"MABC" (space) message & send to 7575

صحت کارڈ اور پندرہ لاکھ

میرے اس کالم کا عنوان دیکھنے کے بعد شاید بہت سے قارئین کو لگے گا کہ میں صحت کارڈ کی مقرر کی گئی دس لاکھ روپے کی رقم کو پندرہ لاکھ تک بڑھانے کی بات کرنے جا رہا ہوں‘ مگر میرا ہرگز یہ مطالبہ نہیں ہے بلکہ میرا تو صرف یہ مدعا ہے کہ جب ہیلتھ کارڈ کیلئے ہسپتالوں کی رجسٹریشن کی جا رہی تھی تو وہ کون سی شخصیات تھیں یا کیا روڈ میپ تھا جس کے تحت مختلف علاقوں میں مقررہ ہسپتالوں کا تعین کیا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ ضلع قصور کے اہم ترین تجارتی اور آبادی کے لحاظ سے دو بڑے قصبوں کھڈیاں خاص اور منڈی عثمان والا کی جانب کسی کا دھیان نہیں پڑنے دیا گیا مبادا کوئی غلطی سے کھڈیاں کے کسی ہسپتال کا نام اس فہرست میں شامل کر دے جس سے کھڈیاں خاص اور منڈی عثمان والا سمیت اردگرد کے 250 سے زیادہ دیہات کی آبادی ہیلتھ کارڈ سے مستفید ہو سکے۔ قصور میں کھڈیاں اور منڈی عثمان والا کے لوگوں کے لیے جو ''قریبی ہسپتال‘‘ اس فہرست میں درج کیے گئے ہیں وہ سب تیس سے چالیس کلومیٹر دور‘ قصور‘ کوٹ رادھا کشن یا پھر پتوکی اور چونیاں میں ہیں۔ کیا مقامی لوگ وہاں جا کر ہسپتالوں میں اپنا علاج کرائیں گے؟ ایسا لگتا ہے کہ کھڈیاں کے اندر موجود سرکاری اور نجی ہسپتالوں کو کسی ایسے شخص نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے جسے اس قصبے سے کوئی خاص قسم کی خار ہے۔
ضلعی انتظامیہ میں کوئی ایسی شخصیت دکھائی نہیں دیتی جو بار بار توجہ مبذول کرائے جانے کے باوجود کھڈیاں سے گزرنے والی قصور‘ دیپالور روڈ کی ٹوٹی پھوٹی حالت کی جانب توجہ دیتی اور نہ ہی کسی کو چوبیس گھنٹوں تک جاری رہنے والی بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا احساس ہے۔ ان برائون صاحبان کا کیا ہے‘ اگر کسی وقت ان کے ہاں گیس کم بھی ہو جائے تو عوام کے ٹیکسوں سے ادا کیے جانے والے الیکٹرک ہیٹر انہیں موسم کی سختیوں سے محفوظ رکھنے کے کام آ جاتے ہیں‘ چولہا تو غریب کا ٹھنڈا ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ اور اعلیٰ حکام سے ہی کسی دن گزارش کرنا پڑے گی کہ حضور ضلع قصور کے نقشے کو ایک مرتبہ غور سے دیکھ لیجئے کہ اس میں پندرہ لاکھ سے زائد آبادی والا قصبہ کھڈیاں بھی ہے۔ صحت کارڈ کے حوالے سے قریبی علاقوں سے کوئی ایسا ہسپتال منتخب نہیں کیا گیا جہاں مقامی لوگ بہ سہولت علاج کرا سکیں۔ قصور کے لوگوں اور ہسپتالوں کی فہرست دیکھ کر وہ پرانا لطیفہ یاد آ گیا جو کئی برسوں سے ہم سب سنتے آ رہے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے لاہور میں لڑکوں کیلئے ایک کالج بنانے کا فیصلہ ہونے لگا تو اس وقت کے قانون کے مطابق کالج کے ساتھ ہاسٹل کی تعمیر بھی لازمی تھی‘ جس پر فیصلہ کیا گیا کہ کالج اگر لاہور والوں کی سہولت کیلئے بنایا جا رہا ہے تو پھر ہاسٹل امرتسر والوں کے حصے میں آنا چاہیے۔ شاید ایسے ہی کچھ لوگ ہیلتھ کارڈ کی سہولت دینے والوں میں شامل ہیں جنہوں نے کمال کا فیصلہ کرتے ہوئے قیام پاکستان سے قبل بنائے گئے کالج اور ہاسٹل کی یاد تازہ کر دی۔ ایسے ہی کشادہ نظر افسران کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی یافتہ ملکوں میں روشن حروف سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہیلتھ کارڈ کیلئے ہسپتالوں کی رجسٹریشن کرنے والوں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ زچگی کے اخراجات بھی اس سہولت میں شامل کیے جائیں گے تو اس وقت انہوں نے یہ فیصلہ کیوں نہ کیا کہ منڈی عثمان والا اور کھڈیاں جیسے بڑے قصبوں اور ان سے ملحقہ دو سو سے زائد دیہات میں خواتین کو زچگی کیلئے قریبی علاقوں میں دستیاب اچھی سہولتوں والے ہسپتالوں سے استفادہ کرنے دیا جائے‘ آخر اس میں کیا برائی تھی؟
کھڈیاں اور اس کے اردگرد کی سڑکیں تو اب نام کی ہی رہ گئی ہیں۔ جگہ جگہ ان میں بڑے بڑے گڑھے پڑ چکے ہیں۔ سابقہ حکومتوں کی تیار کرائی گئی سڑکوں کا معیار اس قدر شاندار تھا کہ چند ماہ بعد ہی ان کے دامن تار تار ہونا شروع ہو گئے اور رہی سہی کسر سڑکیں بننے کے بعد برسنے والی بارشوں نے پوری کر دی اور یوں سب کاموں کے پول کھول کر رکھ دیے۔ پنجاب حکومت نے بھی شاید مصمم ارادہ کر رکھا ہے کہ ان سڑکوں کی حالت کو درست نہیں کرنا اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کی ہڈیاں اور انجر پنجر اب جواب دے چکے ہیں۔ خدا کیلئے ایک لمحے کو ہی سہی‘ یہ سوچنے کی زحمت کیجئے کہ ایسی سڑکوں پر دورانِ سفر بزرگ‘ بیمار افراد اور حاملہ خواتین کس کرب سے گزرتے ہوں گے۔ یہ تکلیف محسوس کرنے سے ہی پتا چل سکتی ہے‘ زبانی سننے یا لکھے گئے ان الفاظ کو پڑھنے سے محسوس نہیں کی جا سکتی۔ اللہ نہ کرے کہ اس طرح کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے کبھی وزیروں‘ مشیروں اور ضلعی افسران کو ایسی کسی حالت کا سامنا کرنا پڑے۔
بات صرف ہیلتھ کارڈ کی نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے پندرہ لاکھ سے زائد آبادی کو نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ تمام اعلیٰ افسران اور حکام سے سوال یہ ہے کہ پندرہ لاکھ کی اس آبادی کا کیا قصور ہے؟ آخر انہیں کس وجہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ سڑکوں‘ بجلی‘ گیس اور ڈسپنسری اور ہسپتال سمیت کون سی ایسی بنیادی سہولت ہے جس سے ان علاقوں کو محروم نہیں رکھا جا رہا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہیلتھ کارڈ کی شاندار سہولت کی آڑ میں بھی کرپشن مافیا سرگرم ہو چکا ہے اور من پسند ہسپتالوں کی رجسٹریشن کے ذریعے اپنا مال سائیڈ پر کیا جا رہا ہے؟ میں کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتا اور نہ ہی بے جا کسی پر شک کر رہا ہوں بلکہ سادہ سا سوال ہے کہ اتنی بڑی غلطی کیسے کی جا سکتی ہے کہ قصور کے دو بڑے تھانوں کی حدود‘ جن میں پندرہ لاکھ سے زائد نفوس رہ رہے ہیں‘ صحت کارڈ کیلئے مختص کیے جانے والے ہسپتالوں میں اس علاقے کا کوئی ہسپتال ہی شامل نہیں کیا گیا۔ میں اپنے کالم میں کھڈیاں اور عثمان والا کے اچھے اور تمام سہولتوں سے آراستہ کسی ہسپتال کا نام لکھوں‘ یہ قطعی منا سب نہیں ہو گا۔ اس کا فیصلہ متعلقہ حکام کو کرنا ہو گا اور اس کیلئے بہتر طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ حکام خود سروے کرکے دیکھ لیں اور پھر جسے وہ منا سب سمجھیں‘ قریبی علاقوں کے ان ہسپتالوں کا نام صحت کارڈ کی منظور شدہ فہرست میں شامل کر دیں۔ میری درخواست یہ بھی ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک علاقے تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہر علاقے‘ ہر ضلع‘ ہر تحصیل کے حوالے سے یہی اصول ہونا چاہیے کہ پانچ سے دس لاکھ تک کی آبادی کے لیے کوئی بھی نزدیکی ہسپتال پانچ سے دس کلو میٹر سے زیادہ فاصلے پر نہ ہو۔
ہیلتھ کارڈ تو ایک ہیلتھ انشورنس کا معاملہ ہے‘ دیکھا جائے تو عام حالات میں بھی ہر حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کو ان کے قریب ترین علا قوں اور جگہوں میں صحت کی بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کرے۔ البتہ ہیلتھ کارڈ دس لاکھ روپے تک کے علاج معالجے کی وہ سہولت ہے جو آج تک پاکستان ہی نہیں بلکہ اردگرد کے ممالک میں بھی کسی کو دستیاب نہیں۔ اگر یہ منصوبہ اور احساس صحیح معنوں میں کرپشن اور اقربا پروری جیسی لعنتوں سے بچا رہا تو اس سے پہنچنے والے فوائد اور آسانیوں کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ تو وہ سایہ دار شجر ہو گا جس کے سائے میں ہر کوئی آرام اور سکون کی دولت سمیٹے گا۔ تحریک انصاف کیلئے ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا نرم گوشہ ثابت ہو جو اسے دوبارہ اس کے ووٹرز کی حمایت دلا دے۔
پسِ نوشت: لیاقت باغ راولپنڈی کے دروازے سے ملحقہ کونے‘ جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت ہے‘ کو کسی ٹرک کی ٹکر نے نقصان پہنچا دیا تھا، جیسے ہی پتا چلا‘ صوبائی وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان موقع پر پہنچے اور متعلقہ عملے کو فوری طور پر اس کی مرمت کا حکم دیا۔ اگلی صبح اپنی نگرانی میں انہوں نے اس کو پہنچنے والے نقصان کو درست کرا کے احساس اور رواداری کی بہترین مثال قائم کی۔ اس عمل سے یقینا صوبہ سندھ سمیت پی پی کی قیادت اور کارکنوں کے جذبات کو ٹھنڈک پہنچی ہو گی۔ بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سیاست کی گرما گرمی ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے اور توہین آمیز ذومعنی فقروں کا استعمال بن چکی ہے۔ پارٹی کے بڑے صرف اُسے اپنا مقرر اور ترجمان سمجھتے ہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے مخالف محفوظ نہ رہیں۔ مقامِ شکر ہے کے ایسے قبیح اور کریہہ ماحول میں پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات کے اس اقدام سے باہمی رواداری اور احترامِ انسانیت کی ایک کرن روشنی بن کر پھوٹی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں