"MABC" (space) message & send to 7575

پھر سے حرکت میں

ڈیورنڈ لائن پر چند روز قبل میرے لکھے گئے آرٹیکل پر غصے اورناراضی کا اظہار کرنے والوں کی تعداد دیکھ کر میں حیران ہو رہا تھا کہ ملک کے اندر بیٹھے یہ کون لوگ ہیں جنہیں ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کی مستقل سرحد تسلیم کرنے کے معاملے پر اس قدر غصہ آ رہا ہے جتنا بھارت نواز غنی اور کرزئی ٹولے کو آتا ہے۔ سابق کٹھ پتلی افغان انتظامیہ کے ہرکاروں کی طرح یہ بھی مجھے کوسنے اور گالیاں دینا شروع ہو گئے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد خیال آیا کہ یہ را اور این ڈی ایس کے پے رول پر کام کرنے والے اور ان کے ملازمین کے سوا ور کون ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر بھارت اور اس کے اتحادیوں کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کی کمی نہیں اور گزشتہ چند برسوں میں ان کی تعداد میں اس لیے بھی اضافہ ہوا ہے کہ وہ بات‘ وہ سوچ و فکر‘ جو کل تک چند نام نہاد ترقی پسندوں اور مخصوص تنظیموں تک محدود ہوا کرتی تھی‘ آج سوشل میڈیا کے ذریعے عام افراد کے کانوں میں بھی انڈیلی جا رہی ہے اور یہ کام اس قدر تواتر، منظم طریقے اور بھرپور انداز میں ہو رہا ہے کہ اس شور شرابے میں اب کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مسئلہ تحریک انصاف کی حکومت میں موجود چند گھس بیٹھیئوں کی سمجھ میں اس لیے نہیں آ رہا کہ انہوں نے کون سا اپنا خونِ جگر دے کر رخِ برگِ گلاب نکھارا ہے یا نکھارنا ہے، بلکہ یہ تو وہ موقع پرست ہیں جو ہوا کا رخ دیکھتے ہی سب سے پہلے اس طرح کشتی سے چھلانگ لگاتے ہیں کہ کشتی بیچ منجدھار میں ڈولنے لگتی ہے اور یہ دور کھڑے اس میں سوار لوگوں کے ڈوبنے کا نظارہ کرتے ہوئے قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں۔
حیرانی کی بات ہے کہ پاکستان میں کل تک ترقی پسند سمجھے جانے والے وہ تمام گروہ آج مسلم لیگ نواز کے دستر خوان پر جمع ہیں‘جو کل تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں نواز شریف کے خلاف لکھنے‘ بولنے اور سوچنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جایا کرتے تھے۔ ان کے ناموں کے ساتھ ترقی پسند کا لیبل ہمہ وقت چپکا رہتا تھا۔ اگر آج سے پندرہ‘ بیس برس قبل کے جرائد نکال کر دیکھنے کا کسی کو اتفاق ہو تو ان کی ''بنائی گئی‘‘ خبریں اور انگریزی و اردو جرائد میں ان کے مضامین اور آرٹیکلز چیخ چیخ کر نواز شریف پر دنیا بھر کے الزامات کی بھرمار کرتے دکھائی دیں گے۔ اُس وقت جماعت اسلامی اور دائیں بازو کے حامی گروپ بھی کبھی اسلامی جمہوری اتحاد تو کبھی جنرل ضیاء الحق اور پھر نواز لیگ کا دم بھرتے نظر آئیں گے۔ اُس وقت یہی دو طاقتور گروپ ہوا کرتے تھے لیکن آج صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ آج نظریاتی وابستگی بھی ذاتی مفاد کا نام بن کر رہ چکی ہے اور ہر طبقہ مفادات کا اسیر نظر آتا ہے، ایسے میں بھی چند شوریدہ سر جو مفاد سے بالاتر ہو کر نظریات کا علم اٹھائے ہوئے ہیں‘ انہیں دوسرے تو دور‘ خود تحریک انصاف کی صفوں میں بھی تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس جماعت کی حمایت کرنے کی غلطی کرنے والوں کا ان کے اپنے وزیر اور مشیر اپنی نجی محفلوں میں مذاق اڑانا اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ البتہ یہاں بھی فیاض الحسن چوہان جیسے گنتی کے چند استثنائی کیس موجود ہیں کیونکہ یہ پارٹی کے نظریاتی ورکرز ہیں۔ ایسے ہی معاملات کی وجہ سے گزشتہ تین برسوں سے کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کا میڈیا ونگ کمزور ہے جبکہ ان کے مقابلے میں نواز لیگ اور پی پی پی سمیت جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا میڈیا ونگ انتہائی ایکٹو ہو چکا ہے۔
بات ہو رہی تھی ڈیورنڈ لائن پر لکھے گئے میرے کالم کی‘ جس پر مختلف طبقات کی جانب سے بے جواز غصے کا اظہار کیا گیا۔ اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو یہ خبر سامنے آ گئی کہ جیسے ہی طالبان نے کابل میں اشرف غنی کے صدارتی محل پر قبضہ کیا تو وہاں سے ملنے والی دستاویزات نے یہ ہوشربا انکشاف کیا کہ کابل کا صدارتی محل دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے، پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف نت نئے الزامات گھڑنے اور زبان، قومیت اور مذہب کی بنیاد پر فرقہ واریت پھیلانے کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا اور یہاں سے دس‘ بیس یا پچاس نہیں بلکہ 170 گھوسٹ سوشل میڈیا اکائونٹس اور نیٹ ورک آپریٹ کیے جا رہے تھے۔ یہ لوگ باقاعدہ طور پر افغان حکومت کے تنخواہ دار ملازمین کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ خیال تھا کہ اب جبکہ یہ خبر منظر عام پر آ گئی ہے‘ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایسے خفیہ سیلز اور سوشل میڈیا اکائونٹس بند کر دیے گئے ہوں گے اس لیے ان کے جھوٹ اور پروپیگنڈے میں کمی آ جائے گی لیکن اس وقت انتہائی حیرانی ہوئی جب افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور بدنام زمانہ ''را‘‘ اپنے مشترکہ پلیٹ فارم سے پروپیگنڈا سیلز کو نئے سرے سے حرکت میں لے آئیں۔ اطلاعات کے مطابق بھارت کی وزارتِ خارجہ کی نگرانی میں کام کرنے والا یہ خفیہ سیل پاکستان بالخصوص افواجِ پاکستان کے خلاف نفرت انگیز وڈیوز، بیانات، ٹویٹس اور کمنٹس کے علاوہ ایسے مواد کو وائرل کرنے کیلئے بھرپور طریقے سے کام کر رہا ہے، اس مقصد کے لیے جن فون نمبروں کو استعمال کیا جا رہا ہے‘ راقم کے پاس ان کی بھی ایک فہرست موجود ہے اور صرف فون نمبرز ہی نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے فیک ای میل آئی ڈیز، گھوسٹ اکائونٹس، جعلی گروپ اور نجانے کیا کچھ بنا رکھا ہے جہاں سے چوبیس گھنٹے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملٹری اکیڈمی کاکول میں زیرِ تربیت افسران نے خطاب کے دوران اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹ سے اَٹے پروپیگنڈے کو ختم نہ کیا گیا‘ اگر پاکستان کو اٹھتے بیٹھتے افغانستان کی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرا کر نشانہ بنانے سے احتراز نہ کیا گیا تو پھر ہمیں اس کا جواب دینا آتا ہے۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان کیلئے افغانستان کا امن اتنا ہی ضروری ہے جتنا کراچی‘ کوئٹہ‘ اسلام آباد‘ پشاور یا لاہور کا امن ضروری ہے۔ اگر کسی دوسری یا تیسری قوت نے افغان امن عمل میں رکاوٹ یا کسی قسم کا گھٹیا کھیل کھیلنے کی کوشش کی تو پھر اس کا جواب دینا بھی ہمیں آتا ہے، اس لئے سب سے اپیل ہے کہ افغانستان کے امن عمل میں اپنی من مانی کرنے یا اس میں رخنہ ڈالنے کی بالکل کوئی کوشش نہ کریں۔
پاکستان کے اندر اور باہر‘ سوشل میڈیا صارفین لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ جب بھی وہ اپنا آئی ڈی استعمال کرنے کا آغاز کریں تو انہیں سب سے پہلے خود کو پاکستان کا بغیر وردی کا سپاہی تصور کرنا ہو گا۔ انہیں کسی بھی جانب سے بھیجی گئی پوسٹ کو غور سے دیکھنا چاہئے کہ کہیں اس میں فرقہ واریت، لسانی و قومیتی تعصب کو ہوا دینے کی کوشش تو نہیں کی گئی؟ محرم الحرام کے آغاز سے اب تک نجانے کتنی ایسی پوسٹ اور وڈیوز شیئر کی گئی ہیں جن میں ایک دوسرے کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ یہ دشمن کا وہ ہتھیار ہے جسے وہ سب سے زیادہ استعمال میں لا رہا ہے۔ یہ وہ دو دھاری تلوار ہے جس سے وہ دونوں کے بندوبست کا سامان پیدا کیا جا رہا ہے، اس لیے اپنے دشمن کو پہچانیے، اس کی پوسٹس کے چھپے ہوئے پیغام کو سمجھیں، اس کی وڈیوز کو آگے بھیجنے کے بجائے وہیں دفن کر دیں اور کوشش کریں کہ ایسی پوسٹس اور وڈیوز کو سائبر کرائم سیل میں رپورٹ کریں۔ فرانس کے صدر چارلس ڈیگال نے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے فرانس پر حملے کے دوران اپنی قوم کو جرمنی کی جارحیت کے خلاف بھرپور مزاحمت پر تیار کرنے کیلئے ان سے خطاب کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا تھا جس نے بعد میں فرانس کی تاریخ بدل دی تھی، وہ جملہ تھا ''تمہارے ملک میں ہمیشہ ایک فوج رہے گی، اگر یہ تمہاری فوج نہ ہوئی تو پھر یہ تمہارے دشمن کی ہو گی‘‘۔ یہی فیصلہ کرنا ہم سب کا کام ہے۔ آج کے دن‘ جب یہ کالم پڑھیں تو چند منٹ کیلئے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر بھی ایک نظر ضرور ڈالیے گا جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ دشمن کن ہتھیاروں سے کہاں کہاں اور کدھر تک گھس چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں