''بیٹر بزنس بیورو یو ایس‘‘ جیسے معتبر ادارے کی جانب سے اگر امریکا میں کام کرنے والے کسی بھی ادارے یا کمپنی کے متعلق یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے کہ یہ فراڈ ہے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہ کیا جائے توپھر ایسے کسی بھی ادارے کی جاری کردہ کسی بھی قسم کی ڈیل یا کسی آڈیو کے فرانزک آڈٹ کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ Garrot Discovery Inc.‘ نے بغیر کسی لگی لپٹی کے رپورٹ جاری کی ہے کہ وہ کمپنی‘ جس نے سابق منصف اعلیٰ ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کو ایک مبہم شناخت والی ویب سائٹ سے نشر کیا ہے‘ جعلی ہے اور یہ '' بیٹر بزنس بیورو‘‘ کے ساتھ منسلک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں اس ساری پروپیگنڈا کمپین کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اس ایک فیصلے سے ہی اس آڈیو کی مشکوک حیثیت کا ثابت ہونا عیاں ہو جاتا ہے اور ایسی آڈیو کے متعلق مزید کچھ کہنا بہتان تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ سابق چیف جسٹس نے اس آڈیو سے متعلق یہی کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ ان کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور یہ ان کی آواز نہیں ہے۔
اگر دنیا بھر میں شہرت کے حامل سابق سفیر پیٹر گالبریتھ جیسے شخص کے جعلی دستخطوں سے لکھا گیا خط اس وقت کی وزیراعظم کے خلاف شائع کر کے اچھالا جا سکتا ہے اور اس جعلی خط کی بنیاد پر ایک کردار کشی کی مہم چلائی جا سکتی ہے تو میری‘ آپ کی یا کسی اور کی آوازکی ہو بہو نقل کر لینا کون سی بڑی بات ہو گی وہ بھی ایسے موقع پر جب ساری چالیں الٹی پڑ رہی ہوں اور ہر پیادہ ناکام ہو رہا ہو۔ویسے بھی یہ سچائی ان کے پیشِ نظر ہو گی کہ عدالتوں میں ایسی کوئی بھی آڈیو قابلِ قبول نہیں ہوتی‘ اور نہ ہی ان کی بنیادپرکوئی فیصلہ کیا جاتا ہے کیونکہ دنیا میں ایک نہیں‘ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ مل جاتے ہیں جو کسی کی بھی آواز کی ہو بہو نقل کرنے کی مہارت رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ آئے روز ہم ٹی وی سکرینوں پر دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے؟ مقصد صاف ظاہر ہے کہ دھول اتنی اڑائو کہ سچ اس میں چھپ کر رہ جائے۔ پچھلے چند مہینوں، چند ہفتوں کا‘ تقریروں، بیانات اور ٹویٹس کا ریکارڈ نکال کر چیک کر لیں‘ حقیقت واضح ہو جائے گی۔ جان بوجھ کر سب کو متنازع بنایا جا رہا ہے تاکہ عوام کو اشتعال دلا کر نیا سیاسی منظر نامہ تشکیل دیا جائے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ سیاسی شطرنج کی یہ بساط بہت ہی سوچ بچار کے بعد نہایت ترتیب اور کئی ماہ کی لگاتار ریہرسلزکے بعد بچھائی گئی ہے کیونکہ قانون کی کسی بھی کتاب اور کسی بھی نکتے سے یہ پورا کھیل رچانے والے سازش کنندہ کی بچت کا معمولی سا راستہ بھی لاکھ ڈھونڈنے سے نہیں مل رہا۔ وہ جو بڑے بڑے نام گزشتہ کئی برسوں سے ان کیلئے کام کر رہے تھے‘ کب سے اپنے ہاتھ کھڑے کر چکے تھے۔ ملزمان‘ جو اس میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں‘ کے خلاف درج مقدمات اور ان میں پیش کیے گئے ثبوتوں کا باریک بینی سے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد عائدکئی گئی ایسی تمام فردِ جرم کے سامنے سب بے بس ہو چکے تھے۔ جب نکتہ ور اپنا فیصلہ دے چکے تو پھر نئے لوگوں کو سامنے لانے کا فیصلہ تو کر لیا گیا مگر ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ متعلقہ فورمز پر اپنی قانونی جنگ جاری رکھی جائے گی لیکن اپنے خلاف ہونے والے ہر ممکنہ فیصلے کی راہ میں‘ جو اب نوشتہ دیوار بن چکا ہے‘ بدبودار دھواں حائل کر دیا جائے گا، اور ایسے وقت میں جب موجودہ حکومت اپنی مقبولیت کا گراف کھو رہی ہو گی‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوئے بے تحاشا اضافے کو بنیاد بنا کر نیا کھیل شروع کیا جائے گا۔ بڑھتی اور چنگھاڑتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے ان کے جذبات کو جوش دیا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بے گناہی کا کھیل رچایا جائے گا کیونکہ اگر قانونی جنگ پر ہی بھروسہ کیا تو پھر سوائے نقصان اور شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا کیونکہ تمام مقدمات میں پیش کیے گئے شواہد کے انبار چیخ چیخ کر اپنے وجود کوایک حقیقت کی طرح تسلیم کرا رہے ہیں۔یہ بھی بتاتے چلیں کہ نیا مہرہ‘ جس کے ذریعے آڈیو کا کھیل رچایا گیا ہے‘ کو چند ماہ قبل ہی چند دھمکیوںکی آڑمیں امریکا میں سیا سی پناہ سے نوازا گیا ہے اور یہ مہرہ س وقت ہر اس بیرونی تنظیم اور قوت کا منظورِ نظر بن چکا ہے جو پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف منہ سے جھاگ اڑارہا ہے۔
27 مارچ 2018ء کو اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عبا سی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے مابین سپریم کورٹ بلڈنگ میں ایک گھنٹہ پچپن منٹ تک جاری رہنے والی ون ٹو ون ملاقات اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ کر گئی تھی۔ اس وقت سپریم کورٹ سے جاری کر دہ سرکاری اعلامیے PR 38/2018 کے مطا بق اس ملاقات میں تعلیم، صحت اور عدلیہ کے مسائل زیرِ بحث آئے تھے؛ تاہم اگر تاریخ اور اس طرح کی روایات سامنے رکھیں تو اس سے پہلے وزیراعظم کی ملک کی عدلیہ کے سربراہ سے کی جانے والی کسی بھی ملاقات کی درخواست کا پیغام اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے نہیں آیا۔ صبح سویرے سات بجے شروع ہو کر نو بجے ختم ہونے والی یہ میٹنگ‘ جس میں وزیراعظم عباسی بنا کسی پروٹوکول کے سپریم کورٹ پہنچے‘ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ کر گئی۔ پھر اس روز ہونے والی موسلا دھار بارش کے سبب اس ملاقات کو آسانی سے ہضم نہیں کیا گیا کیونکہ ایسے طوفان میں وہی گھر سے نکلتے ہیں جنہیں کسی 'ایمر جنسی ‘کا سامنا ہو۔ اس ملاقات کے اعلامیے پر میرے جیسا ایک عام میڈیا ورکر یہ سوچ کر ہنسے بغیر نہیں رہ سکا تھا کہ جب دو ماہ بعد‘ اکتیس مئی کو عباسی صاحب کی حکومتی مدت ختم ہونے جا رہی تھی‘ تو وہ تعلیم، صحت اور عدلیہ کے کون سے مسائل پر یقین دہانیاں کرانے گئے تھے؟ اس وقت کے دو بڑوں کی یہ ملاقات کیوں اور کس کے کہنے پر ہوئی ؟ کیا اس ملاقات کیلئے بیرونِ ملک سے کسی اہم طاقت نے پس پردہ کوئی کردار ادا کیا؟ یہ وہ شبہات ہیں‘ جو نواز شریف کی سزا کے فیصلوں کو ردی کی حیثیت دیتے ہوئے انہیں کوڑے دان میں پھینکنے کی باتیں کرنے والے شاہد خاقان عبا سی اور ان کی جماعت کے ایجنڈے کو واضح کررہے تھے۔
واضح رہے کہ اس ملاقات سے کچھ روز قبل عباسی صاحب نے امریکا کا دورہ کیا تھا جو بقول ان کے‘ وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے نہیں بلکہ شاہد خاقان عبا سی کی حیثیت سے کیا گیا تھا۔ وہاں پر جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر کسٹم اور امیگریشن سٹاف نے جو کیا‘ وہ ایک الگ باب ہے ‘ اہم چیز وہاں پر ہونے والی ملاقاتیں ہیں۔ کڑیاں ملانے والے سبھی کڑیاں ملا کر پورا منظر نامہ تشکیل دے چکے ہیں مگر اب وہ انجان بنے بیٹھے ہیں۔
20 نومبر 2021ء کو ایک چینل پر عباسی صاحب سے جب اس ملاقات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ا س ملاقات کی تفصیلات اب یاد نہیں رہیں‘ لیکن سوچتا ہوں کہ یہ ملاقات منا سب نہیں تھی۔ یہ ملاقات ساڑھے تین برس بعد انہیں کیوں نا مناسب لگ رہی ہے‘ یہ بہت جلدسامنے آ جائے گا۔ ممکن ہے کہ اس ملاقات کی گفتگو کا ریکارڈ بھی موجود ہو جو کسی مناسب وقت پر وہ سامنے لے آئیں جو اب تک خاموش رہے ہیں۔ اب چونکہ 'ہز ماسٹر وائس‘ کی چابی ان کے خلاف پوری شدت سے گھما دی گئی ہے تو پھر پتھر کھانے والے کا اتنا حق تو بنتا ہی ہے۔
جب وزیراعظم عباسی کی اس وقت کے چیف جسٹس سے ملاقات کی خبر سامنے آئی تو نامور قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن نے اس پر رد عمل دیتے ہوئے کہاتھا کہ چیف جسٹس کو ان حالات میں نواز شریف کے مقرر کئے گئے وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کرنی چاہئے تھی، لیکن اس وقت کسے پتا تھا کہ یہ ملاقات کل کو ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے والے سازشیوں کو آئینہ دکھا نے کے کام بھی آ سکتی ہے۔