"MABC" (space) message & send to 7575

دیوار اور راستہ …(2)

پاکستان کیلئے بڑی امداد کا پیکیج کانگریس میں پیش کرنے کے علاوہ امریکی خفیہ ادارے کے ایک اعلیٰ عہدیدار ولیم جے کیسی کے ذریعے بلین ڈالرز کی رقوم جنگی اخراجات کیلئے خرچ کی جانے لگیں۔ ولیم جے کیسی ایک منتقم مزاج شخص تھا۔ روس کی پشت پناہی سے ویتنام نے امریکا کو شرمناک ہزیمت سے دوچار کیا تھا‘ اس لیے ولیم کیسی افغانستان میں مجاہدین کی سرپرستی کر کے ویتنام سے پسپائی کا بدلہ چکانا چاہتا تھا۔ ولیم کیسی روس کو صرف افغانستان سے بیدخل ہی نہیں کرناچاہتا تھا بلکہ وہ سوویت یونین کے اندر گوریلا کارروائیوں کے ذریعے اس پر کاری ضرب لگانا چاہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان حملوں کی شدت ایسی ہونی چاہیے کہ سوویت یونین بلبلا اٹھے۔ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ امریکا براہِ راست مسئلۂ افغانستان میں ملوث نہ ہو؛ البتہ امریکا نے اپنے ٹیکس گزاروں کے کئی بلین ڈالر خرچ کر کے افغان مجاہدین کی معاونت کی اور اس سرمایے سے آ تشیں اسلحہ‘ جنگی ساز و سامان اور گولہ بارود خریدا گیا۔
دوسری طرف امریکی سینیٹ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بابت بے حد اضطراب کا شکار تھی؛ چنانچہ 1984ء کے اوائل میں سینیٹر جان گلین اور ایلن کرینسٹن نے غیر ملکی امداد کے قانون میں ترمیم کی حمایت شروع کر دی۔ سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین چارلس پرسی نے جب بینظیر بھٹو سے دریافت کیا کہ کیا وہ پاکستان کے لیے امریکی امداد کی بندش کی حمایت کرتی ہیں تو انہوں نے سفارتی نوعیت کا محتاط سا جواب دیا ''میرے ملک کی بہتر خدمت یہ ہو گی کہ امریکی امداد جمہوریت اور انسانی حقوق کی بحالی سے مشروط کر دی جائے‘‘۔
امریکی رخنہ اندازیوں کے با وجود صدر ضیاء الحق نے مشاہد حسین کے ذریعے بھارتی صحافی کلدیپ نائر کو انٹرویو دیتے ہوئے برملا ایٹمی قوت ہونے کا اعتراف کر لیا کیونکہ بھارتی قیادت نے براس ٹیک مشقوں کی آڑ میں چار لاکھ سے زائد فوج مشرقی سرحدوں پر جمع کر لی تھی، اس کی فضائیہ اور بحریہ بھی پاکستان سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے پر تول رہی تھیں اور اس مہم جوئی کے پیچھے سوویت یونین تھا کیونکہ افغان گوریلا وار روس کے اندرونی علا قوں‘ ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان تک پھیل چکی تھی۔ اس قسم کے حملوں سے ''تیسری عالمی جنگ‘‘ چھڑ جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ ایسی صورت میں بھارت محض پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے صدر ضیا کے انکشاف کے پیشِ نظر ہی پسپائی پر مجبور ہوا۔ اسی دوران ولیم جے کیسی ایک اندرونی سازش کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مئی 1987ء میں اس کی پُراسرار ہلاکت پر آج تک ایک دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام‘ امریکی نقطہ نظر میں‘ خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ نے امریکا کے خفیہ اداروں کی ایک انتہائی سیکرٹ دستاویز سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان نے ایک ایسے دھماکا خیز ہتھیار کا تجربہ کیا ہے جو بڑی طاقتوں کے جوہری ہتھیاروں کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے اگلے برس ہی صدر ضیاء الحق‘ اعلیٰ فوجی حکام، امریکی سفیر اور ملٹری اتاشی کے ہمراہ ایک پُراسرار فضائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔
پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی رابرٹ اوکلے کو سفیر مقرر کر دیا گیا جن کی معاونت کی ذمہ داری برنٹ سنو کرونٹ کو تفویض کی گئی۔ چند ماہ میں سوویت افواج کا کمانڈر جنرل بورِس گروموف اپنی شکست خوردہ فوج کے ساتھ پسپا ہو گیا۔ افغانستان کی جنگ نے سوویت یونین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ دس سالہ جنگ نے روسی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ لیا جس سے اندرونی بحران شدت اختیار کر گیا، ہزاروں جانیں تلف ہوئیں، معیشت کی بنیادیں ہل گئیں اور روسی معاشرہ حوصلہ ہار بیٹھا۔ سوویت یونین کے مکافاتِ عمل کا شکار ہو کر شکست وریخت کی نذر ہوتے ہی امریکا نے فوراً مصلحت کا لبادہ اتار پھینکا۔ اب اس کی نظروں میں پاکستان کی افادیت وہ پہلے سی نہیں رہی تھی۔ اب وزیراعظم بینظیر بھٹو کے دیرینہ خیر خواہ پیٹر گالبرائتھ اور مارک سیگل جیسے امریکی لکھاری پاکستان پہنچ کر وزیراعظم‘ صدرِ مملکت، ملکی اداروں اور ایٹمی سائنسدانوں کے درمیان غلط فہمیوں کے بیج بونے لگے تاکہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے عمل کو سبوتاژ کیا جا سکے حالانکہ پاکستان کا ازلی دشمن‘ بھارت مئی 1974ء میں ''مسکراتا بدھا‘‘ کے نام سے ''پُرامن‘‘ ایٹم بم بنا چکا تھا۔
پاکستان ایک دہائی تک افغانستان کی جنگ میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی رہا لیکن اس کے با وجود امریکی سفیر رابرٹ اوکلے پر واضح کر دیا گیا کہ ''امریکی قانون کے مطابق اگر پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں تو اس کی امداد بند کر دی جائے گی‘‘۔ مضحکہ خیز بات یہ کہ سینیٹر لیری پریسلر نے 1984ء میں بیرونی امداد ایکٹ میں جو ترمیم کروائی تھی‘ اس کا مسودہ پیٹر گالبرائتھ نے ہی تیار کیا تھا۔ جب تک افغان‘ سوویت جنگ جاری رہی‘ صدر ریگن اور صدر بش سینئر اس شق کو کسی نہ کسی طرح ٹالتے رہے لیکن اب افغانستان کی جنگ ختم ہو چکی تھی اور امریکی منصوبوں میں پاکستان کی اہمیت نہ ہونے کے مترادف تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا نے پاکستان کے ازلی دشمن اور روس کے دیرینہ خیر خواہ بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کر دی تھیں‘ اب بھارتی خواہش پر پاکستان پر دبائو ڈالا جانے لگا۔ مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان یا تو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے یا پھر حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہے۔ اب پاکستان امریکی نظر میں ایک بوجھ بن گیا تھا۔ بھارت کو اس حقیقت کا بخوبی علم تھا کہ اب دنیا میں صرف ایک سپر پاور ہے اور اس کا پچھلا سرپرست روس اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ بھارتی فوج اور معیشت کو سہارا دینے کیلئے اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے امریکا اور بھارت کی مشترکہ فوجی مشقیں شروع ہو گئیں۔ بھارت نے امریکا سے ہتھیاروں کی خریداری کی طویل فہرست تیار کی، امریکی اسلحہ ساز عرصۂ دراز سے جس کے متمنی تھے۔ اگلی پوری دہائی میں پاکستان کو دانستہ نظر انداز رکھا گیا۔ اگرچہ بھارت اور اسرائیل‘ دونوں ممالک کے پاس ایٹم بم موجود تھے لیکن وہ کسی سزا کے مستحق نہیں تھے۔ بھارت نے مئی1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے تو ساری دنیا کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہو گئیں اور پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے دھمکیاں اور ترغیبات دی گئیں مگر ہونی ہو کر رہی۔ لیری پریسلر اور جان گلین مکتب ِ فکر کے کروڑوں امریکی اس خیال کے حامی تھے کہ اب پاکستان کو ایک ''خوفناک مثال‘‘ بنا دیا جائے جو دیگر اقوام کیلئے با عث ِ عبرت ہو۔ پاکستان پر کڑی معاشی پابندیاں لگا دی گئیں اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے پاکستان کا شکنجہ کسا جانے لگا لیکن برا ہو نائن الیون کا جس نے امریکا کو پھر وہیں لا کھڑا کیا جہاں سے روس کی ذلت آمیز پسپائی ہوئی تھی۔ اب ایک بار پھر دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کی سعی میں امریکیوں کو 1980ء کی دہائی کی طرز پر پاکستان سے مصافحے اور معانقے کی ضرورت تھی۔ امریکا کا یہ چہرہ بار بار دیکھنے کے باوجود ہمیں یہ یقین کیوں نہیں ہو جاتا کہ ہمیں ہمیشہ ضرورت کے وقت استعمال کرنے کے علاوہ امریکا ہمیں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متعلق جو بھی کہیں‘ لیکن ایک بات ان کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ انہوں نے نہ صرف کوئی نئی لشکر کشی نہیں کی بلکہ افغانستان کی دلدل سے امریکا کو نکال کر بہت بڑا اقدام کیا اور اس ماہ کے آخر تک افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔ صدر ٹرمپ کے برعکس صدر بائیڈن کم بولتے ہیں مگر ان کی خاموشی بہت معنی خیز دکھائی دے رہی ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے صدر بائیڈن افغانستان سے نکلنے کے بعد کسی نئے محاذ کی جانب نہیں بڑھیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ امریکا اب چین اور اس کے دوستوں کے ساتھ دو دو ہاتھ ضرور کرے گا اور اس کیلئے اس کے پاس بھارت جیسے غنڈوں کی کوئی کمی نہیں۔ سائوتھ چائنا سمندر کے اردگرد امریکا پوری طرح اپنی نظریں گاڑے ہوئے ہے، مسئلہ صرف ایک ہے کہ بھارت دو قدم آگے چل کر اگلے ہی لمحے دس قدم تیزی سے واپسی کیلئے بھاگ اٹھتا ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں