"MABC" (space) message & send to 7575

ایشیا اور مغرب کا امن

اس وقت کابل ایئر پورٹ پر جو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے‘ جو ہلاکتیں ہو رہی ہیں‘ فوجیوں کے ہاتھوں افغانوں کے ادھر ادھر بکھری ہوئی لاشوں کے جومناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں‘ یہ طالبان کے کابل میں براجمان ہو جانے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی وجہ سے ہو رہا ہے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ بیس برس تک افغانستان میں ان کیلئے کام کرنے والوں کو یہاں بے سہارا چھوڑنے کے بجائے‘ مدد کرنے والے ہر ایک شخص کو امریکا لے جایا جائے گا۔ ایئر پورٹ پر ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے امریکی جہازوں سے لپٹتے ہوئے یہ بوڑھے‘ بچے‘ عورتیں اور جوان طالبان کے خوف سے نہیں بلکہ امریکا اور یورپی ممالک کے دکھائے گئے سنہرے خوابوں کے لالچ میں دھکے کھا تے ہوئے فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں تاکہ وہ امریکا اور یورپ میں عیش و آرام سے زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے طالبان کے خوف سے نہیں بلکہ یہاں سے بھاگ کر امریکا اور یورپ میں پناہ لینے والوں کی طرح پُرتعیش زندگیاں بسر کرنے کیلئے اپنا گھر بار چھوڑ ا ۔
حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی معافی تو طالبان نے اس کے با وجود دے دی ہے کہ ان کے ہزاروں ساتھیوں کو کنٹینروں میں لاد کر تپتے صحرائوں میں تڑپ تڑپ کر مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ پل چرخی، بگرام، قندھار اور گوانتاناموسمیت دوسری جیلوں میں ان کے ساتھ جو بد ترین سلوک کیا گیا‘ سب کچھ بھول کر وہ افغانستان کے ہر فرد کو گلے لگانے پر تیار ہو گئے۔ کچھ لوگ طالبان کو روکنے کیلئے پاکستان پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں حالانکہ جب امریکا، نیٹو اور بھارت کی تربیت یافتہ کابل انتظامیہ کی تین لاکھ فوج ا ور دس ہزار سے زائد ایئر فورس اہلکار بھی کابل اور افغانستان کو طالبان سے بچا نہ سکے تو پاکستان کس طرح اثر انداز ہو سکتا تھا؟جبکہ ہر قسم کی غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کیلئے پاکستان پہلے ہی اپنی مغربی سرحدوں پر دہری باڑ لگا چکا ہے اور سرحدوں کے اُس پار کیا افغان فوجی پہرہ نہیں دے رہے تھے؟
جب ہم کسی گھر‘ معاشرے‘ ریا ست اور خطے میں امن کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف وہ ریا ست یا خطہ نہیں ہوتا بلکہ کہیں بھی اگر امن و امان ہو گا تو اس ریا ست اور خطے کی معیشت، معاشرت اور اندرونی استحکام مضبوط ہو نے سے دنیا بھر کے ساتھ اس کی تجارت اور صنعت و حرفت میں تیزی آنے سے ہر دو عوام میں خوش حالی آئے گی۔ اس پُرامن ماحول سے اس ریا ست اوراس سے ملحقہ علاقوں کی امپورٹ اور ایکسپورٹ وسیع ہو نے لگے گی، سرمایہ کاری اور ماحول بہتر ہونے سے خام مال کی بہتات ہو جائے گی اور یہ صرف اس خطے تک ہی نہیں محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا امن دنیا بھر میں سلامتی اور اطمینان کا باعث بن جائے گا ۔آج دنیا سمٹ چکی ہے‘ ا س لیے باہمی تجارت کیلئے جب زمینی اور سمندری راستے محفوظ نہ ہوں‘ فضائوں سے اگر ہر وقت خطر ناک میزائلوں کی بارش ہو رہی ہو‘ کسی ایک ملک نے دوسرے کیلئے اگر اپنی فضائی اور سمندری حدود استعمال کرنے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہوں تو اس کا نقصان صرف اس ملک کو ہی نہیں بلکہ اس سے کسی بھی مقصد کیلئے جڑے ہوئے لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو امریکا اور اس کے قریبی اتحادیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔
اگر کبھی ویسٹرن سوسائٹی نے سوچنے کی حد سے آگے بڑھ کر پوچھنا شروع کر دیا کہ ان کے ہاں ہونے والی دہشت گردی کے اکا دکا واقعات کا محرک اسلام یا کسی بھی مخصوص خطے کی انتہا پسندی نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ امریکہ اور جی سیون جیسے ممالک کی دوسرے مذاہب اور ممالک کے نظریات کی توہین اور بزور طاقت مداخلت ہے اور اگر اس کا روک تھام ہو جائے تو نہ فرانس، امریکا، بلجیم، جرمنی اور برطانیہ جیسے معاشروں میں انتہا پسندی پروان چڑھے گی اور نہ ہی ان کے ہاں دہشت گردی کے واقعات جنم لیں گے۔ نہ عراق سے لیبیا،تیونس،یمن اور افغانستان تک‘ بھیانک خونریزی دیکھنے کو ملے گی اور نہ ہی دنیا کا امن و امان دائو پر لگا رہے گا۔
اگر امریکا سمیت ترقی یافتہ مغربی ممالک کے طریقہ کارا ور ایک درجن سے زائد تھنک ٹینکس کی جاری کردہ رپورٹس کی جانب دیکھیں تو پھر ان شبہات کا سر اٹھانا لازمی ہے کہ مغرب اور امریکا سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں اور خود چاہتے ہیں کہ تیسری دنیا اور مسلم تشخص رکھنے والے ممالک میں ایسے عنا صر کو تیار کیا جائے اور انہیں بے تحاشا فنڈز مہیا کرکے مطلوبہ ملک کے ما حول‘ بھائی چارے اور امن کو دشمنیوں اور انتقام کی آگ میں جھونک دیا جائے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کیلئے جس طرح پلاننگ کی گئی‘ گروہ تیار کئے گئے‘ ان پر کروڑہا ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی‘ وہ اب راز نہیں رہا بلکہ یہ حقیقت سب کے سامنے ہے اور ایک کھلی کتاب کی طرح دیکھی اور پڑھی جا چکی ہے۔ اب تو سوشل میڈیا پر سی آئی اے کے اعلیٰ عہدیداروں کے دستیاب انٹرویو خود یہ بتا رہے ہیں کہ اس فرقہ واریت کا سب سے بڑا نشانہ وہ پاکستان کوبنائے ہوئے ہیں کیونکہ یہاں پر ان کے ڈھب کے لوگوں کی اس قدربہتات ہے کہ ان کے پھینکے جانے والے جال میں پھنسنے کیلئے '' شر پسندوں‘‘ کے ٹولے ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں بے تاب رہتے ہیں اورنیو کلیئر طاقت ہونے کی وجہ سے پاکستان کی بنیادوں کو کھرچنے کیلئے کبھی فرقہ واریت‘ کبھی لسانیت‘ کبھی قومیت تو کبھی صوبائیت کے نام پر کسی نہ کسی طریقے سے اسے نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اور ہم ہیں کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اس جال میں دکھائی دینے والی کانٹے پہ لپٹی خوراک کو نوالہ بنانے کے لیے بے تاب ہیں۔
1979ء سے شروع ہونے والے روسی اقدامات کا مقابلہ کرنے کیلئے پنٹاگون اور وائٹ ہائوس ایک مرتبہ نہیں‘ بار بار کھلے الفاظ میں یہ کہتے رہے ہیں کہ اس خطے میں پاکستان کی مدد اور وسائل کے بغیر امریکا کسی طوربھی کامیاب نہیں ہو سکتا تو پھر نجانے کیوں بش سے اوباما اور ٹرمپ سے بائیڈن تک‘ سبھی صدور بھارت کے عشقِ جنونیت میں مبتلا نظر آئے۔ بھارت کی اہمیت ڈیمو کریٹ کے نزدیک جس قدر بھی ہو‘ کیا امریکی عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے صرف بھارت پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟ اگر بھارت کے مقابلے میں اس خطے کی صورت حال پر غور کیا جائے تو پاکستان کا سوائے ہندوتوا سوچ کے‘ کوئی اور دشمن نہیں۔ سری لنکا، بنگلہ دیش،مالدیپ، بھوٹان، میانمار اور سب سے بڑھ کر چین سے اس کے بہتر اور اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کسی بھی دوسرے ملک کو بھارت کی طرح اپنا ماتحت یا باجگزار بنانے کی خواہش کبھی نہیں در آئی۔ جبکہ دوسری جانب بھارت کے ذہن میں یہ بھوت سوار ہو چکا ہے کہ وہ اس خطے کا شہنشاہ اور باقی سب اپنی اپنی ریا ستوں کے راجے ہیں جو نہرو سے مودی تک‘ ہر شہنشاہِ ہند کو جواب دینا اورا س کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے پابند ہیں۔
افغانستان کی سیاست میں سب کچھ تلپٹ کرتی تیزی صاف دیکھی جا رہی ہے۔ اس وقت تین گروپ اپنے ہاتھوں میں چاقو چھریاں لئے ڈائننگ ٹیبل پر نظر آنے والے گوشت کو کاٹ کر اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے بے تابی سے اس میز کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔کچھ افغان گروپوں کو اجیت دوول کی شکل میں حامد کرزئی اور اشرف غنی ٹولہ اپنی انگلیوں پر نچانے کیلئے ان کے اعصاب کو کنٹرول کرنا شروع ہو چکا ہے۔ وہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کو اپنے جال میں پھنسانے میں‘ محسوس ہوتا ہے کہ کامیاب ہو چکے ہیں۔بھارت یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ اگر احمد مسعود اس کے جال میں پوری طرح پھنس گیا تو پھر وہ ایک نئی خونخوارخانہ جنگی کو‘ جو بعد میں ممکن ہے کہ کسی بہت بڑے فرقہ واریت کے طوفان کی شکل میں سارے خطے کو جلا ڈالے‘ ہوا دے کر اپنے تمام دیرینہ مقاصد کو حل کر لے گا۔ یہی ایران،پاکستان اور طالبان کے عقل و شعور کا اور اپنی دشمن طاقتوں کے وار سے بچنے کا امتحان ہے اور اگر امریکا سمیت مغرب یہ سمجھتا ہے کہ یہ آگ ان کے دامن تک نہیں پہنچے گی تو یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں