ابوظہبی سے پاکستانی انجینئر اسد رشید نے چند تصاویر بھجوائی ہیں۔ ان تصاویر میں ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں ہنزہ کی دلفریب اور حسین وادیوں میں آئس ہاکی کا میچ کھیلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ تصاویر کیا ہیں‘ پاکستان کا وہ روشن چہرہ ہیں‘جسے دیکھنے کی ہم سب حسرت لیے ہوئے ہیں۔ یہ ایسے مناظر تھے جنہوں نے مجھے چونکا کر رکھ دیا کہ ایسے وقت میں‘ جب وطن عزیز کو دہشت گردی کے سائے میں لپیٹ کر دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور سیا حوں کی پاکستان آمد کو روکنے کیلئے دشمن اور حاسدین ہر ممکن جتن کر رہے ہیں‘ ان تصاویر سے وہ بند دروازے کھلنے کی امیدیں بندھ گئی ہیں‘ جو گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بند ہیں۔ جب یورپ ا ور امریکا سمیت جاپان اور دیگر ممالک کے شہریوں کو جان کا خوف دلاتے ہوئے پاکستان نہ جانے کے مشورے دیے جا رہے ہوں تو اس جھوٹ اور پروپیگنڈے کی دھول اس میچ کے سبب دور ہو جاتی ہے جس میں کینیڈین ہائی کمشنر نے میچ کی نگرانی کرتے ہوئے بطور ریفری فرائض سرانجام دیے۔ یہ یقینا بین الاقوامی میڈیا کے جھوٹ پر مبنی چہروں پر ایک زبردست طمانچہ ہے جو ڈر اور خوف کی کہانیاں سناسنا کر غیر ملکی سیاحوں کے پاکستان کے حسین ترین شمالی علاقوں کی جانب بڑھنے والے قدموں کو روکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
ان تصاویر میں قابلِ احترام کینیڈین ہائی کمشنر Wendy Gilmour کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ اور خوشی ہر قسم کے خطرات سے بے نیاز دکھائی دیتی ہے۔ عطا آباد جھیل کے پاس‘ جہاں آئس ہاکی کا میچ منعقد ہوا‘ میدان کے اردگرد گلگت اورہنزہ کے مردو خواتین اور بچوں کی ایک کثیر تعداد میچ سے محظوظ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ محض چند تصاویر نہیں ہیں بلکہ پاکستان کا وہ پُر امن روشن چہرہ ہیں جنہیں اگر ہمارے سفارت خانے اور ان سے متعلقہ ادارے دنیا بھر کے ممالک اور عوام تک پہنچانے کی ذرا سی بھی کوشش کر تے تو پاکستان کے چہرے پر ہمارے دشمنوں کی جانب سے پھینکی جانے والی دہشت گردی کی گرد دھل جاتی۔ ہمیں چاہئے کہ ہر وقت اپنے سروں کو پیٹنے کے بجائے انہیں اچھی طرح جھٹکیں تاکہ ہماری بند آنکھیں کھل جائیں‘ ہمارے ذہنوں پر لگے ہوئے وہ زنگ آلود تالے کھل جائیں جس سے ہم اپنے دشمن کو پہچاننے میں غلطی پر غلطی کیے جا رہے ہیں۔ اسے بد قسمتی کہہ لیجئے کہ ہم اپنے ہی گھر میں لگائی جانے والی آگ کے شعلوں کو رقص کرتا دیکھ کر اسی سے محظوظ ہو رہے ہیں۔
چند روز قبل ہنزہ میں منعقد ہوئے اس آئس ہاکی میچ کی یہ خبر اور تصاویر ہمارے اپنے ملک میں بھی کتنے لوگوں تک پہنچی ہیں؟ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس کا اسی طرح چرچا نہ ہو رہا ہوتا جیسا مری کے بھیانک سانحہ کا کیا جا رہا ہے۔ ہنزہ سے وطن عزیز کے چہرے پر اطمینان اور امن کی روشنی میں چمکتی دمکتی یہ تصویر نجانے ہمارے ٹاک شوز میں تبصروں اور تجزیوں کی صورت میں کیوں دکھائی نہیں دی۔ اسے بے خبری سمجھیں یا لاپروائی‘ اس کوتاہی میں تمام سرکاری ادارے برابرکے ذمہ دار سمجھے جائیں گے جنہوں نے اپنے ہی وطن کا‘ اپنی ہی دھرتی کا حقیقی پُرامن ا چہرہ دکھانے کیلئے اس ایونٹ کو رتی بھر بھی وقعت دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اسے ہمارے معاشرے یا حکومت کی بے حسی ہی کہا جائے گا کیونکہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ملک کے دور دراز‘ کسی چھوٹے سے علا قے‘ کسی گائوں میں کسی فرد کی بے حسی یا سفاکی کا کوئی واقعہ پیش آ جائے تو سوشل میڈیا سے لے کر مغربی میڈیا تک‘ کئی کئی دن تک اس واقعے کو نمک مرچ لگا کر دنیا بھر کے سامنے اس طرح پورٹریٹ کیا جاتا ہے جیسے پاکستان میں ایسے واقعات ایک معمول کا درجہ رکھتے ہیں اور ایسا معاشرہ دنیا میں اور کوئی ہے ہی نہیں۔ یہ فقط ایک چسکا ہے یا بے خبری یا شاید اس ملکِ خداداد سے ان کا کوئی بیر کہ کسی بھی قابلِ مذمت واقعے کو بڑے فخر اور خوشی سے دنیا بھر کو دکھانے کیلئے اپنے منہ پر کالک مل کی جاتی ہے اور سب اس ریس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری طرف اپنے دشمنوں کو دیکھئے کہ جیسے ہی ہنزہ کی یہ تصاویر ان تک پہنچیں تو ان کی حالت یہ ہو گئی کہ جیسے سانپ سونگھ گیاہو۔ کینیڈا جیسے بڑے اور دنیا کے ہر خطے کی کثیر تعداد کو اپنے اندر سنبھالے ہوئے ملک میں جب پاکستان میں تعینات ان کی ہائی کمشنرکی تصاویر اور وڈیوز پہنچی ہوں گی جس میں وہ ہنزہ میں ہونے والے لڑکیوں کے آئس ہاکی میچ میں ایمپائر کے فرائض انجام دیتی دیکھی جائیں گی تو یقینا کینیڈا کے لوگوں کے دلوں میں بھی پاکستان کے دلفریب اور حسین و جمیل نظارے دیکھنے کی خواہش ابھرے گی اور یہ سلسلہ اگرچل نکلا تو پھر اسے روکنا مشکل ہو جائے گا اور دنیا بھر سے لوگ پاکستان کا رخ کرنے لگیں گے۔ دشمن یہی بات برداشت نہ کر سکااور اس نے ان تصاویر کے سامنے آنے کے اگلے ہی دن اسلام آباد‘ جہاں دنیا بھر کا سفارتی عملہ اور میڈیا موجود ہے‘ میں پولیس پر دہشت گردانہ حملہ کروا کر ہنزہ آئس ہاکی میچ سے ابھرنے والے روشن پاکستان تاثر کوداغدار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ یہاں مت آیئے۔
ملک بھر میں دہشت گردی کی حالیہ لہر ہمارے دشمن کی پاکستان کے مثبت چہرے کو داغدار کرنے کی سازشیں ہیں۔ یہ حملے ہنزہ اور چند دنوں بعد ملک میں ہونے والے پی ایس ایل کے خلاف سازشوں کا منظم سلسلہ ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ صرف دہشت گردی نہیں بلکہ ایک کھلی جنگ ہے جس کا بھارت نے آغاز کر دیا ہے۔ اسلام آباد پولیس کے بعد بڈھ بیر میں پولیس فورس پر دستی بم حملہ ہوا اور پھر لاہور میں نئی انار کلی میں بم دھماکا کرا کر اس دشمن نے پاکستان کے پُرامن ماحول کو ایک بار پھر دہشت گردی میں رنگنا شروع کر دیا ہے۔ اسلام آباد اور بڈھ بیر‘ جسے سرد جنگ کے دوران اس وقت خاصی شہرت ملی تھی جب امریکا نے U2 جاسوس طیارہ یہاں سے اڑا کر سوویت یونین کی جاسوسی کی تھی‘کے بعد لاہور جیسے شہر کا انتخاب دشمن کی گھنائونی پلاننگ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستا ن میں کالعدم ٹی ٹی پی ‘ اس سے علیحدہ ہونے والے گروپوں اور کچھ نئے لوگوں کی مدد سے دہشت گردی کا ایک نیا محاذ کھولا جا رہا ہے۔ ہم جیسے لوگ نجانے کب سے اس انتظار میں ہیں کہ دشمن کو اس کی سازشوں اور پاکستان کا امن خراب کرنے کی مذموم کوششوں کا منہ توڑ جوابدیا جائے کیونکہ یہ لہر اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک بھارت کو اس حوالے سے واضح پیغام نہیں دیا جاتا۔بھارت کے معاملے میں ایک بات اب تک واضح ہو چکی ہے کہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں‘ باتوں سے ماننے کے نہیں۔
گزشہ ماہ پاک افغان سرحد پرلگائی جانے والی باڑ کو طالبان کے نام سے وہاں موجود ایک گروہ کی جانب سے اسلحہ کے زور پر زبردستی بلڈوز کرنے کی وڈیوز سامنے آئی تھیں۔ اگر ان وڈیوز کو توجہ اور غور سے دیکھیں تو ان لوگوں کا لہجہ اور نفرت صاف بتا رہی تھی کہ ان کے دلوں اور ذہنوں میں پاکستان کے خلاف نفرت بھری گئی ہے۔ گزشتہ بائیس برسوں سے افغانستان کے کمیونسٹ عنا صر‘ جوبھارت کی بی ٹیم کے نام سے پکارے جاتے تھے‘ پاک افغان سرحدوں سے ملحقہ علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھے رہے اور یہیں سے سوات، بلوچستا ن اور وزیرستان جیسے علاقوں میں بھارتی اسلحہ اور دیگر امداد مہیا کی جاتی رہی۔ جس وقت باڑ کو نقصان پہنچایا جا رہا تھا‘ اس و قت پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے جس صبر و تحمل اور بہترین کمانڈ کا مظاہرہ کیا‘ وہ یقینا قابلِ تعریف ہے۔ وگرنہ اس موقع پر پیدا ہونے والی بدمزگی سے دشمن نے وہ فائدہ اٹھانا تھا جس کا ازالہ کرتے کرتے نجانے کتنا عرصہ بیت جاتا۔ جب کوئی ملکی سیاستدان یہ کہے کہ دنیا میں بائیڈن اور نریندر مودی کے علا وہ کوئی عالمی لیڈر نہیں تو ایسے بیانات پر سر پیٹنے کے بجائے سر کو زور سے جھٹکئے تاکہ دشمن اور اس کے ہمدردوں کے چہروں کو پہچان پائیں۔