"MABC" (space) message & send to 7575

چناب اور جہلم کا پانی

لاہور سے اسلام جاتے ہوئے جہلم اور چناب کو جس طرح اجڑا ہوا دیکھا اس منظرنے چکرا کر رکھ دیا کہ راوی‘ ستلج اور بیاس تو ہم دے ہی چکے تھے لیکن چناب اور جہلم بھی کسی لاوارث اور غربت کی تہہ میں ڈوبی ہوئی بیوہ کی مانگ کی طرح ویران ہو رہے ہیں۔پانی کا یہ ہتھیار جو بھارت ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے یہ خاموشی سے آہستہ آہستہ پاکستان کے سر سبز و شاداب گلستان کو آکاس بیل کی طرح چاٹے جا رہا ہے۔ یہ تسلیم کر لیجیے کہ بھارت کی قسمت کے موجو دہ مالک نریندر مودی اور اس کے بعد آنے والے مہا سبھائی ٹولے کونہ تو کسی دو طرفہ معاہدے‘ بین الاقوامی قانون اور اخلاقیات کی پروا ہے اور نہ ہی کسی عالمی ثالثی میں کئے جانے والے معاہدے کی اس کے سامنے کوئی حیثیت ہے ۔ اس کا ایک ہی مقصد‘ ایک ہی منزل ہے کہ پاکستان کو اس قدر اپاہج اور بے بس کردیا جائے کہ وہ بھارت کا باجگزار بن کر رہ جائے اور بدقسمتی دیکھئے کہ پاکستان کی کسی بھی سیا سی قیا دت نے سنجیدگی سے قومی اہمیت کے اس اہم ترین مسئلے کوترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے حکمران جانتے بوجھتے ہوئے بھی تجاہل کا شکار ہیں کہ چناب اور جہلم کے ساتھ ساتھ بھارت دریائے سندھ کا سیا چن سے گلا گھونٹ کر پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کر رہا ہے ۔ وہ جب چاہتا ہے اپنی جانب کے پانی کو چھوڑ کر آدھے سے زیا دہ پاکستان کو اپاہج کرنے کے علا وہ ملکی معیشت کو ناقابل برداشت نقصان پہنچا دیتا ہے ۔
بھارت یہ واٹر بم چناب‘ جہلم اور دریائے سندھ پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو آبی جارحیت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ہمارے عوام تو ایک طرف رہے ہمارے اب تک کے حکمرانوں کی بصیرت اور پیش بینی بر صغیر کے مختلف خطوں اور علا قوں کی سیا سی‘ تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کو محسوس کرنے سے بھی قاصر ہے۔مجال ہے کسی سیا سی قیا دت نے اس مسئلے پر کام کیا ہو۔ پاکستان میں بہنے والے تمام دریامقبوضہ جموں وکشمیر اور کچھ بھارتی علاقوں سے ہو کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور اس پانی کا ایک ایک قطرہ بھارت ہم سے اچکتاجا رہا ہے ‘ جبکہ ہمارے حکمران اور عوام اقتدار کی کھینچا تانی اور لوٹ مار سے اکٹھے کئے گئے دولت کے انبار میں اضافہ کرنے یا انہیں بچانے کیلئے سرگرم رہتے ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا با لکل اسی طرح قومیں جب مٹتی ہیں تو ایک دم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ مٹتی ہیں‘ غیر محسوس طریقے سے تباہ ہوتی ہیں اور عالم یہ ہوتا ہے کہ عوام تو عوام خواص تک کو احساس نہیں ہونے پاتا کہ وہ مٹ رہے ہیں ‘تباہ ہو رہے ہیں۔ یہی حال اب پاکستان کا ہو رہا ہے کیونکہ قوم کو سروے کے ذریعے بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی آدھی سے زیا دہ آبادی اب بھارت سے بجلی مانگنے کو ترجیح دینے لگی ہے اورلوگ مہنگائی سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ دریائے راوی‘ بیاس اور ستلج کی حالت ہم سب کے سامنے ہے اور باقی رہ گئے جہلم اور چناب‘ ان دریائوں میں بہنے والے پانی کی مقدار اور ویرانی سے بھی سب اچھی طرح واقف ہی ہوں گے۔ ان دریائوں پر جب بھارت بگلیہار‘ وولر اور کشن گنگا جیسے بڑے بڑے اور چھوٹے بڑے 86 مزیدپاور ہائوسزاور ڈیمز مکمل کر لے گا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس پانی کی شکل میں وہی کچھ رہ جائے گا جو آج ہم سب کو راوی‘ بیاس اور ستلج میں نظر آ رہا ہے۔کبھی کبھی اس بات پر دل دُکھتا ہے کہ ہماری قوم اس قدربے خبر اور لا پروا ہو چکی ہے کہ اسے احساس ہی نہیں ہو رہا کہ بھارت کے بگلیہار ڈیم کے بعد مرالہ پر بننے والے دونئے پاور ہائوسز کی وجہ سے مرالہ ہیڈ ورکس اگر بند ہو جاتا ہے تو مرالہ راوی لنک کینال سے پاکستان کا چاول پیدا کرنے والا ایک کروڑ ایکڑرقبہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستا رہ جائے گا۔ جب سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے دریائے راوی خشک ہونے لگا تو اس کی وجہ سے پانی کی کمی کو دور کرنے کیلئے پاکستان نے دریائے چناب پر ہیڈ مرالہ تعمیر کیا اور پھر اسی دریا پر مشہور خانکی ہیڈ ورکس بھی ہے۔ جس طرح مشرقی دریائوں پر سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو مکمل اختیار دیا گیا بالکل انہی الفاظ میں مغربی دریائوں پر اسی معاہدے کی رو سے بھارت کی طرف سے پاکستان کے مکمل حقوق تسلیم کئے گئے۔ سندھ طاس معاہدے کی دفعہ دو اور ذیلی دفعہ ایک میں کہا گیا ہے کہ بھارت اس بات کا پابند ہے کہ مغربی دریائوں کے پانی کو پاکستان کی جانب بہنے دے اور ان پانیوں کے بہائو میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی اجا زت نہ دے لیکن بھارت اس معاہدے کی کسی ایک شق پر بھی جو پاکستان کے مفاد میں ہو عمل کرنے سے مکمل انکاری ہے۔ آج بھارت کی طرف سے دریائے چناب اور جہلم پر پانی کے بہائو میں جو رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں ان میں وولر بیراج اور دریائے چناب پر ڈیموں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کے علا وہ دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم جیسے کئی ڈیم بنانے میں مصروف عمل ہے۔
سندھ طاس معاہدے میں جو تعریفیں بیان کی گئی ہیں وہ نہایت اہم اور قابلِ توجہ ہیں۔ اس معاہدے میں تمام دریائوں‘ خواہ وہ مشرقی ہوں یا مغربی‘ کے لیے اس معاہدے میںMainــــــ کی صفت استعمال کی گئی ہے اور اس معاہدے میں '' Mainــــــ‘‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انڈس‘ جہلم‘ چناب‘ ستلج ‘ بیاس اور راوی کے لیے ''Mainــــــ‘‘ کی جو اصطلاح استعمال کی گئی ہے اس سے مراد ان دریائوں کا اصل پاٹ(Main stem)ہے یعنی معاون دریائوں کو چھوڑ کر‘ لیکن کسی بھی دریا کے پاٹ اور کھاڑیاں(Creek) بھی اس میں شامل سمجھے جائیں گے اور وہ تمام تالاب یا جھیلیں جو دریا کے پاٹ کو آپس میں ملانے والے ہوں اور جو اس دریا کا حصہ ہوں وہ بھی دریا کے پاٹ ہی کا حصہ سمجھے جائیں گے۔ جیسے وولر جھیل دریائے جہلم ہی کا حصہ ہے۔ جہلم دری ناک اور چناب کا پاٹ چندراا ور بھاگا ندیوں کے سنگم تک متصور ہو گا۔ اس لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ اس معاہدے کی رو سے دریائے چناب کا سارا پانی جندرا اور بھاگا دریائوں کے سنگم تک پاکستان کا حصہ ہے۔ آپ دریا کے بہائو کے خلاف دریائے چناب کے کنارے چلتے جائیں تو پورے پنجاب اور مقبوضہ کشمیر سے گزرنے کے بعد بھارتی صوبہ ہما چل پردیش کے ضلع چمبا میں ٹانڈی اور کیلانگ کے مقام پر جندرا اور بھاگو کو دریائے چناب میں آکر شامل ہوتاہوا دیکھیں گے‘ ان مقامات سے بہت پہلے بہائو کے مخالف رخ پر مقبوضہ کشمیر میں جموں کے مقام پر اسی دریا پر دھیان گڑھ اور لارجی ڈیمز کے علا وہ بھارت چھ ڈیم اور بنارہاہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ1989ء میں جب بھارت نے دہلی اتھارٹی منصوبے کے لیے بیس ارب روپے مختص کئے تھے‘ ہمیں اسی وقت بھر پور طریقے سے مقامی اور بین الاقوامی حلقوں میں جا کراحتجاج کرنا چاہئے تھا۔ اگر پاکستان میں پانی سے متعلق کوئی ایک اتھارٹی یا ادارہ اس ملک و قوم سے مخلص ہو تا تو وہ پاکستانیوں اور عالمی رائے عامہ کو بتاتا کہ دہلی اتھارٹی کے اس منصوبے کے بعد پاکستان دریائے چناب کے پانی کی ایک ایک بوند کیلئے ترسنا شروع کر دے گا۔اب بھی صورت حال یہ ہے کہ بھارت کے بنائے گئے صرف ایک سلال ڈیم کے ذریعے پاکستان کے مرالہ ہیڈورکس کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ چناب بہت ہی تیز بہنے والے دریا ہے اور اگر میں یہ کہوں تو کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں ہو گا کہ چناب کے بغیر دریائے سندھ با لکل اس پرندے کی مانند ہو جاتا ہے جس کے بال و پر نوچ لیے گئے ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں