"MABC" (space) message & send to 7575

خود کش حملوں کی نئی لہر

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران گوادر اور کوئٹہ میں ایف سی کے قافلوں پر ہونے والے خود کش حملوں کو افغانستان اور خطے کی نئی ترتیب کے حساب سے دیکھنا ہو گا۔ ایک بلوچ سردار کا ایک بیٹا‘ جو ایک دہشت گرد گروہ کا سربراہ ہے، گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی میں مصروفِ عمل ہے۔ کچھ عرصہ ہوا‘ ایک انٹرویو میں اس نے کہاتھا ''وقت آ گیا ہے کہ اب قوم پرست نوجوانوں کو بھی خود کش حملوں کیلئے تیار کرنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر جنگ جیتی نہیں جا سکے گی‘‘۔ بھارت ابھی افغانستان کے خفیہ مقامات اور تربیتی کمین گاہوں سے نکلا نہیں ہے، ٹی ٹی پی سمیت دیگر گروپ یقینا اسے اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہوں گے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ این ڈی ایس اور را کا نیٹ ورک سب کچھ چھوڑ کر افغانستان سے بھاگ گیا ہو؟ اگر بلوچستان میں سرگرم عناصر نے حملہ آوروں کی کوئی نئی فصل تیار کر لی ہے تو ہمیں بھی اسی طرح ان کا سدباب کرنا ہو گا۔
خود کش حملہ آوروں کی بھرتی اور ان کی تلاش ایک سائنسی آرٹ بن چکا ہے اور اس کیلئے مذہبی، لسانی اور قومیتی جذبات ا ور انتقام کی آگ کو بھڑکانا ہی اصل کھیل ہوتا ہے۔ 2008ء میں آپریشن زلزلہ کے دوران افواجِ پاکستان کی مختلف ٹیموں نے مقامی ٹی ٹی پی کے اعظم وارسک ہیڈکوارٹر اور اس سے ملحقہ تربیتی کیمپوں سے 52 کمسن خودکش بمباروں کو گرفتار کیاتھا۔ ان بچوں نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا تھا کہ خود کش حملے سے پہلے معمول کی تربیت کے دوران انہیں اعلیٰ قسم کا کھانا مہیا کیا جاتا تھا اور ان کے استاد انہیں بتاتے تھے کہ یہ کھانا جنت کے نچلے درجے سے آیا ہے‘ جب تم خدا کی راہ میں جان دو گے تو پھر تمہیںحوروں کے ہاتھوں سے جو کھانا ملے گا‘ اس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ چند بچوں کے میڈیکل ٹیسٹ کیے گئے تو پتا چلا کہ ٹریننگ کیمپوں میں غیر محسوس طریقے سے بچوں کے اندر قوت اور جوش و جذبہ ابھارنے کیلئے انہیں انتہائی قوت بخش ادویات کھلائی جاتی تھیں۔ یہاں پر یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ آپریشن زلزلہ میں گرفتار کیے گئے یہ کمسن خودکش حملہ آور کہاں کے رہنے والے تھے اور کیا انہیں ان کے والدین نے اپنی رضامندی سے ٹی ٹی پی کے حوالے کیا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ نہایت کمسن بچے تھے جنہوں نے ٹانک اورڈیرہ اسما عیل خان سے آگے کچھ بھی نہیںدیکھا تھا، انہیں اس ملک کا‘ اس کی سیا ست کی الف بے کا بھی کچھ پتا نہیں تھا، ایسے میں انہیں سرحد (کے پی)، راولپنڈی اور دوردراز جگہوں پر سکیورٹی فورسز کے قافلوں، بسوں اور گاڑیوں پر حملہ کرنے کے لیے کون اکساتا تھا، کون انہیں ساری سہولتیں فراہم کرتا تھا؟ ان بچوںکی تو کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی‘ پھر وہ کون لوگ تھے جو انہیں جانوروں کی طرح باندھ کر اور خوف زدہ کر کے پاکستانی عوا م بالخصوص سکیورٹی فورسز کے خلاف استعمال کرتے رہے؟ ان لڑکوں کے جسم کے گرد لپٹے دھماکا خیز مواد کا ریمورٹ جن ہاتھوں میں تھا‘ وہ اب کوئی راز نہیں رہا۔سوال یہ ہے کہ گوادر اور کوئٹہ میں جن لوگوں نے خود کش دھماکے کیے ہیں‘ ان کا ریمورٹ کن ہاتھوں میں ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جس میں بلوچستان اور سرحدی علاقوں کا امن پوشیدہ ہے۔ اس لیے گوادر اور کوئٹہ میں کرائے گئے خود کش حملوں کی تہہ تک پہنچنا از حد ضروری ہے۔
تاریخ کے اوراق الٹا کر دیکھیں تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ٹانک اور اس کے ارد گرد کے علا قوں میں آپریشن کیوں کیا گیا تھا؟ بد قسمتی سے ہمارے ملک کی اکثریت حقائق سے بے خبر ہونے کی وجہ سے افواہوں اور سنی سنائی باتوں اور کہانیوں پر یقین کر تے ہوئے بہت جلد مخالفانہ رد عمل ظاہر کر دیتی ہے اور جب تک انہیں حقیقت کا پتا چلتا ہے‘ اس وقت بہت دیرہو چکی ہو تی ہے۔ افواجِ پاکستان نے مذکورہ علاقوں میں اس وقت آپریشن کا آغاز کیا تھا جب وہاں کے لوگوں نے انہیں مدد کیلئے پکارا تھا۔ ٹی ٹی پی اور دوسرے خوارج گروہوں کی جانب سے بچوں کو خود کش حملہ آور بنانے کے لیے سکولوں سے ان کا اغوا ایک معمول بن چکا تھا۔ مقامی جرگے کے ذریعے بار بار اپیلیں کی جاتی رہیں لیکن جرگے کی بات ماننے کے بجائے جرگوں میں ہی اندھا دھند فائر کھول دیے گئے جس سے کئی معزز قبائلی رہنما ہلاک ہو گئے۔
گورنمنٹ ہائی سکول ٹانک نمبر ایک کا وہ واقعہ کون بھول سکتا ہے کہ جب سکول کے اندر بڑی بڑی گاڑیاں اور ایک وین آ کر رکتی ہے، راکٹوں اور کلاشنکوفوں سے مسلح دو درجن سے زائد افراد سکول کو گھیرے میں لے لیتے ہیں، اساتذہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ سب لڑکوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے، سہمے ہوئے کمسن بچے قطاریں بنا کر کھڑے ہو جاتے ہیں، مسلح افراد ایک فہرست نکال کر سکول میں زیرِ تعلیم 21 لڑکوں کے نام پکارتے ہیں۔ ان سب بچوں کو سکول کے با قی بچوں سے علیحدہ کرنے کے بعد انہیں اپنے ساتھ لائی وین میں بیٹھنے کا حکم دیتے ہیں، جب یہ کمسن بچے ڈر کر ایک طرف کو بھاگتے ہیں تو ایسی زبردست فائرنگ کی جاتی ہے کہ وہ سہم کر رہ جاتے ہیں۔ باقی بچے بھی یہ سب دیکھ کر چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ جب اُن اکیس بچوں نے گاڑیوں میں بیٹھنے سے انکار کیا تو ان کو زبردستی اٹھااٹھا کر گاڑیوں میں پٹخا گیا۔اس پر پورے سکول میں چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ فائرنگ اور چیخ و پکار سن کر اردگرد کی آبادی کے لوگ سکول کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے لیکن یہ مسلح گروہ ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے سکول سے بچوں کو زبردستی اغوا کر کے جنوبی وزیرستان کی طرف لے گئے جہاں سے انہیں پاک افغان سرحد کے قریب خو دکش بم دھماکوں کی تربیت دینے والے بھارتی کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ جلد ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، بچوں کے والدین رونے پیٹنے لگے، مائیں فرطِ غم سے بے ہوش ہو گئیں، علاقے میں ایک کہرام مچ گیا۔ پھر یہ ہر دوسرے سکول کا معمول بن گیا۔ دیکھئے بلوچستان میں بھی تو یہی کچھ نہیں ہو رہا؟کئی افراد‘ جو سکیورٹی اداروں سے تصادم یا فورسز کے آپریشن میں مارے گئے، یا کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ کرنے والے دہشت گرد، ان کے لواحقین انہیں لاپتا افراد سمجھ کر پولیس اور عدالتوں کے چکر لگا رہے تھے حالانکہ وہ فراری کیمپوں میں دہشت گردی کی ٹریننگ لے رہے تھے۔
2007ء کی بات ہے، ٹانک کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں ایک مقامی ٹی ٹی پی لیڈر نے سکول انتظامیہ سے رابطہ کیا اور طلبہ سے ''بات‘‘ کرنے کی درخواست کی۔ سکول انتظامیہ انکار کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی لہٰذا اگلے روز ٹی ٹی پی رہنما احسان برقی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سکول آیا، اس وقت اسمبلی ہوچکی تھی لیکن طلبہ کو دوبارہ اکٹھا کیا گیا اور پھر احسان برقی نے طویل خطاب شروع کیا، قریب ڈیڑھ گھنٹے تک وہ عسکری جدوجہد کی اہمیت بیان کرتا رہا اور پھر چودہ معصوم ذہنوں کو خودکش حملوں کے لیے تیار کر کے اپنے ساتھ لے جانے لگا، یہ ابھی سکول سے باہر نکلے ہی تھے کہ فوجی ہیلی کاپٹر اور پولیس وہاں پہنچ گئے۔تصادم میں احسان مارا گیا، ایک پولیس اہلکار شہید ہو گیا، بعد میں سینکڑوں مسلح افراد نے سکول پر یلغار کر دی اور مجبوراً علاقے میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ ایسے درجنوں واقعات ہیں کہ معصوم بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے بہکا کر استعمال کیا گیا۔
بھارت بیس برس سے افغانستان میں بغیر کسی روک ٹوک کے کروڑوں ڈالروں کی جھنکار سے افغان فوج، عوام اور اداروں کے اندر تک گھس چکا ہے جس محنت اور کوششوں سے اس نے ٹی ٹی پی اور بلوچستان کے دو درجن سے زائد دہشت گرد گروپوں کے علا وہ معصوم طلبہ کو اپنے دام فریب میں پھنسایا ہے‘ یہ سب وہ آسانی سے نہیں چھوڑ سکتا، اپنی محنت، وقت اور سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے وہ ہر حد تک جائے گا۔ اگر ریت میں چونچ دبا کر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ادھر تو کچھ بھی نہیں ہے تو وہ کسی بھول میں ہے۔ بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے کب دیا جائے گا؟ ہمارے ایک ایک جوان کے بدلے میں اس کے دس جوان کب دھول چٹائے جائیں گے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں