امریکی صدر بش کی انتظامیہ نے نائن الیون کے تیسرے روز ہی پاکستان کے سامنے سات سوالات یا سات احکامات رکھتے ہوئے مطالبہ شروع کر دیا کہ اسی وقت ان کے جوابات دیے جائیں۔ پاکستان نے امریکا سے مہلت مانگتے ہوئے کہا کہ ہم ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہیں اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن یا طالبان امریکا پر حملے میں ملوث ہیں توہم اقوام عالم کے ساتھ مل کر ان کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن اس سے پہلے ہمیں طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر سے بات چیت کا وقت دیا جائے۔بش انتظامیہ نائن الیون کے بعد اپنے عوام کا موڈ دیکھتے ہوئے اس قدر جلدی میں تھی کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کیلئے بے تاب ہوئی جا رہی تھی۔ پاکستان میں امریکا کے سینئر دفاعی اتاشی اور ان کے کچھ ساتھی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو سمجھا رہے تھے کہ ہمیں کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے پہلے مکمل سوچ بچار کرنا ہو گی اس لیے جلد بازی سے گریز کیا جائے لیکن کولن پاول اور صدر بش کی ایک ہی رٹ تھی کہ پرویز مشرف سے پوچھو کہ ''وہ ہمارے ساتھ ہے یا دہشت گردوں کے ساتھ‘‘۔ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات تھی؟ کوئی دیوانہ شخص بھی یہ کہنے سے کوسوں دور بھاگے گا کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ ہے۔ پرویز مشرف نے اس وقت دنیا کے ہر قابلِ ذکرلیڈرسے فون پر بات کی اور سب کو یہی یقین دہانی کرائی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا کے ساتھ مل کر کام کرے گا لیکن واشنگٹن سے ہر چند گھنٹوں بعد یہی پوچھا جاتا کہ پاکستان نے سات نکات کے بارے میں کیا کہا ہے، ہمیں بتایا جائے کہ وہ کون لوگ ہیں جو طالبان کے ساتھی ہیں۔ اب اگر ان سات احکامات کا جائزہ لیا جائے تو امریکیوں کا مطالبہ تھا: القاعدہ کیلئے ہر قسم کی سپلائی اور ان کی پاک افغان سرحد سے آمد ورفت کو مکمل طور پر بلاک کر دیا جائے۔ امریکا کو اگر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیلئے پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود کی ضرورت پڑے تو مکمل تعاون کیا جائے۔ القاعدہ کے خلاف کسی بھی امریکی آپریشن میں معاونت کی جائے۔ امریکیوں کے ساتھ خفیہ انٹیلی جنس اطلاعات شیئر کی جائیں۔ دنیا بھر کے سامنے القاعدہ کی اس دہشت گردی کی شدید مذمت کی جائے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کیلئے ہر قسم کی توانائی اور تیل کی سپلائی بند کر دی جائے اور پاکستان سے ان کیلئے ہر قسم کی افرادی قوت کی نقل و حرکت روک دی جائے۔ اگر یہ شواہد مل جاتے ہیں کہ اسامہ بن لادن نائن الیون کی دہشت گردی میں ملوث ہے اور اس کے با وجود طالبان اسامہ کو اپنے پاس پناہ دیتے ہیں تو طالبان سے بھی ہر قسم کے تعلقات کو ختم کیا جائے۔
یہ مطالبات اس وقت کے چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کو بھیجے گئے اور اس سے اگلے روز امریکی سفیر وینڈی چیمبر لین اور پرویز مشرف کی ڈیڑھ گھنٹہ ون ٹو ون ملاقات ہوئی‘ جس کے بعد ان ریمارکس کے ساتھ واشنگٹن رپورٹ بھیجی گئی کہ پاکستان کے کچھ تحفظات ہیں۔ وینڈی چیمبر لین کہتی ہیں کہ پرویز مشرف نے مشروط آمادگی کا اظہار کیا اور اٹھتے ہوئے ایک مزاحیہ جملہ کسا:In for a penny In for a Pound۔ امریکا نے طالبان کی نقل و حرکت کو فوری طور پر روکنے کا کہا تو اس کا جواب تھا کہ پاکستان کس طرح یک دم اونچے نیچے پہاڑوں اور سنگلاخ چٹانوں پر مشتمل 2500 کلومیٹر سے زائد طویل پاک افغان سر حد کو بند کر سکتا ہے؟جہاں تک پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال کی بات ہے تواس کی مشروط اجا زت ہو گی‘ کسی بھی طیارے کو ہمارے مخصوص علاقوں کے قریب سے گزرنے کی بھی اجا زت نہیں ہو گی بلکہ ایسا کرنے کی صورت میں بغیر وارننگ کے طیارے کو اسی وقت مارگرایا جائے گا اور اس کیلئے ہمارے جاری کیے گئے ''SHOOT‘‘ کا لفظ ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ جہاں تک طالبان کو تیل کی فراہمی کی بات ہے تو پاکستان افغان حکومت کو پٹرول یا ڈیزل نہیں بلکہ صرف کیرو سین آئل( مٹی کا تیل) ہی فراہم کرتا ہے۔ پرویز مشرف نے امریکی سٹیٹ سیکرٹری کولن لوتھر پاول سے یہ بھی کہا ''میری یہ بات یاد رکھئے گا کہ آپ جس قدر جلد اپنا افغان آپریشن مکمل کریں گے‘ اسی قدر آپ کی بہتری ہو گی، کوشش کیجئے کہ چند ہفتوں میں امریکی فوجی دستے واپس لے جائیں ورنہ جس قدر دیر کریں گے‘ اتنا ہی ہم سب کا نقصان ہو گا اور امریکا کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا‘‘۔
اب امریکا کو اس کی مسلح افواج کے جنرلز، سینئر سفارت کار، سکالرزاور دانشور 1975ء میں جنوبی ویت نام کی فوج کی اور 1984ء میں لبنانی فوج کی بدترین شکست سے سبق سکھاتے ہوئے یہی ذہن نشین کر ا رہے ہیں کہ فوج کے سپاہی اور جوان کبھی بھی بد دیانت اور کرپٹ حکومت اور اشرافیہ کیلئے نہیں لڑتے۔یہی کچھ اشرف غنی ٹولے کے ساتھ پندرہ اگست کو کابل میں دیکھنے کو ملا۔کدھر گئی وہ امریکا اور بھارت کی زبردست تربیت یافتہ تین لاکھ کی فوج اوراس کے ہزاروں کمانڈوز؟۔ ''وار آن راکس‘‘ کے عنوان سے پاکستان میں نائن الیون کے وقت امریکا کے سابق سینئر دفاعی اتاشی ڈیوڈ او سمتھ نے اپنے مضمون میں امریکی افواج کی واپسی کے بعد کابل میں ایک مرتبہ پھر طالبان کی حکومت کے تنا ظر میں امریکا کو پاکستان سے تعلقات کے باب میں مشورہ دیتے ہوئے لکھا ہے ''1965ء اور 1971ء میں بھارت سے جنگوں اور 1990 میں سوویت یونین کی پسپائی کے بعد‘ پاکستان کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئیں ان کو دہرانے سے گریز کرنا ہو گا۔ افغانستان کی سرحدیں پاکستان سے متصل ہیں نہ کہ بھارت سے‘ اس لئے امریکا کو یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اگر کبھی بھی وہ افغانستان کی سرزمین کو بھارت کیلئے نرم کرنے کی کوشش کرے گاتو اس کا پوری دنیا پر تو جو اثر ہو گا‘ سوہوگا لیکن سب سے زیا دہ نقصان امریکا کو ہی اٹھانا پڑے گا‘ بالکل اسی طرح جس طرح اب بیس برس کی تباہی اور تمام کوششوں کے رائیگاں جانے کی صورت میں اسے اٹھانا پڑا ہے۔ اُس وقت بھی امریکا اور بش انتظامیہ سمیت سی آئی اے، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سینیٹ کو سمجھایا گیا تھا کہ آپ بھارت کو جس طرح پاکستان کی مغربی سرحدوں پر لاکر بٹھا رہے ہیں اس سے پاکستان کبھی بھی دل کھول کر امریکا کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا اور ایساہی ہوا۔
نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تو دنیا بھر میں ایک کہرام سا مچ گیا‘ لوگ سہم گئے‘ سب کی نظریں اسامہ بن لادن کی القاعدہ اور افغانستان کی جانب اٹھنے لگیں‘ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی نے ہر امریکی کی آنکھ نفرت اور غصے سے بھر دی، اس واقعے سے امریکیوں کی دنیا بھر میں جو سبکی ہوئی‘ وہ ایک طرف‘ خود امریکی ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سوال کرنے لگے تھے کہ کیا ہم محفوظ ہیں؟ نائن الیون سے چند روز قبل اسلام آباد میں نئی تعینات ہونے والی امریکی سفیر وینڈی چیمبر لین کی سربراہی میں ہفتہ وار''POL-CORE‘‘ میٹنگ ہونے جا رہی تھی جس میں ڈپٹی چیف آف مشن پولیٹیکل کونسلر، چیف آف سٹیشن، ریجنل سکیورٹی آفیسر اور سینئر ڈیفنس اتاشی نے شرکت کرنا تھی، اس میں کمانڈر یو ایس سینٹرل کمانڈ کے دورۂ پاکستان اور صدر بش کی جانب سے پاکستان پر عائد پابندیوں کو نرم کرنے کے معاملات بھی شامل تھے‘ کہ نائن الیون کا سانحہ پیش آ گیا۔ اب سب کا دھیان اسامہ بن لادن کی طرف تھا۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی کوشش تھی کہ ایسے وقت میں اگر پاکستان ساتھ دینے میں ذرا سی بھی سستی دکھائے تو فوری طور پر ایران، عمان اور بھارت سے مدد لی جائے۔ بھارت کی واجپائی حکومت نے امریکی سفیر کے ذریعے اپنا خط بھی صدر بش تک پہنچا دیا تھا کہ بھارت امریکہ کو مقبوضہ کشمیر کے ہوائی اڈے دینے کیلئے تیار ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے بدلے میں گلگت بلتستان کی افغانستان سے ملنے والی اس 'نوک‘ تک رسائی کی شرط عائد کی جس پر وہ اپنی ملکیت کے دعوے کرتا ہے۔ پاکستان کو جب اس پیشکش اور بھارتی مطالبے کا علم ہوا تو پرویز مشرف نے امریکی سفیر سے کہا:Tell the Indians to lay off and stay off۔ (جاری)