں میں نصب ریڈار تمام ڈرونز کو ٹریس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انڈین گورنمنٹ اور انڈین ایئر فورس کیوں تسلیم نہیں کرتیں کہ ان کے پاسKuRFS radar موجود ہیں جو سمالر اور سلو فلائنگ Unmanned Aerial Vehicle کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
بھارتی میڈیا میں ایسی کہانیاں بھی گردش کر رہی ہیں کہ جموں واقعے کے بعد جب انڈین ایئر فورس کے سینئر افسران سے مودی حکومت نے باز پرس کی کہ جدید ریڈار ہونے کے باوجود یہ ڈرون کس طرح یہاں تک پہنچ گئے تو ایئر فورس نے یہ عذر تراشا کہ ہمارے پاس ڈرونز کو ٹریس کرنے والے ریڈار تو موجود ہیں لیکن ابھی تک ہم اپنے عملے کو ان کو ہینڈل کرنے کی ٹریننگ نہیں دے سکے ہیں۔ اب اس حملے کے بعد متعلقہ عملے کی دن رات ٹریننگ کر رہے ہیں تاکہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔ کیا بھارتی ایئر فورس اس بات سے انکاری ہو سکتی ہے کہ جموں ایئر بیس پر چہار اطراف میں خصوصی ریڈارز، لیزر گنیں اور ایسی جدید گنز نصب ہیں جو ریڈار کا سگنل ملتے ہی ایک منٹ میں 4600 رائونڈز فائر کر سکتی ہیں؟ کیا جموں ایئر بیس کے آپریشنل کمانڈر اس بات سے انکاری ہو سکتے ہیں کہ رات 1 بج کر 33 منٹ پر ان کی پٹرولنگ ٹیم ان ڈرونز کو ایئر بیس کے اوپر پرواز کرتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ اگر ایک پٹرولنگ ٹیم ان ڈرونز کو دیکھ چکی تھی تو اس کے چار منٹ بعد‘ 1:37 پر پہلے حملہ اور اس کے پانچ منٹ بعد 1:42 پر دوسری بار یہ بم گرانے میں کیسے اور کیونکر کامیاب ہوئے؟ جبکہ ڈی جی پولیس دل باغ سنگھ اپنی رپورٹ میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ ڈرونز ایئر بیس کے قریبی ایریا سے ہی اڑائے گئے تھے۔
اُڑی کیمپ، پٹھان کوٹ اور پلوامہ جیسے ڈراموں کے بعد اب بھارت سرکار لائن آف کنٹرول سے چند کلومیٹر دوری پر واقع انڈین ایئر فورس کے انتہائی اہم اور مصروف ترین جموں ایئر بیس پر ڈرون حملے کی دہائیاں دے رہی ہے۔ قریب ایک ماہ قبل میں نے اپنے ایک کالم میں پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں اور دوسرے اداروں سے مخاطب ہوتے ہوئے بتایا تھا کہ نریندر مودی اور اس کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی محبت کا غبار ہر آنے والے دن کے ساتھ بھارتی عوام کے دلوں سے چھٹتا جا رہا ہے اور مودی ٹولہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو تازم دم کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف وحشت‘ اور جنونیت پر مبنی ہندوتوا کی لہروں کو اچھالنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی فوج یا کسی پیرا ملٹری فورس کے جوانوں کے خون کی بلی دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گا جیسے اس سے قبل پلوامہ واقعے میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ ڈرون حملوں کے ڈرامے سے چونکہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا، اس لیے مودی ٹولہ کسی اہم جگہ پر یا تو ممبئی حملوں یا پھر سمجھوتا ایکسپریس اور پلوامہ جیسا کوئی نیا کھیل اور بالی ووڈ کی کسی فلم جیسا ٹریلر چلانے کی کوشش کر سکتا ہے کیونکہ بھارت کی ہر ریا ست کے انتخابات میں مودی ٹولے کو جس طرح عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اس سے صاف لگتا ہے کہ اس ٹولے کی انتہا پسندی کے دن گنے جا چکے ہیں اور اب وہ ایک مرتبہ پھر بھارتی عوام کو پاکستان دشمنی کی بھٹی میں جھونک کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
وزیراعظم پاکستان نے بجٹ کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اپنے شہریوں کے بے تحاشا اور ناقابلِ تلافی نقصانات اور بے دریغ قربانیاں دینے کے باوجود پاکستان سے رکھے گئے امریکی رویے کی جو تاریخ یاد دلائی ہے دراصل یہ وہ آئینہ ہے جو امریکی فیصلہ سازوں کو یاد کراتا ہے کہ تم نے ہمارے لوگوں کی ہڈیوں پر اپنی کامیابیوں کے محل کھڑے کیے لیکن ہمارے لیے دکھ‘ مصیبت اور تکلیف کی گھڑی میں ہمدردی کے دو بول بولنے کے بجائے ہمارے بدترین دشمنوں کو گلے لگایا، ہمارے ہاتھ سے لاٹھی تک چھین لی اور مقابلے میں ہمارے دشمن کے اسلحہ خانوں کو اس طرح بھر دیا جیسے تیسری جنگ عظیم شروع ہونے جا رہی ہو۔ بس! اب بہت ہو گیا، اب یہ ظلم و ناانصافی مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔
انڈین ایئر فورس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ایئر بیس پر حملہ کشمیری مجاہدین کی کارروائی ہے اور اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ مودی ٹولہ اور اس کے گوسوامی جیسے میڈیا روبوٹس اپنی قوم کو پاکستان کے خلاف اسی طرح اشتعال دلا رہے ہیں جیسے انہوں نے پلوامہ اور اُڑی کیمپ ڈراموں کے بعد بھارت بھر میں جنگی جنون کی کیفیت برپا کر دی تھی۔ سمجھوتا ایکسپریس کی دو بوگیوں کی تباہی اور ان میں سوار 69 مسلمانوں کی شہادت کو آج چودہ برس بیت چکے ہیں اور جیسے ہی سمجھوتا ایکسپریس جیسا کوئی اور واقعہ ہو گا تو اگلے ہی لمحے بھارت کی تمام پروپیگنڈا مشینری پاکستان پر اس کا الزام دھرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لے گی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ امریکی حکومت نے بھی بغیر کسی تحقیق کے چند منٹ بعد ہی اس کارروائی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے بیان جاری کر دیا تھا کہ امریکا اس کی سخت مذمت کرتا ہے اور اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ پھر امریکا سمیت ساری دنیا نے دیکھا کہ سمجھوتا ایکسپریس حملوں میں بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل پروہت اور سادھوی پرگیا ٹھاکر جیسے افراد پر مبنی انتہا پسندوں کا ٹولہ ملوث تھا۔ فروری 2007ء کو جب انڈین ایجنسیوں نے سمجھوتا ایکسپریس حملہ کروایا تو یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کشمیر اور سیاچن پر مذاکرات کرنے کیلئے نئی دہلی پہنچ رہے تھے۔ اسی طرح 2008ء میں جب چھبیس گیارہ کے ممبئی حملوں کا واقعہ پیش آیا تو اس دن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے وفد کے ہمراہ بھارت سرکار سے دو طرفہ تعلقات اور باہمی تنازعات کے حل پر بات چیت کرنے کیلئے نئی دہلی میں موجود تھے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بڑی مشکل سے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے والے اس وقت کوئی نیا کھیل نہ کھیلیں تاکہ کشمیر پر بات چیت کے دروازے اگلے کئی سالوں تک کیلئے بند ہو جائیں؟ بھارت جانتا ہے کہ کشمیر کا دوطرفہ قابل قبول حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد ہے اور یہ وہ ہڈی ہے جو بھارت کے گلے کی پھانس بن چکی ہے، اسی لیے وہ مذاکرات اور باہمی تعلقات کی بہتری سے دامن چھڑاتا آیا ہے، مگر کب تک اور کہاں تک بھارت مذاکرات کی راہ سے فرار اختیار کرے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں