گزشتہ صدی کے اواخر میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی تو اُن دنوں دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے معاشی حب کراچی میں ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے سینئر اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا جس سے ہر طرف بے چینی پھیل گئی۔ آغاز میں تو کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن جب ٹارگٹ کلنگ کے واقعات تشویشناک صورت اختیار کر گئے تو چاروں جانب خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں اور پھر جلد ہی پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے اس سازش کی تہہ تک پہنچنے کیلئے اپنی بھر پور کاوشوں کا آغاز کر دیا۔اس دوران تحقیقات میں ان کے سامنے وہ حیران کن انکشافات آئے کہ ایک لمحے کیلئے سب چکرا کر رہ گئے۔ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی جس سے سب کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں مگر سمجھ سے بالاتر تھا کہ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے ڈانڈے ملک کی مغربی سرحد کے اُس پار افغانستان میں بیٹھے کچھ لوگوں سے مل رہے تھے۔ نا قابلِ تردید شواہد اور ثبوت جمع کیے گئے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ آگ بڑھانے والا کوئی اور نہیں بلکہ کابل میں بیٹھا ہو ایک ایسا بد نام زمانہ دہشت گر دہے جو بغیر کسی خوف اور ڈر کے وہاں پر ایک بہت بڑا سٹور چلا رہا ہے۔ پاکستان نے اس خوفناک لڑائی کے پس پردہ کرداروں‘ ان کے ماسٹر مائنڈز اور انہیں ہر طرح کی اندرونی اور بیرونی سہولت مہیا کرنے والے تمام دہشت گردوں اور ان کے نیٹ ورکس کی تفصیلات ان کی تصاویر اور وڈیوز جیسے ٹھوس شواہد کے ہمراہ اس وقت کی طالبان حکومت کو دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کیاجائے لیکن اس وقت کی طالبان حکومت نے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ نا قابل یقین ردعمل اس کے با وجود سامنے آیا کہ پاکستان نے طالبان حکومت کو ان دہشت گردوں کے نام‘ ان کی تصویریں‘ افغانستان میں ان کے کیمپوں کی مکمل نشاندہی وڈیو ثبوتوں کے ساتھ فراہم کرتے ہوئے یہاں تک بتا دیا تھا کہ یہ دہشت گرد اس وقت افغانستان میں فلاں فلاں جگہوں پر موجود ہیں اور فلاں فلاں لوگوں کے ذریعے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے فرقہ واریت کو بڑھاوا دے رہے ہیں لیکن نجانے کیوں طالبان کی اُس حکومت نے پاکستان کے احتجاج پر بالکل بھی مثبت ردعمل نہیں دیا۔ ایک مفروضہ ہے کہ اگر طالبان اس وقت ان دہشت گردوں کانشاندہی کیا گیا نیٹ ورک تباہ کر دیتے تو شاید بعد میں کراچی میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی‘ اس جانی اور مالی نقصان کی شدت وہ نہ ہوتی‘ جو ہمیں برداشت کرنا پڑی اور جس کا سلسلہ ابھی تک بھی مکمل طور پر تھم نہیں سکا۔
بد قسمتی کہہ لیجئے کہ افغانستان میں اب تک جو بھی حکومت رہی ہے‘ اس نے پاکستان کے ساتھ سوکنوں والا سلوک روا رکھا ہے جبکہ اس کے بر عکس پاکستان کی ہمیشہ سے ایک ہی کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں مکمل اور د یر پا امن ہو کیونکہ افغانستا ن کاامن پاکستان کی سلامتی اور خوش حالی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایک پُر امن افغانستان ہی پاکستان کی عسکری، معاشی اور معاشرتی ترقی کا زینہ سمجھا جا سکتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود پاکستان دشمن طاقتوں اور شخصیات کی یہی کوشش رہی ہے کہ افغانستان کو کبھی بھی امن کا گہوارہ نہ بننے دیا جائے کیونکہ شورش زدہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو مصائب و مشکلات کا شکار کرنا ہمیشہ سے آسان رہا ہے۔
امریکا، برطانیہ، اسرائیل اور روس سمیت کئی ممالک نے افغانستان میں بہترین سیا سی ماحول پیدا کرنے کے حوالے سے ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیا ہے اور ان کے دلوں کے بہت ہی قریب بھارت نے ان کو بطور سیڑھی استعمال کرتے ہوئے افغانستان کو ہمیشہ پاکستان کے خلاف ایک نئے محاذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ آج بھی پاک افغان سرحد ی علاقوں میں بھارتی فوج کے تربیت یافتہ کمانڈوز مسلح تحریک چلانے والوں کے ساتھ مل کر پاکستان بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ سرحدی علاقوں سے وہ ان حملوں کو آپریٹ کر رہے ہیں جبکہ وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں موجود ملا فضل اللہ گروپ سمیت ریاست مخالف عناصر کو بھی ہرطرح سے سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت افغانستان میں فوج سمیت سکیورٹی فورسز کا ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ طالبان حکومت کے پاس سرحدی فورس کی اس قدر نفری نہیں کہ دشوار گزار علا قوں کی نگرانی کا مؤثر نظام قائم کر سکے؛ تاہم اس کیلئے پاکستان کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے مگر ضروری ہے کہ طالبان پہلے اس بات کے قائل ہوں کہ پاکستان اور افغانستان کا دشمن ایک ہی ہے۔ بھارت کبھی طالبان یا افغان عوام کا ہمدرد اور دوست نہیں ہو سکتا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ بھارت نے جب بھی کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو اس کے پیچھے اس کا اپنا مفاد تھا۔ جو بھارت آج نئے شہریتی قوانین کی آڑ میں دہائیوں قبل ہجرت کر جانے والے افغانوں کے بھارت سے نکالنے کے درپے ہے‘ وہ افغان عوام کا حقیقی خیرخواہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جو ممالک آج بھارت کے ساتھ پیار محبت کی پینگیں بڑھارہے ہیں‘ جلد یا بدیر انہیں بھی یہ بات سمجھ آ جائے گی۔اس سے قبل بھی امریکی چھتر چھایہ میں بھارت نے افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ایک نیٹ ورک بچھایا تھاجو اب تک کام کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت نے پاکستان کو جتنا نقصان افغان سر زمین استعمال کرتے ہوئے پہنچایا ہے‘ اتنا وہ براہِ راست جنگوں میں بھی نہیں پہنچا سکا، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اب یہ حقیقت بھی واضح ہو چکی ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا منصوبہ خود بھارت کا تیار کردہ تھا جس کا مقصد وسطی ایشیا میں بھارت کے قدم مضبوط بنانا تھا۔ دہلی میں پارلیمنٹ پر حملے کا جب ڈرامہ رچایا جا رہا تھا تو اس وقت بھی کچھ تجزیہ کار اور غیر جانبدار حلقے حملہ آوروں کا فائرنگ کا انداز اور ان کی نا اہلیت دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ کمزور سا ڈرامہ بھارت کے کسی آنے والے بڑے پلان کا حصہ لگ رہا ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ ہونے کے بعد بھارت نے سب سے پہلاکام یہ کیا کہ یکطرفہ طور پر پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندیاں عائد کر دیں۔ دنیا بھر میں سول ایوی ایشن سے متعلقہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے کہ ان یکطرفہ پابندیوں سے بھارت کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ مگر جلد ہی یہ بھید بھی کھل کر سامنے آ گیا کیونکہ خود نافذ کر دہ فضائی پابندیوں کا بہانہ بناتے ہوئے بھارت نے واویلا شروع کر دیا کہ وہ جنگ زدہ افغانستان کو فوری امداد پہنچانے کیلئے مستقل فضائی رابطے تلاش کرناچاہتا ہے۔ پھر اس نے روس اور امریکا کی مدد سے مئی 2002ء میں تاجکستان میں اپنا ہوائی اڈہ قائم کیا۔ بھارت نے یہ ہوائی اڈہ تعمیر کرتے ہوئے دنیا بھر میں ایک ہی شور برپا کیے رکھا کہ اس فوجی اڈے کا واحد مقصد جنگ کی تباہ کاریوں سے متاثرہ افغان عوام کی تیز رفتار اور بغیر کسی رکاوٹ کے مدد ہے کیونکہ ان حالات میں جب بھارت کی پارلیمنٹ پر حملے ہو رہے ہیں‘ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنا بھارت کے لیے ممکن نہیں ہے۔ تاجکستان میں اپنا ہوائی اڈہ قائم کرتے وقت بھارت نے دنیا بھر کو یہی تاثر دیا کہ وہ یہ ہوائی اڈہ عارضی طو رپر قائم کر رہا ہے اور جیسے ہی پاکستان سے تعلقات بہتر ہوں گے‘ یہ اڈہ ختم کر دیا جائے گا لیکن نہ اس کی ایسا کرنے کی نیت تھی اور نہ ہی ایسا کیا گیا۔ تاجکستان کو رام کرنے کے لیے بھارت نے دو روسی ہیلی کاپٹر تاجکستان کو تحفے میں دیے۔ پھر سب نے دیکھا اور دیکھتے رہے کہ اس فوجی اڈے کی آڑ میں بھارت نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں بنائے گئے فوجی کیمپ اور سیف ہائوسز کو بلوچستان، کراچی اور وزیرستان سمیت پاکستان میں خوفناک دہشت گردی کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔