"MABC" (space) message & send to 7575

پھر ہمارا کیا بنے گا؟

کئی برسوں کی لگاتار محنت اور ایک ایک پائی جمع کرنے کے بعد شہر سے کچھ دور بسائی جانے والی بستی سے متعلق خواب بُننے کا سلسلہ شروع ہوا۔ فیکٹری میں اوور ٹائم لگا لگا کر کچھ پیسے جمع کر کے پانچ مرلے کا پلاٹ خریدنے کے بعد اس کے اور اس کے ماں باپ کے چہروں پر پھوٹنے والی خوشی قابلِ دید تھی۔ نزدیکی رشتہ داروں کو جیسے ہی خبر ملی کہ شہر میں گھر بنانے کیلئے پلاٹ خرید لیا ہے تو ایک ایک کر کے سب مبارکباد دینے پہنچنا شروع ہو گئے۔ اب روز رشتے داروں کے آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی خاطر مدارت پر ہونے والے اخراجات نے اسے پریشان کر دیا، لیکن کل کو اپنا گھر بنانے کی امید نے اسے دلاسا دیا اور جو چند ہزار روپے اس نے بچا کر رکھے تھے‘ وہ خرچ کرنے کی ٹھان لی اور آنے والے مہمانوں کی خاطر مدارت میں کوئی کمی نہ کی۔ ماں نے بیٹے سے مشورہ کر کے کچھ کمیٹیاں ڈالنے کا فیصلہ کیا تاکہ کچھ پیسے ہاتھ آ جائیں اور پھر سب سے پہلے گھر کی بنیادیں کھڑی کی جائیں۔ اب ماں باپ کے دل میں دن رات پوتے پوتیاں کھلانے اور ان سے پیار محبت کرنے کی خواہشات ابھرنا شروع ہو گئیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ بیٹا محنت مزدوری اور اوور ٹائم کر کر کے کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے اور ان کی زندگیوں کا بھی کوئی پتا نہیں کہ کل کو کیا ہو جائے‘ اس لئے اپنی زندگی میں ہی وہ اپنے بیٹے کی شادی کر دینا چاہتے تھے۔ مبارکباد دینے کیلئے آنے والے کچھ رشتہ داروں نے اشاروں کنایوں میں تو کچھ نے کھلے لفظوں میں ان کے بیٹے کیلئے اپنی بیٹیوں کے رشتے کی بات بھی کی تھی لیکن اُس وقت وہ اس پر کوئی خاص توجہ نہ دے سکے تھے لیکن اب انہیں وہ سب باتیں یاد آنا شروع ہو گئیں۔ انہوں نے جلد ہی فیصلہ کر لیا کہ بیٹے کا رشتہ کہاں کرنا ہے، پھر جلدی سے بات بھی پکی ہو گئی۔ کوئی چھ ماہ بعد‘ جب انہیں پہلی کمیٹی ملی تو وہ بنیادوں کی کھدائی کیلئے اپنے پلاٹ پر پہنچے مگر وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ یہ رہائشی منصوبہ تو غیر قانونی تھا اور اس کی حکومتی اداروں سے منظوری ہی نہیں لی گئی تھی۔ پریشان حال جب وہ مذکورہ ادارے کے دفتر پر پہنچے تو وہاں ایک ہجوم اکٹھا تھا لیکن دفترکے اندر نہ کوئی عملہ تھا اور نہ ہی کوئی ذمہ دار۔ روتے پیٹتے فریاد کرنے کیلئے سرکار کے جس دفتر بھی جاتے ایک ہی جواب ملتا کہ پلاٹ لینے سے پہلے ہمارے پاس آئے تھے؟ ہم سے اس منصوبے سے متعلق کبھی کچھ پوچھا تھا؟ اب دوسروں کی طرح تم بھی بھگتو۔ اعلیٰ سے اعلیٰ حکام کو درخواستیں بھیجیں لیکن جواب وہی کہ یہ غیر قانونی رہائشی منصوبہ تھا۔ اب نہ تو دی گئی رقم واپس مل رہی تھی اور نہ ہی پلاٹ کا قبضہ ملنے کا کوئی امکان تھا۔ بلکہ پلاٹ پر تو اُس زمین کے پرانے مالکان نے بڑے بڑے ہتھیاروں سے لیس خون پی جانے والی نظروں سے گھورنے والے بدمعاش بٹھا رکھے تھے جو کسی کو وہاں پھٹکنے بھی نہیں دے رہے تھے۔ اب ان کو بھی پتا چل گیا تھا کہ ان کی اس زمین کی مالیت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب اس رہائشی منصوبے سے متعلق اشتہارات دیے جا رہے تھے‘ جب جگہ جگہ اس کے دفاتر قائم ہو رہے تھے‘ جب بڑے بڑے بل بورڈز لگائے گئے تھے تو اس وقت متعلقہ محکمے کہاں تھے؟ کیا انہیں یہ اشتہارات‘ دفاتر اور بل بورڈز دکھائی نہیں دے رہے تھے؟ کیا حکومتی ادارے ان بل بورڈز کا کرایہ وصول نہیں کر رہے تھے؟ کیا یہ قانون نہیں ہونا چاہئے کہ کسی بھی رہائشی منصوبے کا اشتہار اس وقت تک دینا ممنوع ہو جب تک متعلقہ اداروں کا اجازت نامہ مہیا نہ کیا جائے؟ پنجاب بھر میں ہزاروں کی تعداد میں جاری ایسے رہائشی منصوبوں سے متعلق اداروں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ جن اداروں کا کام لوگوں کو ایسے فراڈ سے بچانا اور تحفظ فراہم کرنا ہے‘ وہ دفتر میں آنے والے سائلین سے یہ سوال پوچھ کر ڈانٹ ڈپٹ کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا ہم نے کہا تھا کہ یہ پلاٹ خرید لو؟ معلوم نہیں تمہارے پیسے جائز بھی تھے یا نہیں، کہیں یہ بلیک منی کا پیسہ تو نہیں تھا، اب جو ہونا تھا‘ ہو چکا، اب صبر کرو۔ یہ سن کر غریب مسکین متاثرین جب دہائیاں دیتے ہوئے رونا شروع ہو کر دیتے ہیں تو اعلیٰ افسران یہ کہ کر انہیں دفاتر سے نکال دیتے ہیں کہ ہمارے دفتر میں رونے پیٹنے کا تماشا کیوں کر رہے ہو۔ کئی متاثرہ افراد تو بزبانِ حال یہ کہہ دیتے ہیں کہ حضور! ہم تو اس لئے رو رہے ہیں کہ کل کو اگر خدا نخواستہ آپ جیسے انصاف پسند اور غریب پرور افسران اس دنیا میں نہ رہے تو ہم غریبوں اور اس ملک کا کیا بنے گا؟
دو برس پہلے کا واقعہ یاد آ گیا‘ چونیاں سے چھانگا مانگا کی جانب آئیں تو نزدیک ہی ایک گائوں میں رات کو دیواریں پھلانگتے ہوئے کچھ ڈاکو گھس آئے اور اسلحے اور کلہاڑیوںکے زور پر تمام مرد و خواتین کو باندھ کر مارتے پیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لائے منی ٹرک پر اگلے ماہ بیٹیوں کی شادیوں کیلئے خریدے گئے زیور اور جہیز سمیت گھر کا سارا قیمتی سامان لوٹ کر لے گئے۔ اگلی صبح متاثرہ خاندان رپورٹ درج کرانے تھانے گیا اور شام تک وہیں بیٹھا رہا۔ بڑی مشکل سے ایس ایچ او صاحب نے انہیں بلایا تو ایک ہی سوال پوچھا کہ اتنا سامان تم نے گھروں میں رکھا ہی کیوں تھا؟ انہیں بتایا گیا کہ اگلے ماہ دو بیٹیوں کی شادی ہے‘ ان کیلئے خریدا تھا۔ جس پر انہوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ اتنے دن پہلے خریداری کی کیا ضرورت تھی؟ ایک ہفتہ پہلے خریدتے اور اگر خریدا ہی تھا تو رات کو پہرہ دیتے۔ اب یہاں کیا لینے آئے ہو؟ اس پر اس خاندان کے سربراہ نے‘ جو اپنے گھر ہوئی بیس لاکھ روپے سے زائد کی ڈکیتی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کیلئے صبح سے تھانے میں خجل ہو رہا تھا، غصے سے بھرا ہوا بولا: جناب! لینے نہیں‘ کچھ دینے آئے ہیں۔ پھر اپنی جیب سے اس نے کچھ بادامی اور نیلے رنگ کے نوٹ نکال کر بغیر گنے ایس ایچ او کے ہاتھ پر رکھے اور ہوئے کہا: حضور! ڈاکوئوں سے جو کچھ بچا تھا‘ وہ یہاں لٹانے کیلئے آئے ہیں۔
شاہدرہ کی ایک نواحی‘ پسماندہ بستی کی گلیوں میں کئی برسوں سے گٹروں کا پانی جوہڑ کی صورت بہتا رہتا تھا، جب بارش ہوتی تو گٹر اور بارش کا پانی ایک ہو کر گھروں کے اندر داخل ہوکر جو حشر کرتا‘ اس کا تصور بھی اشرافیہ، سرکاری افسران اور کسی بھی جماعت کے سیاستدانوں اور حکمرانوں سمیت ہر کسی کے لیے محال ہے کیونکہ نہ تو ان کے بچے گندی نالیوں اور گٹروں میں گرتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھروں کا فرنیچر گٹروں کے بدبودار پانی میں غرق ہوتا ہے۔ بارشوں کے سیزن میں تو اس بستی کی یہ حالت ہوتی تھی کہ یہاں رہنا تو درکنار‘ گزرنا بھی محال ہو جاتا تھا۔ بدبو کے ایسے بھبھکے اٹھتے تھے کہ دماغ پھٹنے جیسا ہو جاتا تھا۔ جب یہ ہر سال کا معمول بن گیا تو ایک دن تنگ حال مکین متعلقہ سرکاری محکمے کے دفتر پہنچ گئے۔ اتنے سارے مرد و خواتین کو دیکھ کر بڑے سرکاری افسر نے ماتحتوں سے پوچھا کہ ان کا کیا معاملہ ہے؟ انہیں نہ صرف پورا معاملہ بتایا گیا بلکہ موبائل سے بنائی گئی وڈیوز اور تصویریں بھی دکھائی گئیں۔ اس پر بڑے صاحب کہنے لگے کہ اگر آپ کو گندے پانی اور گٹروں سے بدبو آتی ہے تو یہاں پر نہ رہیں‘ کسی اچھی جگہ چلے جائیں۔ یہاں رہ کر تو اب تک آپ کو اس کا عادی ہو جانا چاہیے تھا۔ یہاں پر تو یہی کچھ ہو گا، ہمارے پاس اتنے فنڈز ہی نہیں ہوتے۔ اس پر سائلین بولے: جناب! ایک دو دن کی بات تو برداشت ہو جاتی ہے لیکن جب گٹروںکا پانی ہر دوسرے دن گھروں میں آنے لگے تو پھر صورتحال برداشت سے باہر ہو جاتی ہے۔ برائون صاحب‘ جن کی کرپشن کی فائلوں سے اینٹی کرپشن کی کئی الماریاں بھری ہوئی تھیں‘ رعونت سے بولے: یہ سب کچھ آپ کو اس وقت سوچنا چاہئے تھا جب آپ یہاں پلاٹ اور گھر خرید رہے تھے۔ آپ نے ایسی جگہوں پر گھر بنائے ہی کیوں ہیں؟ یہ سب کر علاقہ مکین زور زور سے ہنسنا شروع ہو گئے اور پھر یک زبان ہو کر بولے: جناب! ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں اس طرح کے افسران عطا کر رکھے ہیں‘ سوچتے ہیں کہ کل کو اگر ایسے افسران نہ رہے تو ہمارا کیا بنے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں