"MABC" (space) message & send to 7575

ڈیورنڈ لائن اور عالمی دستاویزات

بھارت اور نریندر مودی کے ایک وائسرائے کی حیثیت سے اشرف غنی افغانستان میں امریکی اور بھارتی تربیت یافتہ کمانڈوز کے حصار میں کٹھ پتلی کی حیثیت سے اپنی صدارت کا آخری دن گزارنے کے بعد اب اپنے نئے ٹھکانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس نئے ٹھکانے کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے۔ پہلے معزول صدر تاجکستان گئے‘ وہاں سے مثبت ردعمل نہ ملنے پر عمان گئے، وہاں بھی قبول نہیں کیا گیا تو ترکی اور امریکا کی کوششیں شروع کر دیں اور بالآخر امارات حکومت کی جانب سے ''انسانی ہمدردی‘‘ کی بنیاد پر پناہ ملنے پر وہاں چلے گئے۔ تاجکستان میں موجود افغان سفارتی عملے نے انٹرپول کو درخواست دی ہے کہ سابق صدر فرار ہوتے وقت افغانستان کے قومی خزانے سے 169 ملین ڈالر بھی لے اڑے‘ لہٰذا ان کی گرفتاری میں مدد فراہم کی جائے۔
افغانستان کی تاریخ اگر سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر 8 حکمران برطانیہ نے مقرر کئے اور ببرک کارمل کے نام سے ایک حکمران سوویت یونین نے لا بٹھایا تھا، جبکہ چار حکمران‘ جن میں برہان الدین ربانی‘ حامد کرزئی اور اشرف غنی بھی شامل ہیں‘ کابل کے صدارتی محل میں امریکیوں کے کاندھے پر سوار ہو کر پہنچے۔ اشرف غنی اور اس سے قبل حامد کرزئی کی ڈوریاں کون ہلا رہا تھا‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اپنے ایک گزشتہ مضمون میں بھی تحریر کیا تھا کہ بھارت اور امریکا پاکستان کو سی پیک کی سزا دینے کیلئے ایک بار پھر ڈیورنڈ لائن کا تنازع کھڑا کرنے کی کوششوں میں ہیں مگر یہ ابھی ان کوششوں میں ہی تھے کہ ان کے پائوں تلے سے قالین کھینچ لیا گیا۔ پاکستان کی نئی نسل کو ڈیورنڈ لائن کے بارے میں شاید اتنا علم نہ ہو مگر اسے یہ جاننا بہت ضروری ہے تاکہ آج سوشل میڈیا کی جنگ میں وہ اپنے ملک پر ہونے والے سائبر حملوں کا دفاع کرتے ہوئے دشمن ملک اور افغانستان میں بیٹھ کر 170 سے زائد گھوسٹ ناموں سے پروپیگنڈا کرنے والے کرائے کے ایجنٹوں کو جواب دینے کے ساتھ ساتھ ان پر جوابی وار بھی کر سکیں۔ جس طرح بھارت کے عیار سفارتکار راجیو چوپڑا نے اپنی کتاب کی آڑ میں افغانستان کے مقدمے کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے‘ کاش ہماری حکومتیں بھی سفارتی اور میڈیا کے محاذ پر ایسے اقدام کرتیں کیونکہ اگر وطن دوست اخبارات میں اس پر کچھ لکھنا بھی چاہیں تو سب جانتے ہیں کہ ان مضامین کیلئے الفاظ کی ایک حد مقرر ہوتی ہے اس لیے اس پر بہت زیا دہ تفصیل سے لکھا نہیں جا سکتا۔
ڈیورنڈ لائن کی تاریخی اور قانونی حیثیت پر بات کریں تو امیرِ افغانستان عبد الرحمن خان اور برٹش حکومت کے نمائندے سر ہنری مورٹیمر ڈیورنڈ کے مابین 12 نومبر 1893ء کو ہندوستان اور افغانستان کی سرحدوں کا تعین کرتے ہوئے ''ایک صفحے‘‘ کا جو معاہدہ ہوا‘ اسے برطانوی سول سروس کے نمائندے سر ہنری ڈیورنڈ کے نام کی مناسبت سے ''ڈیورنڈ معاہدے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں لکھے گئے اس معاہدے کا دری زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا تھا اور ڈیورنڈ لائن کے نام سے سات نکات پر مشتمل ایک صفحے کے اس تاریخی معاہدے میں واضح طور پر یہ الفاظ درج ہیں کہ ''باہمی اتفاقِ رائے سے دونوں حکومتوں کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کی رو سے آج کے بعد کوئی بھی فریق ڈیورنڈ لائن کی خلاف ورزی نہیں کر سکے گا‘‘۔ اس معاہدے کے بعد 1894ء میں دونوں فریقوں نے خوست کے نزدیک پارا چنار میں کیمپ آفس قائم کیا جہاں افغان حکومت کی جانب سے خوست کے سابق گورنر صاحبزادہ عبدالطیف اور سردار شیریں دل خان اور برطانوی حکومت کی جانب سے ہنری ڈیورنڈ اور خیبر ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹ صاحبزادہ عبد القیوم نے برٹش اور افغان سرحدوں کے تعین کیلئے اپنے اپنے سٹاف کی تکنیکی معاونت سے سروے شروع کر دیے اور 1896ء میں 20 صفحات پر مشتمل اس سروے رپورٹ کے تفصیلی جائزے اور بحث کے بعد ڈیورنڈ لائن کے نام سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں کا تعین کرتے ہوئے اس معاہدے کو نافذکر دیا گیا۔ دونوں حکومتوں کی منظوری کے بعد بین الاقوامی طور پر اور اقوام عالم کے نمائندے کے طور پر اقوام متحدہ سمیت اسے دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا۔ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے سرکاری ریکارڈ گواہ ہیں کہ 8 اگست 1919ء کو اس معاہدے کی شق 5 کے تحت اس کی تجدید کی گئی اور پھر 22 نومبر 1921ء کو شق 2 کے تحت اور پھر 1930ء میں افغان سربراہانِ حکومت کی جانب سے راولپنڈی میں اس معاہدے کی تیسری مرتبہ تجدید ہوئی۔
جب تقسیم ہند کے متفقہ فارمولے کے تحت پاکستان آزاد ہوا تو اسے 1893ء کا ڈیورنڈ لائن معاہدہ برطانوی حکومت سے ورثے میں ملا اور اب تک پاکستان اور افغانستان سمیت کسی بھی جگہ پر‘ کسی بھی سطح پر کسی بھی وقت‘ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی کیونکہ بین الاقوامی قانون یہ کہتا ہے کہ ''International Convention UTI possidetis juris supports the position that it should not be changed''۔ دنیا کے بہت سے ممالک کے درمیان سرحدی تنازعوں پر کیے گئے مختلف عدالتی فیصلوں اور ویانا کنونشن کے طے شدہ اصولوں میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ایسے معاہدوں کی پاسداری کرنا بعد میں تشکیل پانے والے ریاستوں کی بھی بنیادی ذمہ داری ہے:
UTI possidetis juris that binding bilateral agreements are "passed down" to successor states.
آج مسلم لیگ کی قیادت سے بھی یہ سوال پوچھا جانے چاہیے کہ جب آپ لوگ ملک میں آئین کی بالادستی اور پاسداری کے وعظ دیتے ہیں تو یہ بتائیں کہ کس آئین میں درج ہے کہ ملک کے وزیراعظم کا سپیشل ایڈوائزر ریاستی ٹی وی چینل کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو یہ بتاتا پھرے کہ وہ کے پی، آدھے بلوچستان اور تمام قبائلی علاقوں پر مشتمل افغانیہ نام کا ایک نیا صوبہ بنانے جا رہا ہے؟کیا اس بیان کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر کو اس کے عہدے سے برطرف کیا گیا؟ نہیں! بلکہ وہی منصوبہ ساز بعد میں پی ڈی ایم کا روح رواں بن بیٹھا۔ وہی منظور پشتین اور محسن داوڑ جیسے لوگ‘ جو ڈیورنڈ لائن کی مخالفت اور ریاستی ادروں پر حملوں کے ساتھ ساتھ ڈیورنڈ لائن ختم کرنے کی آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں‘ ذرا ان سے سوال کریں کہ آج آپ کے پی کو افغانستان سے جوڑتے ہیں اور ڈیورنڈ لائن کی مخالفت میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں‘ بھلا یہ تو بتائیں کہ جب ہندوستان کو تقسیم کر کے بھارت اور پاکستان‘ دو علیحدہ آزاد اور خود مختار ریاستیں وجود میں آ رہی تھیں تو اس وقت خان عبدالغفار خان نے صوبہ سرحد کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے اس کے متحدہ ہندوستان سے الحاق کی بات کی تھی یا کہ افغانستان سے الحاق کی؟ جب اس وقت اس مسئلے کو نہیں چھیڑا گیا تو اب اسے کیوں ہوا دی جا رہی ہے؟ درحقیقت ہر صا حب علم، قانون دان اور تاریخی ماہر کی نظروں ڈیورنڈ لائن ایک طے شدہ بائونڈری لائن ہے جسے دنیا کے کسی بھی ادارے نے اب تک متنازع تسلیم نہیں کیا۔ فلپ نوئل بیکر کی 30 جون 1950ء کی رپورٹ میں بھی برطانوی حکومت نے کابل کے اعتراضات پر واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن ایک انٹرنیشنل بارڈر کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1956ء میں کراچی میں CETO کی منسٹریل کونسل کا اجلاس منعقد ہوا تو اس وقت کونسل کی منظوری سے جاری کیے جانے والے مشترکہ اعلامیے میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ سیٹو کونسل کے ممبران کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ پاکستان کی بین الاقوامی سرحدیں ڈیورنڈ لائن تک قانونی اور تسلیم شدہ ہیں اور ڈیورنڈ لائن معاہدے کی شق 4 اور 8 بھی واضح کرتی ہیں کہ معاہدے کی رو سے پاکستانی سرحدیں ڈیورنڈ لائن تک مشتمل ہیں ۔
اب افغانستان سے اشرف غنی بھاگ چکا ہے اور اپنے پیچھے عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کو چھوڑ گیا ہے جن کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‘ دوسری جانب امر اللہ صالح نے افغانستان کے قائم مقام صدر ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے، یہی وہ کھیل ہے جس کے متعلق میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ امریکا کے اس کھیل کو سمجھنے میں ذرا سی بھی غلطی نہ کی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں