"MABC" (space) message & send to 7575

دیوار اور راستہ… (1)

جس راستے سے امریکا نے گزرنے کی خواہش ہی نہیں‘ کئی مرتبہ کوششیں بھی کی ہیں‘ اس کا دروازہ پاکستان میں ہے، اس دروازے کا راستہ پاکستان کے سوا اور کہیں سے نہیں ۔ امریکی صدر روزویلٹ سے جو بائیڈن تک‘ امریکا کی عمومی عالمی پالیسیوں میں ایک بات نمایاں رہی ہے کہ انتظامیہ پر لاکھ دبائو ہونے کے با وجود امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی اہمیت مسلمہ رہی ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات اور پالیسیوں میں وقفے وقفے کی تلخیوں کے بعد ہمیشہ گرم جوشی پائی گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کبھی بھی دیرپا نہیں رہے، سرد مہری ہو یا گرم جوشی‘ یہ تعلقات ہمیشہ عارضی رہے۔ کبھی کبھی تو ایسے بھی مقام آئے کہ امریکی دوستی پر پچھتاوا اور افسوس کیا جاتا رہا مگر سقوطِ ڈھاکا کے بعد وہ مقام بھی آیا جب اندرا گاندھی کے مغربی پاکستان کی جانب بڑھنے کے ارادے کے خلاف صدر نکسن ایک دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات پر جنگل کا وہ منظر یاد آ جاتا ہے کہ جب چیتا ہرن کے کمزور سے بچے کو پکڑتا ہے تو وہ اس کی گردن میں اپنے دانت نہیں گاڑتا بلکہ وقفے وقفے سے ہلکے ہلکے چپت مار کر اس کے ساتھ کھیلتا ہے۔
پاکستان کے ساتھ بد قسمتی یہ رہی کہ اسے ہمیشہ کمزور، بزدل اور دوسروں کا گھر لوٹ کر اپنا گھر بھرنے والے حکمران ملے ہیں۔ جب امریکا اور یورپ کو آپ کے کرپشن سے کما کر چھپائے گئے ایک ایک پیسے کا علم ہو تو پھر آپ ان کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت اور ہمت کیسے کر سکتے ہیں؟ ایک امریکی سینیٹر نے ایک دفعہ ایڈمرل مائیکل مولن سے پوچھا ''امریکا پاکستان میں ڈرون حملے کیوں نہیں روکتا؟‘‘ امریکی چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مولن نے جواب دیا ''پتا نہیں پاکستانی ان حملوں کی مذمت اور ان پر احتجاج کیوں کرتے ہیں حالانکہ ہم تو یہ سب ان کی حکومت کی مرضی اور اجا زت سے کر رہے ہیں‘‘۔ موجودہ حکومت کے بارے میں ہروقت سیلیکٹڈ کی رٹ لگانے والے بلاول بھٹو زرداری کے گزشتہ دنوں کیے جانے والے دورۂ امریکا کو پیپلز پارٹی کے رہنما اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں کہ ہر سننے اور دیکھنے والے کو یہ یقین ہو جائے کہ امریکا نے ان کے نام کی منظوری دے دی ہے۔ گویا پیپلز پارٹی والے یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستان کا اقتدار عوام کے پاس نہیں بلکہ امریکا کے پاس ہے۔
جب روئے زمین پر پاکستان جیسا پسماندہ ملک ایٹمی طاقت کے حصول کے لیے آگے بڑھنے لگا تو ہرطرف ہلچل مچ گئی۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کو ایٹم بم کی تیاری میں جس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ ان کا مقابلہ صرف خدائے ذوالجلال کی خصوصی رحمت اور عنایت کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ورنہ سب ہمیں لے دے گئے تھے۔ اس کی ایک اچھی خاصی سزا سیاچن کی صورت میں ہمیں عین اس وقت دی گئی جب ہم یورپ اور امریکا کے لیے فرنٹ لائن کا سپاہی بن کر روسی عفریت کے خلاف افغانستان میں اپنا سب کچھ دائو پر لگا چکے تھے۔ اس وقت کی دیگر ایٹمی قوتوں‘ جن میں امریکا، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور بھارت اعلانیہ جبکہ شمالی کوریا اور اسرائیل جیسے غیر اعلانیہ ممالک شامل تھے‘ کی نسبت پاکستان پسماندہ ملک تھا جس کی 30 فیصد آبادی اقوام متحدہ کے مقرر کر دہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ پاکستان میں غیر ترقی یافتہ معیشت سے پیدا ہونے والی تمام خرابیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ زراعت پر انحصار کے باوجود خوراک میں خود کفالت کا کبھی تسلسل نہیں رہا تھا۔ قدرتی وسائل کا ضیاع، ناقص منصوبہ بندی، انفراسٹرکچر کی غیر موجودگی اور ایٹمی ترقی میں معاون سہولتوں کے فقدان کے باوجود پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔ پاکستان تیل کی دولت سے مالا مال نہیں تھا‘ بھارت کی مانند مضبوط صنعتی اساس دستیاب نہیں تھی اور نہ ہی دنیا کے لیے بڑی کنزیومر مارکیٹ کی حیثیت میں کوئی کشش رکھتا تھا۔ پاکستان کے پاس اسرائیل جیسے تربیت یافتہ سائنسدانوں اور تکنیکی افرادی قوت کی بھی کمی تھی اور سب سے بڑھ کر پاکستان شمالی کوریا جیسی رازداری سے بھی محروم تھا۔
1960ء میں پاکستان کے امریکی بلاک سے وابستہ ہونے کی وجہ بھارت اور سوویت یونین کے درمیان مضبوط معاشی اور دفاعی تعلقات کی ابتدا تھی جس کی عدیم المثال ترویج نے پاکستانی قیادت کو بھی بھارتی عزائم کے تناظر میں روس مخالفت میں امریکی بلاک کی طرف مائل کر دیا۔ اس کی ایک وجہ تشکیلِ پاکستان سے پہلے ہی امریکا کی اس خطے کی جغرافیائی اور علاقائی قدر و قیمت سے آگہی اور دلچسپی بھی تھی۔ پاکستان کو چونکہ سوویت یونین سے بھی خطرات لاحق تھے‘ اس لیے فطری طور پر امریکی طرفداری کا مثبت جواب دیا گیا۔ برطانوی راج نے تقسیمِ ہند کے دوران جو کانٹا ریاستِ جموں و کشمیر کی صورت میں دونوں ممالک میں پیوست کیا تھا، اس کی وجہ سے 1948ء ، 1965ء، 1971ء اور پھر 1999ء میں کارگل کے محاذ پر دونوں ملکوں میں خون ریز جنگیں ہو چکی ہیں اور لائن آف کنٹرول پر آئے روز کی جھڑپیں تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتیں۔
1962ء میں بھارت کو لداخ میں چین کے ہاتھوں بھرپور ہزیمت اٹھانا پڑی تھی، اس کے بعدیورپ کی بھرپور اشیرباد سے بھارت کے ایک دہائی پہلے سے چل رہے ایٹمی پروگرام میں تیزی لائی گئی۔اس کے مقابلے میں پاکستان ایٹم بم بنانے کی دوڑ میں تب شامل ہوا جب بھارت نے سوویت یونین کی بھرپور سفارتی دفاعی اور معاشی مدد کی بدولت مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر پاکستان کو دولخت کر دیا۔ اس جنگ میں امریکیوں کے منافقانہ طرزِ عمل اور دھوکا دہی کی سفاکانہ مثالیں بھی سامنے آئیں کہ جب ساتویں بحری بیڑے کے انتظار میں پاکستان دست بریدہ ہو گیا۔ باقی ماندہ پاکستان کی دفاعی قابلیت کا بھارتی وسائل سے موازنہ نہ صرف حوصلہ شکن تھا بلکہ ایٹمی قوت کے حصول کا متقاضی بھی تھا کیونکہ بھارت کی بری فوج ہی پاکستان کی کل فوج سے اڑھائی گنا زیا دہ تھی۔ پاک بھارت فضائیہ اور بحریہ کا تقابلی جائزہ تو کارِ عبث تھا۔ اس کی واحد وجہ امریکی بے حسی‘ موقع پرستی اور امریکی اصول ''استعمال کرو اور پھینک دو‘‘ تھی۔ اس وقت تک پاکستان کے زیر استعمال فوجی اسلحہ بھی زیادہ تر امریکا اور مغربی ملکوں سے درآمد کیا جاتا تھا‘ جس پر 65ء کی جنگ کے وقت پابندی لگا دی گئی تھی اور اس کے بعد ہی پاکستان نے اسلحے اور دفاعی و حربی سامان میں خود کفالت کی منزل کے حصول بارے سوچنا شروع کیا تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب ایٹمی پروگرام کا قصد کیا گیا تو پاکستان طرح طرح کی عالمی و معاشی پابندیوں کی زد میں آ گیا۔ اسی دوران سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرنے کی حماقت کر ڈالی۔ جب روسی افواج اپنے انجام سے بے خبر افغانستان میں داخل ہو رہی تھیں‘ امریکا کو پاکستان کے ساتھ مصافحہ نہیں بلکہ معانقہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی، یعنی اس سے قبل ہنری کسنجر کی دی گئی دھمکی بخارات کی طرح ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ 1983ء میں پینٹاگون نے جو دستاویزات مرتب کیں‘ ان کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کہوٹہ کے مقام پر سینٹری فیوجز سہولت فراہم ہو چکی ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اسے جوہری ہتھیار بنانے کیلئے استعمال کرے گا۔ امریکی ماہرین نے ''چینی پاکستانی بم‘‘ کے ڈیزائن کا تجزیہ مکمل کر لیا تھا اور انہیں یقین تھا کا یہ ''ڈیزائن‘‘ قابلِ عمل اور قابلِ استعمال ہے حتیٰ کہ اس بم کی نقل امریکا میں بنائی بھی گئی لیکن اب افغانستان میں ''بدی کی سلطنت‘‘ یعنی سوویت یونین کو روکنا زیادہ ضروری ہو گیا تھا سو وائٹ ہائوس نے حسبِ سابق پچھلی تمام باتوں کو فراموش کر دیا اور سوویت یونین کے بڑھتے قدموں کو روکنے کا کام ''اسلامی بم‘‘ پر فوقیت حاصل کر گیا؛ چنانچہ ایک طرف امریکی کانگریس اور عوام کو جھوٹ سے بہلایا جاتا رہا اور دوسری طرف پاکستان کو مسلسل امداد مہیا کی جاتی رہی حتیٰ کہ جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک پر اس نوع کا سفارتی دبائو بھی محض دکھاوے کیلئے ڈالا جاتا رہا کہ وہ ممالک پاکستان کو اعلیٰ ٹیکنالوجی کے آلات فروخت نہ کریں۔ ایٹمی پروگرام آگے بڑھانے کے باوجود جنرل ضیا الحق کو وائٹ ہائوس میں بلا کر توپوں کی سلامی دیتے ہوئے انہیں کمیونزم کے خلاف جنگ لڑنے والا سپاہی اور امریکی جمہوریت کے تحفظ کیلئے ایک قلعہ بردار کا خطاب دیا گیا۔ جنرل ضیا جب واپس وطن آئے تو 302 بلین ڈالر کا امدادی پیکیج ان کی جیب میں تھا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں