گزشتہ دنوں لاہور میں ہوئی اپنے ڈھب کی آزادیٔ اظہار کانفرنس‘ جس میں ملکی اداروں کو تاک تاک کر نشانے لگائے گئے‘ یقینا قابلِ مذمت ہے۔ کسی کو یہ اجازت کس نے دی ہے کہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات پر بے ہنگم طریقے سے ناچتا پھرے لیکن جب کوئی دوسرا اس کی کسی خامی کی نشاندہی کرے تو وہ آپ اپنے گھر کے دروازے ہی بند کرلے۔ کم از کم اس معاملے میں معیار تو ایک ہونا چاہیے۔ جس طرح اس کانفرنس میں بعض افراد نے پاکستان کی اندرونی سیا سی صورت حال پر کب کشائی کی‘ وہ ایک آزاد ملک کو کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ عوامی سطح پر اس کانفرنس کو کتنی پذیرائی ملی‘ اس کا اندازہ سوشل میڈیا پر اس کانفرنس کے حوالے سے چلنے والی منفی مہم سے لگایا جا سکتا ہے جس کے بعد منتظمین وضاحت کرنے پر مجبور ہوئے۔ وہاں ہوئی تقریروں سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے منتظمین کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعے عدلیہ، وکلا، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، حکومت اور اپوزیشن کے اہم سٹیک ہولڈرز کو مثبت بحث مباحثے کا موقع فراہم کیا، درست! بالکل درست! ایسی کانفرنسز، ایسے مباحثوں اور فورمز کا نہ صرف انعقاد ہونا چاہیے بلکہ تواتر سے ہونا چاہیے مگر ان کی کوئی حدود و قیود بھی ہونی چاہئیں کہ نہیں؟ اگر کوئی غیر ملکی ملک کے اندرونی معاملے میں دخل اندازی کرے یا اس مقصد کے لیے کسی معتبر فورم کا استعمال کرے تو کیا اسے اس کی کھلی چھوٹ دی جا سکتی ہے؟
کانفرنس میں جو کچھ ہوا‘ میرے خیال میں اس پر حکومت کو سخت نوٹس لینا چاہیے تھابلکہ کچھ عملی اقدامات بھی کرنا چاہئیں تھے۔اگر ایسا نہیں کر سکتی تھی تو کم از کم اس معاملے پر شدید احتجاج کیا جاتا اور ملکی معاملات میں دخل اندازی کے مرتکب افراد کو اس طرح وارننگ دی جاتی جیسے ایتھوپیا جیسے ملک میں حکومت نے غیر ملکی میڈیا ہائوسز کو سخت وارننگ جاری کرتے ہوئے اپنی حدود میں رہنے کا حکم دیا۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں بلکہ انیس نومبر کا قصہ ہے۔ دنیا کے نامور اور مشہور ترین پانچ بڑے اشاعتی و نشریاتی اداروں کو ایتھوپیا کی حکومت نے سخت وارننگ لیٹر جاری کرتے ہوئے انہیں اپنی حدود میں رہنے کا حکم دیا۔ ایتھوپین حکام کے مطابق یہ میڈیا گروپس ایتھوپیا میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کو سبوتاژ کر نے کے لیے اسے نسل کشی کا نام دے رہے تھے۔
اسی طرح ترکی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ گزشتہ ماہ ترک صدر نے دس مغربی ممالک کے اعلیٰ حکام کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر انہیں ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ تئیس اکتوبر کو صدر اردوان نے ان غیر ملکی حکام کے ناپسندیدہ شخصیات قرار دیے جانے کا حکم جاری کیا تھا جنہوں نے ترکی کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے زیر حراست ایک اپوزیشن رہنما عثمان کوالا کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ عثمان کوالا 2017ء کے اواخر سے زیرِ حراست ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2013ء میں ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے لیے مالی وسائل مہیا کیے تھے۔ اس کے علاوہ ان پر 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ صدر اردوان نے جن دس ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا وہ کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، ناروے، سویڈن، فن لینڈ، نیوزی لینڈ اور امریکا سے تعلق رکھتے تھے۔ غیر ملکی سفیروں نے 18 اکتوبر کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ انقرہ حکومت عثمان کوالا کے خلاف مقدمے کو جلد از جلد اور منصفانہ طور پر انجام تک پہنچائے۔ اس مشترکہ بیان کے اجرا کے فوری بعد ترک وزارتِ خارجہ نے نہ صرف اس بیان کو 'غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا بلکہ تمام سفیروں کو وضاحت کے لیے طلب بھی کر لیا جس کے بعد صدر اردوان نے انہیں ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔
لاہور میں ہوئی مذکورہ کانفرنس کا ایجنڈا اب سب کے سامنے آ چکا ہے جس سے اندازہ کر لینا چاہئے کہ مقررین کی فہرست کہاں مرتب کی گئی ہو گی؟ ان سے جو تقاریر کرائی گئیں‘ اور جو الفاظ وہاں استعمال کئے گئے‘ ان سے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ عاصمہ جہانگیر کی یاد کے نام پر بلائی جانے والی کانفرنس ہے۔ 2007ء کی عدلیہ بحالی میں اہم کردار ادا کرنے والے ایک صاحب نے کہا کہ بلوچستان میں یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ کیا انہیں یہ علم نہیں کہ یہ نام نہاد ''مسنگ پرسنز‘‘ کتنے ہی دہشت گردانہ حملوں میں ملوث رہے ہیں، ان کے پاس سے برآمد ہونے والا بھارتی ساختہ اسلحہ ان کے پشت پناہوں کا بھی پتا دے رہا ہے۔ کراچی سٹاک ایکسچینج سمیت ایسے کتنے ہی حملوں میں وہ لوگ ملوث قرار پائے گئے جنہیں ''مسنگ‘‘ قرار دے کر ملکی اداروں کے خلاف طوفان برپا کیا جاتا رہا۔ کانفرنس میں ملکی اداروں، سینئر افسران اور سربراہِ حکومت کے خلاف وہی زبان استعمال کی گئی اور وہی الفاظ دہرائے گئے جو اس سے قبل پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوام ملاحظہ کر چکے تھے۔ ویسے تو جب ایک سیاسی خاندان کے قانونی مشیر کو اس کانفرنس میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے دیکھا تو اسی وقت تمام کہانی سمجھ میں آ گئی تھی کہ یہ کوئی کانفرنس نہیں بلکہ سابق منصفِ اعلیٰ اور سیاسی مخالفین کے خلاف سجایا جانے والا منچ ہے؛ تاہم اس فورم پر ہونے والی تقریروں اور اس سے خطاب کرنے والی شخصیات کی فہرست دیکھ کر پوری کہانی سمجھ آ گئی۔ ایک طرف ریاست پاکستان ہے تو دوسری جانب ایتھوپیا جیسا ملک‘ لیکن وہ دنیا کی طاقتور ترین میڈیا ایجنسیوں کو خبردار کرتاہے کہ ایتھوپیا ایک خود مختار ملک ہے‘ جسے اپنی خود مختاری اور وقار سب سے زیا دہ عزیز ہے۔
غیر ملکی اداروں کے ایسٹ افریقہ کینیا اور نیروبی بیوروز کو متنبہ کرتے ہوئے فیڈرل ڈیمو کریٹک ری پبلک آف ایتھوپیاکی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل محمد ادریس نے19 نومبر 2021ء کو ایک لیٹر جاری کرتے ہوئے تمام غیر ملکی میڈیا اداروں کو یاد دلایا کہ آپ کو ایتھوپیا میں میڈیا ہائوس قائم کرنے کی اجا زت دیتے ہوئے خصوصی طور پر بتایا گیا تھا کہ ایتھوپیا کی آزادی، اس کی جغرافیائی حدود اور اس کے امن کو تہ وبالا کرنے کی کسی بھی کوشش کی اجا زت نہیں دی جائے گی لیکن ایتھوپیا اور اس کے عوام کو یہ جان کر دکھ ہوا ہے کہ آپ نے لگاتار بوگس اور فیک نیوز کی بھر مار کرتے ہوئے ایسی فضا قائم کرنے کی سازشیں شروع کر رکھی ہیں جس سے ایتھوپیا کی آزادی اور پُر امن معاشرتی اور معاشی ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دنیا بھر کو معلوم ہے کہ دہشت گردوں کے کئی گروپ ایتھوپیا میں سر گرم ہیں اور ان میں سے کچھ علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں‘ ان کے خلاف اگر ہماری حکومت کوئی ایکشن کرتی ہے تو آپ سب مل کر اسے نسل کشی کا آپریشن قرار دے کر تمام اخلاقی و صحافتی اقدار کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ اگر آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ ایتھوپین حکومت کن قوتوں اور دہشت گرد گروہوں کی سرکوبی کر رہی ہے تو پھر آپ کی ٹیموں کو اپنے دائرۂ کار کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔ آپ کو میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے مراسلہ نمبر586 کے تحت وارننگ دی جا رہی ہے کہ آئندہ اگر آپ نے فیک نیوز اور سیا سی انتشار کو ہوا دینے کا اپنا وتیرہ نہ بدلا تو پھر آپ کا لائسنس منسوخ کر نے کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
مذکورہ جہانگیرکانفرنس سے ایک ٹویٹ میری دانست میں‘ پاکستان کے اندرونی معاملات پر براہِ راست حملہ ہے۔ پھر اس کانفرنس میں بھارت سے برکھا دت کے علاوہ ایسے لوگوں کو بلایا گیا جن کی پاکستان اوراس کے اداروں سے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ آخر اس سارے عمل کا ایجنڈا کیا تھا؟