برہمن آج بھی جہاں جہاں موجود ہیں‘ ان کی فطرت اور سرشت میں نسل انسانی کیلئے نفرت اور دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جس طرح امریکا میں سیاہ فاموں کے ساتھ گھٹیا اور انسانیت سوز سلوک کیا گیا‘ انہیں اچھوت سمجھا گیا‘ مدتوں بعد اگر ان کیلئے تعلیم کے دروازے کھولے بھی گئے تو اس شرط پر کہ سیاہ فاموں کی نشستیں گوروں کے ساتھ اور برابر نہیں رکھی جائیں گی‘ اسی طرح ہندوستان میں برہمن نے دیگر افراد کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا۔ امریکا میں اوباما کی صورت میں ایک سیاہ فام صدر بھی رہ چکا ہے لیکن اس میں بھی ایک وجہ یہ بنی کہ اوباما سیاہ نہیں بلکہ برائون فام تھے۔ البتہ اوباما کے صدر منتخب ہونے سے سماجی سطح پر زیادہ فرق نہیں پڑا اور امریکا میں اب بھی آئے روز ایشیائی نژاد اور سیاہ فاموں سے نفرت کے واقعات تواتر سے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔
ہندوستان میں بنی نوع انسان کی رنگ و نسل کی مناسبت سے وارد ہونے والی تذلیل اس اعتبار سے زیادہ گہری ہے کہ اسے دھرم کا حصہ بنا کر پیش کیا گیا۔ بھارت بھر میں آباد کروڑوں دلت صدیوں سے یہاں آباد چلے آ رہے ہیں اور انہیں دلت بنانے والے یہی برہمن تھے جنہوں نے سماج کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا تھا۔ قدیم ہندوستانی سماج میں انسان کی عزت اس کے کردار سے نہیں بلکہ اس کی ذات کے حوالے سے کی جاتی تھی۔ اس سماجی رویے‘ جس نے اس وقت بھی بھارت بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب آج سے لگ بھگ پانچ ہزار برس پہلے آریان بحیرہ کیسپین سے ہوتے ہوئے جنوبی سینٹرل ایشیا آئے اور پھر وہاں سے نقل مکانی کرتے ہوئے ایران اور موجودہ پاکستان کے درہ بولان کے راستے سے بغیر کسی روک ٹوک کے ہندوستان میں داخل ہو گئے۔ اس وقت وادیٔ سندھ کی تہذیب کا آغاز ہو چکا تھا۔ ان آریائی افراد کا ایک گروپ یہاں آباد ہو گیا جبکہ ان کا دوسرا گروپ مغرب کا رخ کرتے ہوئے وسطی یورپ میں جا کر مقیم ہوا۔ (ان کے متعلق ایک علیحدہ مضمون میں تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی)۔ وہ آریائی نسل کے لوگ‘ جو ہندوستان آئے تھے‘ انہوں نے حملہ کرتے ہوئے ہندوستان کے شمالی علاقہ جات پر معمولی سی جھڑپوں کے بعد یہاں بسنے والوں پر قابو پانے کے بعد ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ قابض لوگ بعد میں تاریخ کی کتابوں میں آریہ کہلائے۔ اگر یورپی مؤرخین کی کتابیں دیکھی جائیں تو ان کے مطا بق آریائوں کی دو قسمیں تھیں‘ ایک وہ جو ہندوستان پر قابض ہوئے‘ اور دوسرے وہ جو وسطی یورپ پر قابض ہوئے تھے۔
وہ آریان جو ہندوستان کے مقدر میں آئے‘ انہوں نے یہاں آتے ہی ذات پات اور چھوت چھات کا سسٹم رائج کر دیا۔ اگر تاریخ کے اوراق دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے لوگوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے‘ نہ صرف ان کی جائیدادوں پر قابض ہو گئے بلکہ ان سب کو شہر بدر بھی کر دیا جس کی وجہ سے پہلے یہ ''خانہ بدوش‘‘ یعنی تپڑی وانس کہلائے اور بعد میں مکمل طور پر انتہائی گھٹیا اور تیسرے درجے سے بھی بدتر حیثیت دیتے ہوئے اچھوت بنا دیے گئے۔ ان کیلئے آریان نے حکم جاری کیا تھا کہ یہ لوگ پختہ مکانات نہیں بنا سکتے‘ انہیں صبح کے وقت تو شہروں میں داخلے کی اجازت ہو گی مگر شام ہوتے ہی یہ لوگ شہروں سے دور بنائی گئی اپنی جھونپڑیوں میں چلے جایا کریں گے۔ صبح کے وقت جب یہ کام کیلئے شہر میں داخل ہوتے تو ان سے انتہائی پست قسم کی خدمات لی جاتیں۔ انتہائی معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلکہ بسا اوقات کسی عام سی غلطی پر بھی ان کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آریائوں نے وادیٔ سندھ سے نقل مکانی کر کے ہندوستان کے وسطی ا ور جنوبی علا قوں کی جانب بڑھنا شروع کر دیا لیکن جہاں بھی یہ لوگ جاتے‘ وہاں سب سے پہلے چار ذاتوں والا سسٹم رائج کرتے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک کروڑوں انسان ان کے اس ظلم و ستم کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ افسوس کہ تین سو برس سے زائد تک ہندوستان پر حکومت کرنے والے مغل بادشاہ‘ جو کہلاتے تو مسلمان تھے لیکن وہ دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو ہی فراموش کیے رہے‘ اگر تھوڑی سی توجہ ان اچھوت افراد پر دیتے اور چھوٹی ذات پات والوں کو حقارت سے دیکھنے کے نظام کا خاتمہ کر دیتے تو ان کے اس عمل سے سارا ہندوستان اسلام کا گرویدہ ہو جاتا۔ خود کو جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کے چیمپئن کہلوانے والے انگریز جب مغلوں کی نالائقی کی وجہ سے ہندوستان پر قابض ہوئے تو انہوں نے بھی اچھوتوں کیلئے کسی قسم کی مراعات یاانسانیت کی تذلیل کرنے والے عوامل کا خاتمہ کرنے کی جانب توجہ نہیں دی بلکہ ان کے راج میں بھی جگہ جگہ ان کا قتل عام ہوتا رہا۔
آریائوں کے پنڈتوں کے بارے میں اگر جاننے کی کوشش کریں تو حیرانی ہوتی ہے کہ دھرم کی آڑ میں انہوں نے کیسے ذات پات کے نظام کو تقویت بخشی۔ یہ لوگ کسی سے گلے ملنے یا ہاتھ ملانے کے قائل نہیں تھے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر‘ دور سے ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔اسی طرح ان کے کھانے کے برتن، پانی پینے کے گلاس تک دوسروں سے علیحدہ اور ممتاز ہوتے تھے۔ یہ وہی پنڈت ہیں جنہوں نے اکبر کا منڈپ رچایا‘ منتر پڑھے بلکہ سب کو پڑھوائے۔ شہنشاہ اکبر کے پھیرے دلوائے گئے اور جودھا بائی کو ملکہ عالیہ بنا کر شاہی محلات میں بھجوایا گیا۔ شہنشاہ اکبر نے جودھا بائی کیلئے شاہی محل میں ایک خوبصورت مندر بھی تعمیر کروایا تھا جہاں جودھا بائی روزانہ پراتھنا کیلئے جایا کرتی تھی۔ بات یہیں تک نہیں تھی بلکہ جودھا کے بھائی مان سنگھ کو اکبر نے اپنی افواج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا تھا، اس طرح مغل بادشاہوں اور ہندو راجپوتوں کے درمیان ایک کوآپریٹو سوسائٹی یا کولیشن گورنمنٹ بن گئی تھی‘ جس میں فیصلہ کیا گیا تھا: ہندوستان کا بادشاہ ہمیشہ وہ ہو گا جو بادشاہ کی بیوی کی حیثیت رکھنے والی ہندو عورت کے بطن سے ہو گا۔ اکبر کی فوج کا سربراہ ہمیشہ ہندو ہو گا اور اس شرط پر عمل کرنے کی صورت میں ہندوستان کے راجپوت مغلوں کے خلاف نہیں اٹھیں گے۔ نیز مغل بادشاہ اہم وزارتوں پر برہمن ہندوئوں کو فائز کریں گے۔ ان شرائط کے بعد اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کہاں کی مسلم حکومت اور کہاں کی حکمرانی۔
دیکھا جائے تو یہ سچائی جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ آریائوں نے چھوٹی ذات والوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے‘ مغل دورِ حکومت میں یہ سلسلہ دراز مزید ہو گیا۔ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ آج بھی بھارت کے طول و عرض میں جاری و ساری ہے۔ برہمن کی طاقت اور ذات پات کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کے جنوب سے تعلق رکھنے والے شیوا جی کو آج بھی ہندوستان کا سب سے بڑا ہیرو مانا جاتا ہے۔ اس نے جب آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے اپنی مراٹھا ریاست قائم کر لی تو اس کی بادشاہت کے باقاعدہ اعلان کیلئے برہمن مہاراج کے ہاتھوں اس کی تاج پوشی لازم تھی۔ 16 جون 1674ء کوشیوا جی کی تاج پوشی ہوئی لیکن یہ تاج پوشی اتنی آسانی سے نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس وقت کے برہمن مہاراج جی نے یہ کہہ کر تاج پوشی سے انکار کر دیا کہ شیوا جی اونچی ذات کا ہندو نہیں ہے۔(بعض محققین کے مطابق شیواجی کی ذات کھتری یا شودر تھی) اب بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ مجبوراً مہاراج کاشی کے پنڈت گاگا بھٹ کو تاج پوشی کے لیے ایک خطیر رقم دے کر بلوایا گیا۔ جس نے اس سارے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ برہمن مہاراج اس تاج کو پہلے اپنے سر پر رکھیں گے اور پھر اتار کر یہ کہتے ہوئے شیواجی کے سر پررکھ دیں گے کہ یہ سلطنت اور تاج ہمارا ہے‘ جسے ہم تمہارے سر پر اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری تمہارے سپرد ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور حکم جاری کیا گیا کہ برہمن جی کی کھڑاویں (جوتیاں) اُس تخت کا حصہ بنیں گے جس پر شیوا جی بیٹھے گا۔
(اس مضمون کے لیے ممتاز محقق ڈاکٹر فرخ محمود کی‘یادوں، تبصروں اور تجزیوں پر مبنی کتاب ''جھروکے‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے)