مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان سے سرکاری سطح پر کوئی آواز اٹھتی ہے یا دنیا کے کسی پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر وزیر اعظم عمران خان مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں بولتے ہوئے بھارتی ظلم و ستم کے ثبوت سامنے رکھتے ہیں تو ہونا تو یہ چاہئے کہ اس کا رد عمل بھارت کی طرف سے آئے لیکن حیران کن طور پرکشمیر پر ہمارا مقدمہ اور موقف کمزور کرنے کیلئے ملک کے اندر ہی سے دنیا بھر کو بتایا جانے لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے مودی سے کشمیر کا سودا کر لیا ہے۔دوست ممالک سوال کر رہے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دنیا کو ساتھ ملانے کی بجائے یہ ایک بالکل نیا ٹرینڈ دیکھنے میں کیوں آ رہا ہے؟
عمران خان صاحب کسی بھی بین الاقوامی فورم پر کھڑے بھارت کو ابھی للکار ہی رہے ہوتے ہیں کہ بیانات داغنے والے بیان داغنے لگتے ہیں کہ کشمیر تو مودی کو بیچ دیا گیا ہے۔بھئی ذرا غور کیجئے گا کہ پاکستان دنیا کو بھارتی بر بریت اور فسطائیت کے حوالے دے کر عالمی رہنمائوں سے اپیلیں کر رہاہے کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے عالمی امن کیلئے کسی بھی وقت نا قابلِ تلافی خطرہ بن جانے والے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر دبائو ڈالا جائے۔مگر ابھی وزیر اعظم اپیلیں کر رہے ہوتے ہیں کہ ہماری طرف سے ہی دنیا کو گمراہ کرنے کیلئے شور مچانا شروع کر دیا جاتا ہے کہ کشمیر کا تو سودا کر لیا گیا ہے‘ وہ تو کب کا مودی کو بیچ دیا گیا ہے۔ہماری رائے میں تو ایسا کہہ کر مودی کو شہ دی جاتی ہے ۔
اس کالم کا عنوان ''آکاش وانی‘‘آج کی نوجوان نسل کے لیے نیا لفظ ہو سکتا ہے۔نوجوانوں نے شاید آکاش وانی کا لفظ کم سناہو مگرجن لوگوں نے اس کے زہریلے سروں کو اپنے کانوں اور دماغ کی پرتوں پر برداشت کیا ہے وہ بھارت کی اس جھوٹ پھیلاؤ مہم کے جھوٹ اور بہتان تراشیوں کو سب سے بہتر جانتے اور محسوس کرسکتے ہیں ۔ مرحوم اشفاق احمد ‘مرحوم نظام دین اور سلطان کھوسٹ بھارتی ذرائع ابلاغ کے جھوٹ اور پراپیگنڈے کا توڑ کرتے ہوئے بولا کرتے تھے ''جھو ٹ بولنی ایں جھوٹئے آکاش وانئے...کدی سچ وی تے بول اڈ پڈ جانئے‘‘ اُس وقت یہ فقرہ زبان زد عام ہو گیا تھا۔ پھر اس پر ایک نغمہ بھی تیار کر کے ریڈیو پر سنایا گیا‘ یہی وجہ ہے کہ اب بھی آکاش وانی کی درگت بناتا ہوا یہ گیت ہماری عمر کے لوگوں کے ذہنوں سے اسی طرح چپکا ہوا ہے۔
جنگِ ستمبر کے دوران بھارت کے نشریاتی اداروں کے جھوٹوں کا جواب دینے والے ریڈیو پاکستان کے پروگرام آل انڈیا ریڈیوآکاش وانی کی خوب درگت بناتے۔ جنگ ستمبر تو کب کی گزر چکی‘اور اُس وقت بھارت کی ایک آکاش وانی تھی لیکن آج کی ہائبرڈ وار کی جنگ میں بھارت نے اپنی سٹریٹجی کچھ اس طرح ترتیب دے رکھی ہے کہ پاکستان کو پے در پے زبانوں اور ہاتھوں سے تختہ مشق بنا نے کے لیے بھارت نے اپنی نئی نئی آکاش وانیوں کو چارج کر رکھا ہے۔آج جب سوشل میڈیا پر ستمبر65ء کی طرح کے آکا ش وانی کے بیانات اور اشارے دیکھتے ہیں تو چشم تصور 52 سال پیچھے لے جاتی ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ اُس وقت تو جنگ کے دوران آل ریڈیو کے بھارتی انائونسر پاکستان کے خلاف جھوٹی کہانیاں پھیلایا کرتے تھے ‘ لیکن آج ایسا کرنے والے لوگ کون ہیں ؟ان کا آل انڈیا ریڈیو یا آکاش وانی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے کہ اسی کی طرح ہر وقت حیلے بہانوں سے اور اشاروں کنایوں میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ آج کی آکاش وانی نریندر مودی اور بپن راوت کی ہم زبان ہو کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف پاکستان کی فوج کے خلاف کن مقاصد کیلئے نفرت پھیلا رہی ہے ؟وہ نریندر مودی کی ہم زبان ہو کر پاکستان میں بے اعتمادی اور فاصلے کیوں پیدا کر رہی ہے ؟ سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے آکاش وانی کے ہم زبان اور ہم خیال لوگوں کا سلسلہ نسب کیا ہے جن کے ہاتھوں اور زبان سے پاکستان کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ آکاش وانی پاکستان کی فوج کے خلاف زہر اگلتی ہے؟ہماری نئی نسل کے لوگ جاننا چاہیں گے کہ انہیں پاکستان کے خلاف بھارت کے بد ترین پروپیگنڈا چینل آکاش وانی کے پس منظر سے آگاہ کیا جائے۔
''جھوٹ بولنی ایں جھوٹئے آکاشوانئے‘‘ جنگ ستمبر کے دوران ریڈیو پاکستان سے دن میں کئی بار نشر ہونے والے اس فقرے کے پس منظر کے بارے صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جو جنگ ستمبر1965ء کے وقت کچھ شعور رکھتے تھے یا جن کا تعلق ریڈیو پاکستان اور صحافت کی دنیا سے رہا ہو۔جیسے ہی جنگ شروع ہوئی تو بھارت کے ریڈیو سٹیشن تو ایک طرف اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور انتہائی معتمد سمجھی جانے والی بی بی سی کی اردو سروس نے بھی لاہور پر بھارتی فوج کے قبضے کی خبریں دینا شروع کر دیں۔اس وقت دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کی یہ خبر سنتے ہی جو حالت ہوئی اس کے بارے میں وہی جان سکتے ہیں ۔ اس اذیت سے گزرنے والے پاکستانی شہری آج بھی جب اس دن اور کیفیت کا ذکر کرتے ہیں تو ایک لمحے کیلئے کانپ کر رہ جا تے ہیں۔ بھارتی پراپیگنڈا آج بھی اسی طرح جاری ہے بلکہ اب اس میں پہلے سے کہیں زیادہ شدت آ گئی ہے۔ اجیت ڈوول نے ایسے ہی تو ممبئی میں ایک پالیسی کانفرنس میں نہیں کہہ دیا کہ کشمیر پر اب ہمیں زیا دہ فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے اچھا بندو بست کر رکھا ہے ۔ وہ محاذ جو کل تک بھارت کے میڈیا ہائوسز نے آکاش وانی کی شکل میں سنبھال رکھا تھا اب اسے کچھ لوگ یہ کہہ کر تقویت دے ر ہے ہیں کہ کشمیر کا تو اب کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا کیونکہ اس کا تو سودا ہو گیا ہے ۔ یہ جھوٹی خبر کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے اندر سے بھارت کی نئی آکاش وانیاں چلا رہی ہیں۔ وہ لوگ جنہیں آکاش وانی کی تعریف اور حقیقت کا علم نہیں ان کو ایک بار پھر بتائے دیتے ہیں کہ چھ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ شروع ہوتے ہی ہر آدھے گھنٹے بعد بھارت کے براڈ کاسٹر کہا کرتے تھے کہ '' اب آپ آکاش وانی سے خبریں سنئے ‘‘اور پھر اس آکاش وانی سے وہ جھوٹ اور پراپیگنڈا کیا جاتا کہ لگتا بھارت کی فوجیں شام تک آدھا پاکستان فتح کرلیں گی ۔آکاش وانی ہر چند گھنٹوں بعد ہمارے طیارے ‘ ٹینک اورتوپوں کی تباہی اور سینکڑوں فوجیوں کی شہادت کی جھوٹی خبریں آن ایئر کئے رکھتی ۔ آکاش وانی وقفہ وقفہ سے شور مچاتی رہی کہ '' کراچی خالی ہو گیا ہے اور جو لوگ وہاں رہ گئے ہیں وہ بھارتی بحریہ کے جہازوں کے کراچی پہنچنے کے انتظار میں ہیں تاکہ ان کا استقبال کیا جا سکے‘‘۔کبھی اسلحہ اور گولہ بارود ختم ہونے کی جھوٹی کہانیاں چلائی جاتیں تو کبھی پوری کمپنی یا رجمنٹ کو بھارتی ہو ابازوں کے ہاتھوں اڑا دیے جانے کی بے بنیاد خبریں سنا دیتے ۔
بھارت کے پراپیگنڈا چینل آکاش وانی کے گھڑے گئے جھوٹ ایسا زہریلا ہتھیار تھا جس نے ایک دودنوں تک پاکستانیوں کے اعصاب شل کئے رکھے۔ آکاش وانی کا کام پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں بلکہ اپنے منہ میں ڈالی گئی ہر بات یا لکھ کر سامنے رکھی تحریر کو بغیر کسی شرم وحیا کے بولے چلے جانا تھا۔بھارت جھوٹے پراپیگنڈا کی اس روش پر آج بھی سر پٹ بھاگ رہا ہے۔ حال ہی میں یہ خبر آئی تھی کہ بھارت نے اسرائیل کے تیار کردہ جاسوس سافٹ ویئر کی مدد سے متعدد شخصیات کے موبائل فون ہیک کیے ۔ ان میں کئی پاکستانی شخصیات کے فونز بھی شامل تھے جبکہ پراپیگنڈا کے مقاصد کے لیے بھارت سینکڑوں ویب سائٹس کے نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ای یو ڈس انفو لیب نے اس کا بھانڈا پھوڑا تھا ۔