''رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘۔ بابا بلھے شاہؒ کی سدا بہار شاعری کا یہ چھوٹا سا مصرع اپنے اندر اس قدر گہرائی اور معنی لئے ہوئے ہے کہ ان کے کہے اور لکھے ہوئے یہ الفاظ زمانوں کے الٹ پھیر‘ موسموں کی تبدیلیوں اور تغیر اور حوادثِ زمانہ کے تھپیڑوں سے بھی متاثر نہیں ہوئے اور آج بھی ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں ہونے والے واقعات کی مناسبت سے اسے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان‘ قائد ایوان منتخب ہونے کیلئے جس دن اور جس گھڑی‘ پارلیمنٹ تشریف لا رہے تھے‘ اسی وقت تقریر نویسوں نے چیئرمین پیپلز پارٹی کے کان میں پھونک دیا تھا کہ اب اپنی انتخابی شکست کو ہمہ وقت سلیکٹڈ لفظ کے پردے میں چھپایا جائے گا اور پھر یوں ہوا کہ پیپلز پارٹی کی دیکھا دیکھی مسلم لیگ نون کے افراد نے بھی سلیکٹڈ لفظ کی گردان کو اپنا وتیرہ بنا لیا۔ کہا جاتا ہے کہ گھروں میں اور روزمرہ معمولات میں زیادہ استعمال کیے جانے والے فقرے ذہنوں سے چمٹ کر رہ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ وزیراعظم کے نام کے ساتھ ''نیازی‘‘ کے لفظ پر زور دیتے ہوئے اسے بطور طعنہ استعمال کرتے ہیں‘ تو اسے وزیراعظم کی شرافت ہی سمجھا جائے گا کہ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ انہوں نے اپنے سیا سی مخالفین کو کبھی ان کی ذات پات کے حوالے سے نہیں پکارا حالانکہ کچھ لوگ بڑے فخر سے اپنا ناموں کے ساتھ اپنی ذات اور قومیت کا استعمال کرتے ہیں بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی بڑے لوگوں کو ان کے ناموں سے کم اور ذات پات کے حوالے سے ہی زیادہ لکھا اور پکارا جاتا ہے‘ جیسے قریشی، چٹھہ، چیمہ، شیخ، بلوچ یا رحمانی اور انصاری جیسے الفاظ کا استعمال عام کیا جاتا ہے‘ اسی طرح پشتونوں میں بھی قبیلے کے نام کا حوالہ دیا جاتا ہے‘ جیسے آفریدی، یوسفزئی وغیرہ۔ پاکستان کی سیاست میں جب وزیراعظم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سلیکٹڈ کا لفظ کثرت سے استعمال ہونے لگا تو اس وقت میں سوچنے لگا کہ یہ لفظ ان کے ذہنوں میں کیسے آیا؟ واقعات اور حالات کی کڑیاں ملانے سے انکشاف ہوا کہ اس کا کچھ تعلق جینز سے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اگر اسکندر مرزا سے ایوب خان کے نظرِ انتخاب پر جائیں تو کچھ کچھ اندازہ ہونے لگتا ہے کہ سلیکٹڈ کا لفظ وہاں سے ہی استعمال ہونا شروع ہوا ہو گا اور پھر جنرل ضیاء الحق کا زمانہ یاد کرتے ہوئے ان کی نگاہِ انتخاب کی طرف جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے بھی تو کچھ سیلکشنز کی تھیں اور ان کی سلیکٹڈ شخصیات اور ان کی نسلیں‘ آج ہماری سیاست اور صنعت و حرفت میں نمایاں حیثیت سے موجود ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ یہ وراثت کا نتیجہ ہو سکتی ہیں جو سلیکٹ ہونے کی خواہشیں ان میں ہمہ وقت مچلتی رہتی ہیں۔
ملکی حالات اور سیاسی منظر نامے پر غور و فکر سے ہمیں امریکی صدر بل کلنٹن کی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے انڈو پاکستان اور سینٹرل ایشیا رابن رافیل (Robin Raphel) کا جولائی1996ء میں دورۂ مری اور وہاں اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت کی طرف سے دیا جانے والا پُرتعیش لنچ یاد آنے لگتا ہے جس کے کچھ دن بعد اس وقت کے پانچ معروف اخبار نویسوں کو بھوربن میں لنچ پر بلایا گیا اور اسی دوران ان تمام افراد سے درخواست کی گئی تھی کہ ہماری حکومت آ رہی ہے‘ آپ وعدہ کریں کہ چھ ماہ تک ہم پر تنقید کرنے کے بجائے ہمارا ساتھ دیں گے۔ وہ پانچوں افراد یہ فقرہ سن کر حیران رہ گئے تھے اور آج بھی اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کرتے ہوئے حیران ہو جاتے ہیں کہ اس وقت محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت تھی اور کوئی ایسے حالات بھی نہیں تھے کہ محسوس ہوتا کہ حکومت جانے والی ہے۔ ویسے بھی اس وقت حکومت کو لگ بھگ ڈھائی سال کا عرصہ ہوا تھا اور مڈٹرم الیکشن کا بھی کوئی شور و غوغا نہ تھا، نہ ہی وزیراعظم اور صدر اور نہ ہی حکومت اور اداروں کی آپس میں کوئی چپقلش چل رہی تھی جس کی بنا پر یہ کہا جا سکتا یا گمان بھی کیا جا سکتا کہ شاید حکومت چلی جائے گی۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا اور شیڈول کے مطابق اگلے عام انتخابات اکتوبر 1998ء میں ہونا تھے، تو پھر اچانک اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت کو اقتدار کیسے مل رہا تھا؟ وہ کیوں اتنی پُرامید تھی؟ حامد میر، ظفر عباس، عامر متین، محمد مالک اور نصرت جاوید‘ یہ پانچوں افراد شاید اس دن بھوربن میں ''سلیکٹڈ اور سلیکشن‘‘ کے نئے مفاہیم سے آگاہ ہوئے تھے۔ اس کے بعد کی کہانی سب کو معلوم ہے کہ دو ماہ بعد وزیراعظم بینظیر بھٹو کے سگے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں ایک پولیس مقابلے میں قتل کر دیا جاتا ہے‘ ملک میں ہنگامہ آرائی شروع ہو جاتی ہے‘ سیاسی کشیدگی عروج پر پہنچ جاتی ہے‘ وزیراعظم اور صدر کے مابین اختلافات بڑھنے لگتے ہیں‘ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر صدر مملکت کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشن کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اس سارے سیاسی منظر نامے کو بغور دیکھنے والے‘ جنہیں پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ اگلی حکومت کے لیے کون ''سلیکٹ‘‘ ہوا ہے‘ سب کچھ جاننے کے باوجود‘ حالات میں اس قدر تیزی سے روپذیر ہوتی تبدیلیاں دیکھ کر‘ گنگ رہ گئے‘ مگر ہونی ہو کر رہی اور اقتدار نئے سلیکٹڈ کو مل گیا۔ ممکن ہے کہ آج سلیکٹڈ سلیکٹڈ کی گردان کرنے والوں کے پیشِ نظر یہ اہم سیاسی تاریخی واقعہ ہو۔
پارلیمنٹ کے ایوان میں یوں تو اب تک عوام کی دلچسپی اور جگ ہنسائی کے کتنے ہی تماشے ہو چکے ہیں لیکن چند روز قبل چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان جو مکالمہ ہوا‘ اس کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ ''انٹرویو‘‘ کیلئے جانے سے پہلے میڈیا کی نظروں میں زیادہ دیر رہنے کیلئے ''متوقع حریف‘‘ کو نیچا دکھانے کیلئے وہ خواہ مخواہ الجھ بیٹھے۔ جہاں تک انٹرویو کا تعلق ہے تو اکثر ہمارے ہاں یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اخبارات میں کسی بھی خالی ہونے والی سرکاری اسامی کیلئے اشتہارات محض رسم نبھانے کیلئے دیے جاتے ہیں جبکہ اس اسامی کیلئے امیدوار کا پہلے سے ہی انتخابات کر لیا جاتا ہے۔ نوجوان رہنما سے متعلق سنا ہے کہ وہ اپنا ''فائنل انٹرویو‘‘ دینے اور واشنگٹن یاترا کیلئے کسی بھی وقت اڑان بھرنے والے ہیں اور اس امتحانی ٹیسٹ اور اس کے بعد انٹرویو اور پھر سلیکشن کیلئے وہ اتنے پُرجوش اور بے تاب ہیں کہ لگی لپٹی رکھے بغیر ان کے ساتھی یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے رہنما فائنل سلیکشن کیلئے امریکا جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اپنے صاف جواب کی وجہ سے امریکا اور مغرب کی نظروں میں کھٹکنا شروع ہو گئے ہیں۔مغربی طاقتوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو کل کو وہ اپنا کوئی ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہیں گے۔ اگرچہ اس خطے میں موجود ان کے یہ مرکز آسانی سے ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کی جڑیں نہ صرف بہت گہری ہو چکی ہیں بلکہ کافی قدیم بھی ہیں؛ تاہم ایک پریشانی انہیں ضرور لاحق ہو چکی ہے اور سلیکشن کا عمل بھی۔ بات تو چلی تھی سلیکشن کی گردان سے‘ تو پنجابی کی ایک کہاوت کے مطابق جو سب سے زیادہ ''رولا‘‘ ڈال رہا ہوتا ہے‘ اندر خانے خود بھی وہی کچھ کر رہا ہوتا ہے۔ دو چار دن سیاست دانوں کے بیانات کو فالو کریں تو خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ سلیکٹڈ کون ہے اور سلیکشن کا خواہشمند کون۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام افراد جو اس وقت موجودہ پی ٹی آئی حکومت کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں‘ وہی ہیں جو خود کسی مشتبہ وصیت یا متنازع فیصلوں کی بنا پر اپنی پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ اپوزیشن پارٹی کی وہ اراکین‘ جو خود اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر ہی پہنچ پائی ہیں‘ اُس قائد ایوان کے مینڈیٹ پر سوال اٹھا رہی ہیں جو تین صوبوں سے قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں جیت کر اسمبلی میں پہنچا تھا۔