1989-88ء میں جب روس کو بکھیرنے اور دنیا میں اپنی واحد چودھراہٹ کی مضبوط کرسی پر بیٹھنے کے بعد امریکہ پاکستان کو اس کے حالات پر چھوڑ کر لاتعلق سا ہو کر دور جا بیٹھا تو بھارت نے وہ قہقہے لگائے کہ ان کی آوازیں دنیا کے ہر کونے میں گونجنے لگیں۔ نائن الیون ہوا تو بھارت کی جیسے قسمت کھل گئی اور اس نے افغانستان کو اپنا ٹھکانہ بنا کر پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا۔چند دن ہوئے قندھار کے قریب سے طالبان نے ان کے ایک ٹھکانے پر قبضہ کیا تو زمین سے اونچی چھتوں تک پانچ سوسے ایک ہزار پاکستانی روپے کے کرنسی نوٹوں کے ڈھیر دیکھ کر سب دنگ رہ گئے یہ وہ دولت تھی جو ٹی ٹی پی ‘ بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والے مختلف گروپوں اور دیگر پاکستان دشمن عناصر میں تقسیم کی جا تی تھی۔
آج امریکہ جب افغانستان سے بھاگ رہا ہے تو اشرف غنی سمیت بھارت اور یورپ میں ان کے حامی گروپ امریکہ کی منت سماجت کرنے لگے لیکن امریکہ نے افغانستان اور بھارت سے ایک زور دار جھٹکے سے اپنا دامن چھڑا کر انہیں دنیا بھر کے سامنے حیران پریشان ہی نہیں بلکہ روتا بلکتا چھوڑ کر اپنی راہ لی۔ آج قہقہے لگانے کی باری پاکستان کی ہے لیکن پاکستان بجائے قہقہے لگانے کے بھارت کو پیغام دے رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت جو دو ملک ہی نہیں بلکہ سب سے پہلے ایک دوسرے کے قریبی ہمسایے بھی ہیں ان کے درمیان امن اور بھائی چارہ دنیا کے امن سے وابستہ ہے کیونکہ دو ایٹمی قوتوں میں ہلکی سی کشیدگی بھی کسی لمحے خطرناک ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کے لیے تباہ کن صورت اختیار کر سکتی ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جو وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن لگتا ہے کہ اقوام عالم سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی ۔شاید وہ سمجھ رہے ہوں کہ ان کی آگ ہمارے صحنوں تک نہیں پہنچے گی مگر یہی ان کی وہ بھول ہے جس پران کو بعد میں پچھتانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
امریکہ سے ہمہ وقت بہتری کے امید وار اوراسے اپنا دوست سمجھنے والے دنیا کے سمجھ دار انسانوں میں شمار نہیں کئے جاتے۔ امریکہ کا دوست کوئی نہیں لیکن دشمن وہ ہر کسی کو سمجھتا ہے۔ ذیل میں پاکستان کے ساتھ کھیلے گئے بنگلہ دیش کی کہانی اور ڈرامے کے کچھ کرداروں کی تفصیلات امریکیوں ہی کی زبانی پیش کرنے کی کوشش کر وں گا تاکہ اندازہ ہو سکے کہ وہ ہماری مدد کے لیے ہمیشہ اسی وقت کیوں آتا ہے جب اسے اپنی ضرورت ہو ۔میں عام طور پر تدبیراتی معاملات میں قارئین کو زحمت نہیں دیتا تاہم پاکستان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ہماری'' پالیسی کا انحصار‘‘ در پیش متعدد گمبھیر مسائل پر ہمارے متوقع رد عمل پر ہو گا۔ اس کالم کا مقصد آپ سے رہنمائی حاصل کرنا ہے تاکہ ہم اپنی عمومی سمت کا تعین کر سکیں۔ 28اپریل1971ء کو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے صدر نکسن کو لکھے گئے اپنے خفیہ خط میں کہا تھا '' مشرقی پاکستان میں پاکستان کے فوجی ایکشن کو شروع ہوئے تین ہفتے ہو چکے ہیں‘ جن کی روشنی میں ہمیں درج ذیل صورت احوال سے لازماًنمٹنا ہو گا کیونکہ مغربی پاکستانی فوج غالباً غیر متوقع طور پر شہروں اور قصبوں کا انتظام دوبارہ سنبھالنے میں کامیاب ہو نے کے ساتھ ساتھ متصل ذرائع مواصلات پر بھی کسی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو جا ئے گی۔ مزاحمت نہ صرف بد نظمی کا شکا ر ہے بلکہ باغیوں کے پاس ضروری آلات وہتھیار کی بھی شدید کمی ہے۔ اگر فوج نظم و نسق سنبھالنے میں کامیاب ہو بھی گئی تو ضروریاتِ زندگی اور اشیائے خور و نوش کی فراہمی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ معاشی معاملات کی بحالی بھی بعید از قیاس ہے کیونکہ بنگالی عوام عدم تعاون پر عمل پیرا اور بد اعتمادی کا شکار ہیں۔ پاکستان کی فوج اگر وقتی طور بنگالیوں کی شورش دبانے میں کامیاب ہو بھی گئی تو ان کے دلوں سے نفرت نہیں نکلے گی۔ فوج اور عوام کے درمیان آنے والے وقتوں میں کسی قسم کے تعاون کے امکانات نہیں ہیں بلکہ منظم مزاحمت کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات انتہائی مخدوش ہو چکے ہیں‘1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد حالات کی سنگینی اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے ۔اس تجربے کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ صورت حال کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کے لیے کچھ مدت درکار ہو گی۔ اس دوران مغربی پاکستانی مؤثر نظم و نسق بحال کرنے کی کوشش کریں گے اور شاید وہ مشرقی پاکستان کے لیے خود مختاری کا اعلان بھی کر دیں تاکہ بنگالیوں کے دیرینہ مطالبات کو عملی جامہ پہنایا جا سکے‘ تاہم ان کی یہ کوشش بار آور ثابت نہیں ہو گی کیونکہ لسانی اور گروہی کدورتیں اور نفرتیں تمام حدِ فاصل عبور کر چکی ہیں‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ اپنی ریاستی پالیسیوں کے لیے متفکر مشرقی پاکستان کی خود مختاری سے آزادی تک کے جز وقتی وقفے کو لمحہ فکریہ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں'' یہ دورانیہ کتنا طویل‘ خون آشام اور قیامت خیز ہو گا اس کا انحصار مشرقی و مغربی پاکستان کی قیادت کے فہم و فراست پر ہے۔ مشرقی پاکستانی قیا دت یقینامغربی پاکستانی انتظامیہ سے عدم تعاون کے سیا سی فوائد کا جائزہ لے گی۔ سر دست انہیں متوقع قحط کا انتظار ہے تاکہ وہ مغربی پاکستانی انتظامیہ کی نا اہلی‘ بد انتظامی اور عدم توجہی کی بین الاقو امی تشہیر کر سکیں۔ مغربی پاکستانی قیا دت شدید معاشی بحران کے با عث عدم تحفظ کا شکار ہے ۔ملک کے دگرگوں سیا سی حالات اور معاشی بحران کے باعث پاکستان کسی وقت بھی معاشی طور پر کریش ہو سکتا ہے۔ مغربی پاکستانی قیا دت ہمیں واشگاف الفاط میں آگاہ کر چکی ہے کہ جب تک انہیں ہنگامی طور پر بیرونی زر مبادلہ فراہم نہیں کیا جاتا ان کے لیے بیرونی قرضوں کی واپسی نا ممکن ہے ۔کچھ بعید نہیں کہ پاکستان سیا سی اور معاشی طور پر اس حد تک مجبور ہو جائے کہ جنرل یحییٰ خان از خود مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھیں‘ لیکن یہ ہمارا مطمح نظر نہیں‘‘ ۔
ہنری کسنجر صدر نکسن کو لکھے گئے خط میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ بیرونی قوتیں سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہونے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں جس میں بھارت کی بہت اہمیت ہے کیونکہ یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ بھارتی فوج بنگالی با غیوں کو تربیت دے کر مشرقی پاکستان بھیج رہی ہے۔ بھارتی اسلحے سے لیس باغی مزاحمت کار طویل گوریلا جنگی حکمت عملی اپنا کر مغربی پاکستانی فوج کو ہزیمت سے دو چار کر سکتے ہیں۔ بھارت شورش زدہ مشرقی پاکستان میں ہر حربہ استعمال کر رہا ہے تاکہ وہ متوقع مہم جوئی کا جواز پیدا کر سکے ۔جنرل یحییٰ خان کی مشرقی پاکستانی قیا دت سے گفت و شنید کو نا کام بنانے کے لیے بھارت آزاد بنگالی ریاست کو تسلیم کر سکتا ہے تاہم اس ضمن میں اس وقت تک بھارتی بڑا محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔بیرونی قوتوں میں امریکہ اہم فیکٹر ہے ‘ ابھی مغربی پاکستان میں ہمارا اثر و رسوخ موجو دہے تاہم بھارت کیلئے بھی ہم اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکی معاشی مدد اور ورلڈ بینک جیسے امداد دینے والے اداروں میں امریکی نفوذ مغربی پاکستانی قیادت کے لیے نا قابل فراموش عوامل ہیں۔ مقابلے میں ماسکو اور بیجنگ دونوں پاکستان کو اس قسم کی حمایت اور مدد فراہم کرنے سے قا صر ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی پاکستان کو عسکری آلات اور ہتھیاروں کی فراہمی اس قدر قلیل ہے کہ کسی طور موجودہ خانہ جنگی پاک بھارت جنگ پر اثر انداز نہیں ہو گی ‘مگر ہمارے علا متی کردار کا مظہر ہو گی جس کے لیے ہمیں غور کرنا ہو گا ‘‘۔اس وقت عالمی صورت حال دیکھیں تو امریکہ کے لیے پاکستان کاکوئی بھی متبادل عالمی افق پر موجود نہیں ہے۔ پاکستان کی اہمیت امریکہ کیلئے اس خطے میں ایک نعمت سے کم نہیں۔