تحریک انصاف کو حکومت میں آئے تین برس ہو چکے ہیں اور اب اس نے چوتھے سال میں قدم رکھ دیے ہیں ۔تین سالہ کار کارکردگی بتانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ایک کنونشن بھی منعقد کیا گیا جس میں حکومتی کار کردگی کی بڑی بڑی خوبیاں بتائی گئیں ۔ تین سالہ کار کردگی کو اگر ایک فقرے میں بیان کیا جائے تو اس طرح کہیں گے کہ گلاس آدھا خالی ہے جبکہ تحریک انصاف اس طرح کہہ رہی ہے کہ گلاس آدھا بھرا ہو اہے۔ تحریک انصاف کے ایک مخلص کارکن اور پندرہ برسوں سے زائد عرصے سے تحریک انصاف کے ساتھ جڑے رہنے والے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہوئے رہ جاتے ہیں کیونکہ پارٹی میں کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں اور نہ ان کی عمران خان صاحب تک پہنچ ہی ممکن ہے۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ ایسے لوگ پی ٹی آئی حکومت سے فائدے لے رہے ہیں جن کا اس جماعت اور اس کی جدو جہد سے دور دور تک کا تعلق بھی نہیں۔ اس لئے اگر سچ کہا جائے تو کار کردگی عوام کی نظروں میں صفر ہے۔ ہمیں سچ بولتے ہوئے کوئی خوف نہیں ہے کیونکہ میرے جیسے لوگوں نے پی پی اور نواز لیگ کے دس سالہ دور حکومت میں نظرانداز کئے جانے کا اس لئے کبھی اظہار نہیں کیا کیونکہ ہم ان کے سخت ناقدین میں سے تھے اور میرے نام کے گرد انہوں نے سرخ دائرہ لگا رکھا تھا ‘ اس کی جھلک مجھے کسی غیر جانبدار تنظیم کے فنکشن یا بریفنگ میں جانے سے ملتی اور وہ لوگ جو نواز لیگ کے گن گانے کی وجہ سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے محکموں میں ترجمان بنائے گئے تھے میری جانب اس طرح دیکھتے جیسے مجھے کچا چبا جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نواز لیگ کی لیڈر شپ کی وجہ سے دو سے چار لاکھ تک ماہانہ تنخواہ‘ سرکاری گاڑیاں اور پٹرول سمیت سرکاری رہائش گاہوں کے مزے لوٹ رہے تھے۔
عمران خان صاحب کے دھرنے اور پاکستان بھر میں ان کے جلسوں میں جس کثیر تعداد میں بچے، بوڑھے اور جوان مرد و خواتین شرکت کر تے رہے وہ حیران کن تھا۔ جس تکلیف اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ لوگ عمران خان صاحب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کا ساتھ دیتے رہے اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ منا ظر دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتے تھے۔ ریاستی تشدد اور رکاوٹوں کے با وجود لوگوں کا بڑھ چڑھ کر خان صاحب کی اپیل پر اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنے ننھے منے بچوں سمیت باہر نکل کر دھرنے میں پہنچنا پاکستان کی سیاسی تاریخ کے لیے ایک عجوبہ تھا اور جو چیز سب کو حیران کرتی رہی وہ یہ تھی کہ نوجوان لوگ سب سے زیا دہ تعداد میں شرکت کر رہے تھے جنہیں کبھی اس قسم کے عوامی اجتماعات میں دیکھے جانے کا اتفاق ہی نہیں ہوتاتھا۔ اسلام آباد کے بلیو ایریا اور شاہراہ دستور پر یہ منا ظر دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی تھی کہ خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والی ستر سے اسی سال تک کی عمر رسیدہ اور چلنے پھرنے سے معذور خواتین اپنے نوجوان بچوں کے ہمراہ وہیل چیئرز پر عمران خان صاحب کے جلسے میں پشاور اور نوشہرہ سے آ رہی تھیں تو دوسری طرف انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے معذور اورا پاہج بیساکھیوں کے سہارے گھسٹتے ہوئے شاہراہ دستور کی جانب بڑھتے دیکھے جا تے ۔ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے جگہ جگہ رکاوٹیں اس طرح لگائی گئیں کہ دھرنے تک پہنچنے کے لیے ایک ایک کلومیٹر تک کا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا تھا‘ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا تاکہ لوگ اس طویل فاصلے سے گھبرا کر یہاں آنا چھوڑ دیں لیکن لوگوں نے کچھ اور طریقے ڈھونڈ لئے‘ سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی جانے والی تصویروں میں ہر عمر کے مرد و خواتین اسلام آباد کی گھاٹیاں چڑھتے ‘ آڑی ترچھی اینٹوں او ر کسی جگہ پر چھوٹے چھوٹے تختوں کے اوپرسے سنبھل سنبھل کر گزرتے ہوئے عمران خان صاحب کے دھرنے کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ‘تو دوسری جانب موٹر سائیکلوں اور ارد گرد کی آبادیوں سے دو تین کلو میٹر کی مسافت پیدل طے کرکے پہنچنے والے محنت کش ، کمزور اور نادار لوگ نظرآتے ۔کیا یہ روزانہ کسی سے کچھ لینے آتے تھے ؟ کیا وہاں دھرنے میں ان کے لیے چٹ پٹے کھانوں کا بندو بست ہوتا تھا؟ ان لوگوں سے جب وہاں آنے کی وجہ پوچھی جاتی تو وہ یہی کہتے تھے کہ خان صاحب کا ہم سے وعدہ ہے کہ وہ ہمارے حقوق ہمیں دلا کر رہیں گے، ہمارے دکھ بھرے مسائل کو ختم کر دیں گے۔ عمران خان صاحب کے یہ وعدے وہ قرض ہے جو انہوں نے ان کروڑوں کچلے ہوئے لوگوں کے حوالے کرنا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد سے اس ملک کے عوام ہر وقت اپنے لیے کسی مسیحا کی تلاش میں بھٹکتے رہے ہیں۔ جو بھی ان سے اچھی بات کرتا ہے یہ اس پر یقین کرتے ہوئے ا س کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ غالب نے کہا تھا؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
اﷲ جانتا ہے کہ کبھی کسی نے اس ملک کے غریبوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر تو کسی نے دیگر جذباتی نعروں سے اس قوم کے غریبوں کا استحصال کیا۔ انہیں ورغلایا ‘ اپنی دولت کی چمک سے آنکھوں کو خیرہ کرتے ہوئے بیوقوف بنایا اوریہ لوگ سطحی ہمدردیوں سے متاثر ہو کر نعرے لگاتے رہے اور ایک بار نہیں بلکہ تیس تیس سال ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہے اورجب ان کے وعدے ختم ہو جاتے‘ ان کے پاس ان غریبوں کو دینے کو کچھ بھی نہ رہتا تو یہ کبھی صوبائیت کے نام پر تو کبھی جمہوریت کے نام پر انہیں ورغلاتے رہے ۔ کبھی عمران خان صاحب نے سوچا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں یہ لوگ جوکبھی لاہور،فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، جہلم، بہاولپور، ملتان، گجرات، رحیم یار خان، لاڑکانہ، کراچی، ساہیوال، لیہ بھکر، سرگودھا اور میانوالی میں ان کی آواز پر کھنچے چلے آتے تھے ان کی کیا حالت ہے؟ عمران خان کے اس وعدے، اس بھروسے‘ اس امید پر یقین کرتے ہوئے یہ لوگ گرمی سردی ، لو کے تھپیڑوں اور بارش کی بوچھاڑ، جلد کو جلاتی ہوئی تپتی دوپہروں اور بدن کو چھیدتی ہوئی بے رحم سرد ہوائوں کا مقابلہ کرتے ہوئے دھرنوں اور جلسوں میں پہنچ جاتے رہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا مخاطب جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے ‘جو بتا رہا ہے وہی صحیح ہے اور جو وعدہ کر رہا ہے اسے نبھائے گا‘ جو عہد کر رہا ہے اس پر قائم رہے گا۔دوسروں کی طرح ان سے عمومی اور روایتی سیاست کا کھیل نہیں کھیلے گا بلکہ عملی اقدامات کرے گا۔انہیں صرف وقتی خواب نہیں دکھائے گا بلکہ ان کی حقیقی تعبیر سامنے لے کر آئے گا۔
اس ملک کے کروڑوں مظلوم اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے عوام سے ان کی عزت نفس اور انصاف کی فراہمی کا وعدہ ایک قرض ہے ، نوجوانوں سے ان کے بہتر مستقبل کی تعبیر کا عزم بھی ایک قرض ہے، پورے ملک میں صاف اور شفاف انصاف کی فراہمی سمیت اقوام عالم میں پاکستان کو ایک با عزت مقام دلانے کی یقین دہانی بھی ایک قرض ہے، ملک بھر میں ہر شہری کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ضمانت کی صورت میں کئے جانے والے وعدوں کا قرض بھی ہے جو خان صاحب نے بر سر اقتدار آکر اتارنا تھا ۔اس ملک کے کروڑوں عوام التجا کر رہے ہیں کہ یہ قرض ادا کیجئے!