افغانستان پر امریکی قبضے کے چند ماہ بعد سی آئی اے، امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سمیت اسلام آباد اور کابل، نئی دہلی اور متحدہ عرب امارات میں موجود امریکی سفارت خانوں کو مصدقہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ القاعدہ کی نقل و حرکت روکنے کیلئے پاک افغان سرحد پر پاکستانی فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی اطلاعات موصول ہوئیں کہ کچھ طالبان لیڈرز قبائلی علا قوں میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں اور کچھ کوئٹہ میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ امریکی جانتے تھے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے‘ یہ طالبان کا دورِ حکومت ہی تھا جس میں ڈیورنڈ لائن کو مستقل پاک افغان سرحد تسلیم کیا گیا جبکہ اس سے قبل کی تمام افغان حکومتیں پاکستان کے اند رسازشوں اور بغاوت کو ہوا دیتی رہی تھیں۔ یہاں یہ بھی انکشاف کرتا چلوں کہ 1979ء میں جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو پاکستان کو پیشکش کی گئی تھی کہ اگر وہ خاموش اور غیر جانبدار رہے گا تو روسی انتظامیہ تیس‘ بتیس برس پرانے ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نمٹا تے ہوئے اسے مستقل سرحد تسلیم کرلے گی لیکن پاکستان نے سوویت یونین کی یہ پیشکش قبول کرنے کے بجائے افغانستان اور امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا جس کا صلہ یہ ملا کہ 1989ء میں سوویت انخلا کے بعد شکست خوردہ روس میں شورش برپا کر کے‘ افغان مجاہدین کو آپس میں لڑتا جھگڑتا چھوڑ کر اور پاکستان پر پابندیاں لگا کر امریکا قہقہے لگاتا ہوا خطے سے ایسے بھاگا کہ دوبارہ مڑکر بھی نہیں دیکھا۔
2001ء کے بعد امریکا نے جیسے ہی بھارت اور حامد کرزئی کو ایک ساتھ کابل میں بٹھایا تو ان دونوں کی پاکستان سے ازلی دشمنی نے دو آتشہ کا کام کیا۔ دہشت گردی کی وہ تباہیاں پھیلائی گئیں کہ پاکستان تورا بورا کا منظر پیش کرنے لگا۔ کوہاٹ کے فوجی ٹریننگ سنٹر پر خود کش حملہ ہوا اور ہمارے69 جوان شہید ہو گئے، پھر لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ چار سدہ‘نوشہرہ‘ کوئٹہ‘ سوات‘ کراچی‘ خیر پور غرض پاکستان بھر میں دہشت گردی کا عفریت جھپٹنا شروع ہو گیا۔ ہمارے70 ہزار سے زائد شہری اور دس ہزار کے قریب فوجی جوان‘ افسر ان اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار شہید ہو گئے۔ ان واقعات میں جو مکروہ کردار ملوث تھے‘ ان کی پناہ گاہیں افغانستان میں‘ امریکا، نیٹو اور ایساف کے زیرِ قبضہ علا قوں میں تھیں۔ ہم نے تو وہ وقت بھی دیکھا جب ہمارے 54 سے زائد وکلا کوئٹہ میں شہید کر دیے گئے اور قیا مت کاوہ لمحہ بھی ہم پر گزرا جب ہمارے 133 نونہالوں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افرادکو بے رحمی سے آرمی پبلک سکول پشاور میں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اس کے بعد چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا‘ پھر پشاور زرعی انسٹیٹیوٹ میں خون کی ہولی کھیلی گئی، جبکہ اس سے قبل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں خودکش حملہ ہوا تھا۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی دہشت گردی کی آگ میں جھونکا گیا۔ کیا پاکستان کی کوئی حکومت امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور ان کے اتحادیوں سے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتی تھی کہ '' آپ ہمارے ساتھ ہو یا ان دہشت گردوں کے ساتھ ؟‘‘ سب کو معلوم تھا کہ ان دہشت گردوں کو مالی مدد اور محفوظ پناہ گاہیں کون فراہم کر رہا ہے مگر پوری دنیا خاموشی سے پاکستانیوں کو مرتے اور پاکستان کو زخم پہ زخم کھاتا دیکھتی رہی۔ امریکہ کا ہر صدر، وزیر خارجہ، وزیر دفاع ،سینیٹر، چھوٹا‘ بڑا جنرل اور انتظامی عہدیدار جب بھی پاکستان یا افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھتا تو ساتھ ہی ''ڈو مور‘‘ کی آوازیں نکالناشروع کر دیتا۔ ہمیں ہر لمحہ یہی سنایا جاتا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں۔ ایک لمحے کیلئے ان کا سب سے بھیانک الزام تسلیم کر لیتے ہیں‘ اب ذرا حقائق پر نظر ڈالیں، امریکا اور برطانیہ سمیت یورپی یونین، نیٹو اور ایساف کے تین ہزار فوجی جبکہ امریکی سکیورٹی کمپنیوں کے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار اہلکار بیس سالوں کے دوران افغانستان میں ہلاک ہوئے، ایک طرف سات‘ ساڑھے سات ہزار فوجی جنگ زدہ ملک میں ہلاک ہو رہے ہیں اور دوسری طرف ستر ہزار شہری اور دس ہزار فوجی و سکیورٹی اہلکار شہید کر دیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے اسی ہزار افراد کو شہید کرنے والوں کی پناہ گاہیں تو آپ کے علم میں تھیں‘ آپ انہیں روکنے سے گریز کیوں کر تے رہے؟ آپ نے تو ہمیشہ پاکستان پر الزام تراشی کی مگر پاکستان نے تو آپ کو آرمی پبلک سکول‘ زرعی یونیورسٹی اور بڈ ھ بیر پشاور کے ہوائی اڈے پر حملے کرنے والوں کے افغانستان میں بیٹھے ماسٹر مائنڈز اور ہینڈلرز سے گفتگو کے مکمل ثبوت بھی فراہم کیے تھے‘ آپ نے اس پر کیا کارروائی کی؟ ہمارے جوانوں کے کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا مگر انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش رہیں، کس قانون، کس ضابطے اور کس شق کے تحت افغانستان میں انہیں تحفظ فراہم کیا جا رہا تھا ؟کیا امریکا‘ یورپ اور دوسرے ممالک نے ان واقعات کی مذمت کی؟ کیا کسی ایک ملک نے بھی اس ساری دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ اجیت دوول کی اپنے ملک میں آمد پر پابندیاں لگائیں؟ کیا بھارت کا نام دہشت گردوں کی واچ لسٹ میں شامل کیا گیا؟ ممبئی میں26/11 کا واقعہ پیش آیا تو چند منٹوں بعد ہی پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سخت ترین سزا دینے اور سبق سکھانے کا اعلان کر دیا گیا‘ اس وقت کے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے نئی دہلی ایئر پورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر آئندہ بھارت میں کسی بھی قسم کی کوئی دہشت گردی ہوئی تو ہم بھارت کو پاکستان کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے سے نہیں روکیں گے۔ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم جارج برائون نے بھی دورۂ بھارت میں بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا پیغام بہت واضح ہے کہ اب اگر بھارت میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آیا تو ہم بھارت کو کوئی بھی ایکشن لینے سے روکنے کے بجائے‘ ہو سکتا ہے کہ‘ اس کے ساتھ مل کر دہشت گردی اور اس کے محرک کا مقابلہ کریں۔ کیا امریکا و برطانیہ نے کراچی سے لاہور اور اسلام آباد سے پشاور تک دہشت گردی کے واقعات پر ایسا کوئی بیان جاری کیا؟ امریکا اور برطانیہ کو چھبیس گیارہ کا واقعہ تو تڑپا گیا مگر کے پی، کوئٹہ اور کراچی میں 'را‘ کے احکامات پر ہر روز جو قیا مت گزر تی رہی‘ جسے را کا نیول کمانڈر کلبھوشن یادیو تسلیم کرتے ہوئے تمام تفصیلات بتا چکا ہے کہ کس طرح کوئٹہ‘ پشاور اور کراچی میں اس کی ہدایات پر دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی رہیں‘ ان واقعات پر بھارت کو کوئی تنبیہ کی گئی؟ کیا اسے دھمکایا گیا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا تو مغربی دنیا اس پر چڑھ دوڑے گی؟ امریکا اور مغرب کو لشکر طیبہ اور جیش محمد کا غم تو کھائے جاتا ہے لیکن وہ سمجھوتا ایکسپریس کو تباہ کرنے والی بھارت کی دہشت گرد تنظیم ''وشوا ہندو پریشد‘‘ پر پابندی لگانا کیوں بھول جاتے ہیں جس کی جڑیں بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران کے اندر تک پیوست ہیں؟ مکہ مسجد حیدر آباد، اجمیر، مالیگائوں اور پونا میں مسلمانوں پر بم دھماکے کرائے گئے‘ جن میں بھارت کی 27 سے زائد انتہا پسند تنظیمیں ملوث ہیں‘ کیا یہ امر کسی سے پوشیدہ ہے؟
دکن کرانیکل نے 7 نومبر 2014 کو ایک رپورٹ شائع کی کہ ''پاکستان بھارت کے ریزرو بینک، ممبئی سٹاک ایکسچینج، نیو دہلی تہاڑ جیل، سکیورٹی فورسز کے ہیڈ کوارٹر جالندھر اور پنجاب سمیت مقبوضہ جموں و کشمیر کی جیلوں پر حملے کراتے ہوئے قیدیوں کو رہا کرانے کے منصوبے بنا چکا ہے‘‘۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے طریقۂ واردات کو سمجھنے والے اس رپورٹ کو بے تحاشا پبلسٹی دینے پر ہی جان گئے تھے کہ بھارت پاکستان کے اندر کوئی بڑی کارروائی کرنے والا ہے اور پھر سب نے دیکھا کہ ٹھیک ایک ماہ بعد سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور میں تاریخ کی بدترین دہشت گردی کراتے ہوئے معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ پاکستان آج امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت انسانی حقوق کی تمام تنظیموں سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ جب ہم آپ کے ساتھ تھے تو آپ ہمارے ساتھ تھے یا ہمارے بچوں اور سکیورٹی فورسز کو ذبح کرنے والے دہشت گردوں کے ساتھ تھے؟ (ختم)