راولپنڈی سٹیڈیم میں نیوزی لینڈ اور پاکستان کے مابین تین ایک روز میچوں کی سیریز کے پہلے میچ سے دو روز قبل‘ جب پاکستان نے ارجنٹائن کو جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کی فروخت پر آمادگی ظاہر کی تو برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا گیا۔ کہا گیا کہ ہماری فاک لینڈ جزیرے کے معاملے پر ارجنٹائن سے کشیدگی چل رہی ہے اور اس سلسلے میں ہم پہلے بھی ایک بڑی جنگ لڑ چکے ہیں اور یہ بات پاکستان کے علم میں ہونی چاہئے کہ ارجنٹائن کی برطانیہ کے علاوہ دوسرے کسی بھی ملک سے کوئی دشمنی یا جھگڑا نہیں ہے، اس لیے پاکستان سے خریدے گئے یہ جہاز صرف اور صرف برطانیہ کے خلاف استعمال ہوں گے، اس لیے یہ معاہدہ چوبیس گھنٹوں میں ختم کرتے ہوئے اس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے۔ پاکستان نے برطانیہ کی یہ 'ڈکٹیشن‘ قبول کرنے سے معذرت کر لی جس پر برطانیہ سخت غصے میں آ گیا۔ اس سے پہلے بالواسطہ طور پر ایک انٹرویو میں امریکا کو اڈے دینے کے جواب میں ''ہرگز نہیں!‘‘ کا مژدہ سنایا جا چکا تھا۔ امریکا اور برطانیہ‘ دونوں کے لیے یہ بات ناقابل قبول تھی کہ پاکستان ان کے سامنے نہ صرف سر اٹھا کر اور بڑی جرأت سے بات کر رہا تھا بلکہ ان کے مقابلے پر کھل کر‘ اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کر رہا تھا۔ اس پر دوسری جنگ عظیم کے دوران تشکیل دیے گئے ایک خفیہ ادارے کو حرکت میں لایا گیا اور پانچ ممالک (امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا) کی مشترکہ سکیورٹی ایجنسی Five Eyes کے ذریعے سب سے پہلے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر واپس بلانے پر زور دیتے ہوئے کسی بڑے حملے کی نام نہاد رپورٹ پہنچائی گئی لیکن جب نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے سکیورٹی ڈویژن کی رپورٹ دکھاتے ہوئے بتایا گیا کہ ان کیلئے ڈبل وی وی آئی پیزسکیورٹی مہیا کی گئی ہے جس پر وہ مطمئن ہیں تو اس کے بعد مبینہ طور پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن سے رابطہ کرتے ہوئے انہیں مجبور کیا گیا۔ اور پھر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے برطانیہ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کیا جس پر وہ دلی طور پر کبھی بھی مطمئن نہیں ہو سکیں گی اور انہیں اپنا یہ فیصلہ زندگی کے آخری ایام تک اور دنیائے کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ پریشان کرتا رہے گا۔ آج نہیں تو کل‘ دنیا کا آزاد میڈیا اور سفارت کار برطانیہ کی جانب سے ارجنٹائن کو گریفن طیارے بیچنے کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے سوال اٹھائیں گے کہ جب برطانیہ ارجنٹائن کو اپنے فائٹر جہاز بیچ رہا تھا تو کیا ممکنہ جنگ کی صورت میں ان طیاروں سے برطانیہ پر پھول برسائے جانے تھے؟ نیوزی لینڈ کے بعد اب برطانیہ اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے دورۂ پاکستان کی امید رکھنا فضول ہے۔
2 ستمبر کو برطانوی وزیر خارجہ Dominic Raab دو روزہ دورے پر اسلام پہنچے جہاں انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ شنید ہے کہ اس ملاقات میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے اگست کے آخر میں کی جانے والی ٹیلیفونک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے جے ایف فائٹر طیاروں کی ارجنٹائن کو فروخت کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ ابھی یہ کنفرم نہیں ہو سکا کہ اس سودے کی مجوزہ منسوخی کے بدلے میں پاکستان کو کن معاملات میں مرضی کے مطابق تعاون کرنے کی پیشکش کی گئی تھی‘ لیکن کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے اس پیشکش پر فوری معذرت کر لی تھی۔ حالانکہ اس معاملے میں برطانیہ سے تعاون کا مطلب لندن سے 'بعض افراد‘ کی واپسی بھی تھا جو پی ٹی آئی کی حکومت اور سیاست کے تنِ لاغر میں نئی جان پھونک سکتی تھی۔
اس سارے معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو پاکستان کی بچکانہ سیاست ہے۔ کیوی کرکٹ ٹیم کی جانب دورہ منسوخ کرکے وطن واپسی کا اعلان جیسے ہی سامنے آیا، حکومت مخالفین کو خوشی کے دورے پڑ گئے۔ ''سبز پاسپورٹ کو عزت دلانے‘‘ کے حوالے حکومت پر طنز کی بھرمار کر دی گئی۔ اگر آپ قومی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے اور ملکی خود مختاری کے تحفظ کیلئے کسی بڑی عالمی طاقت کو اپنے فیصلے ہم پر تھوپنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے وطن‘ اپنی مٹی کو ترجیح دیتے ہیں تو اس سے سبز پاسپورٹ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا یا اس میں کمی آئے گی؟ جن بیرونی طاقتوں کے دبائو کو مسترد کیا گیا ہے اور جنہیں اپنے قومی مفادات پر حاوی ہونے سے روک دیا گیا ہے‘ وہ تو ابھی تک انگلیاں منہ میں دابے بیٹھے ہیں کہ ''انہیں کیا ہوتا جا رہا ہے‘‘۔ ان 'پانچ آنکھوں‘ کے ساتھ چھٹی زبان نے جس طرح کردار ادا کیا ہے، لگتا ہے کہ انہیں سیاسی مفاد ملکی مفاد سے بھی مقدم ہے۔
2020ء کے آخری عشرے میں ارجنٹائن کی وزارتِ دفاع کی برطانیہ سے فائٹر جہاز خریدنے کیلئے مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی تھی لیکن برطانوی حکومت کی طے کردہ قیمتیں ان کی مالی پوزیشن کیلئے بہت بڑا بوجھ تھیں، ایسے میں چین نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ چینی تعاون سے پاکستان میں تیار کیے گئے جے ایف تھنڈر طیارے خرید لیں جن کا معیار کسی طرح بھی دنیا کے بہترین فائٹر طیاروں سے کم نہیں ہے اور جس کا مظاہرہ 27 فروری 2019ء کو بھارت کے دو مگ طیاروں کو مار گرا کر کیا جا چکا ہے۔اس جہاز نے کئی عالمی مشقوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور کئی ممالک ان میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ارجنٹائن نے گریفن کو پس پشت ڈالتے ہوئے پاکستان سے رجوع کیا۔ یہیں سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات میں کھنچائو آنا شروع ہوا۔ ارجنٹائن پاکستان سے 664 ملین ڈالر کے12 جے ایف 17 بلاک تھری طیارے خریدنے جا رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح بھارت نے اس ڈیل میں طرح طرح کی رکاوٹیں اور پیچیدگیاں پیدا کرنے کیلئے در پردہ سازشیں کیں۔ بھارت کے سفارتخانے ہماری طرح نہیں کہ کسی شاہی سلطنت کے ولی عہد کی طرح موج مستیوں میں گم رہیں۔ بھارت نے فوری طور پر ارجنٹائن سے رابطہ کیا اور کہا: تھنڈر طیاروں کی قیمت بہت زیادہ ہے‘ ہم آپ کو بھارت کے تیار کردہ تیجاس طیارے اس سے کم قیمت اور آسان اقساط پر دینے کو تیار ہیں لیکن جب ارجنٹائن نے بھارتی پیشکش کو مسترد کر دیا تو بھارتی میڈیا نے پینترا بدلتے ہوئے اس ڈیل پر طرح طرح کا پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ اب چلتے ہیں 2015ء میں جب برطانیہ نے ارجنٹائن سے گریفن طیاروں کی فروخت کا معاہدہ منسوخ کیا تھا۔ اس وقت ارجنٹائن اپنے پرانے فائٹر جہازوں کی جگہ نیا سکواڈرن کھڑا کرنا چاہتا تھا لیکن برطانیہ عین وقت پر یہ کہتے ہوئے مکر گیا کہ ارجنٹائن کی صدر نے اپنے چار روزہ دورۂ چین میں چین سے دفاعی سامان کی تیاری اور تکنیک کا معاہدہ کیا ہے جبکہ اس دورے میں چینی حکومت نے فاک لینڈ جزیرے پر ارجنٹائن کی ملکیت کے حق میں پالیسی بیان بھی جاری کیا ہے، اس وجہ سے یہ ڈیل نہیں ہو سکتی۔ واضح رہے کہ برطانیہ اور بھارت کے علاوہ ارجنٹائن سے روس، امریکا اور کوریا نے بھی طیاروں کے حوالے سے ڈیل کرنا چاہی مگر کوئی بھی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی اور بالآخر پاکستان سے جے ایف تھنڈر طیاروں کی ڈیل کا معاہدہ ہوا۔
دنیائے کرکٹ میں اس وقت نیوزی لینڈ کے غیر متوقع، غیر ذمہ دارانہ اور حیران کن فیصلے پر ملی جلی تنقید سامنے آنے کے بعد نیوزی لینڈ کی جانب سے اب یہ توضیح پیش کی جا رہی ہے کہ فائیو آئیز نے ہمیں رپورٹ دی تھی کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں پر پاکستان میں کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی اطلاعات تھیں تو اطلاع دینے والی ''پانچ آنکھوں‘‘ نے پاکستان کی سر زمین پر ممکنہ حملے کی تفصیلات پاکستان سے شیئر کیوں نہیں کیں؟ کیا وہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان کو اس ''دہشت گرد گروپ‘‘ تک رسائی مل جاتی یا ان کے بارے میں کوئی اطلاع ہی مل جاتی۔ کیا ان ملکوں کی دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اپنی ذات یا اپنے شہریوں کی سکیورٹی تک محدود ہے؟ دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ اگر آپ کو کسی مجرم یا جرم کی اطلاع ملتی ہے یا اس کی کوئی ہلکی سی بھنک بھی آپ تک پہنچتی ہے اور آپ اسے چھپاتے ہیں تو آپ بھی اس جرم میں برابر کے شریک متصور ہوں گے۔