''ایک غلط نظام میں درست حاکم کا ہونا بے معنی سی بات ہے ‘‘۔سوشل میڈیا پر وائرل تصویر میں ایک لوڈر رکشے کے عقب میں لکھا گیا یہ فقرہ اپنے اندر اس قدر مطلب لیے ہوئے ہے کہ اس سے ملک میں جاری پارلیمانی یا صدارتی نظام حکومت کے تصور کی بحث سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ اس ملک میں گورنر جنرل سے صدر اور اب وزیر اعظم تک کے تجربات سات دہائیوں سے بھگتے جا رہے ہیں لیکن کرپشن، اقربا پروری اور ظلم و جبر کی رفتار میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ قانون و انصاف کے ایوان ہوں یا کسی ادنیٰ اور اعلیٰ سرکاری افسر کا دفتر‘ ہر کوئی ان سے شاکی ہے۔ ملکی تعمیرات اور ترقیاتی منصوبے کہیں کاغذوں میں تو کہیں دھول ملی مٹی اور بجری کی نذر ہو گئے۔ نہ تو صحت عامہ کیلئے پُر سکون ماحول ملا اور نہ ہی زیورِ تعلیم کیلئے اچھے اور سنجیدہ اساتذہ۔ کسی بھی طرز کا ادارہ ہو‘اس افسر شاہی کلچر نے ہر ایک کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ ریلویز‘ پی آئی اے اور سٹیل مل ہمارے خزانوں کو چاٹ کر بھی سیر نہ ہو سکیں، پولیس سٹیشن اور مفادِ عامہ کیلئے بنائے گئے تمام ادارے عوام کی کھال کھینچنے میں ایک دوسرے سے بازی لیے جا رہے ہیں۔ انہیں نہ تو نیم صدارتی نظام نکیل ڈال سکا اور نہ ہی پارلیمانی طرزِ حکومت بلکہ موخر الذکر نے تو بددیانتی‘ اقربا پروری‘ سفارش اور کرپشن کی تمام حدیں پار کر لی ہیں۔ اس وقت ملک میں جاری نظامِ حکومت کی بحث میں ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ عوام پارلیمانی طرزِ حکمرانی سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسے دیکھ دیکھ کرلوگوں کا دل بھر گیا ہو۔
امریکا میں شروع سے ہی صدارتی طرزِ حکومت چلا آ رہا ہے۔ اس پر بھی تقریباً 200 برس پہلے آر کونائل نے لکھا تھا کہ میری سب سے بڑی شکایت امریکا میں رائج جمہوری حکومت کے اطوار ہیں کیونکہ یہ اس طرح تشکیل نہیں دی گئی جس طرح یورپی دیتے ہیں۔ اس کی کمزوری اس کی بے پناہ طاقت ہے۔ تھامس جیفرسن نے بھی اسی طرح کی آواز سن کر کہا تھا '' ہماری حکومت میں ایگزیکٹو بلا شرکت غیرے نہیں ہے‘ وہ تو محض پرنسپل ہیں اور یہ میرے حسد کا ہدف ہے کہ مقننہ کی خاصیت آج اور آئندہ کئی برسوں کیلئے خوفناک ڈر بن کر رہے گی‘ پھر ایگزیکٹو کی باری آئے گی لیکن یہ کافی دور وقتوں کی بات ہے‘‘۔( آج دیکھ لیجئے امریکی سینیٹ‘ کانگریس نے امریکا پر اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں)۔ 4 جولائی1961 کو امریکی صدر آئزن ہاور نے اپنے الوداعی خطاب میں جو کہا تھا‘ وہ بھی آج توجہ کا مرکز بن چکاہے۔ انہوں نے کہا تھا '' حکومت کی کونسل میں ہمیں بلا اختیار اثر کے معمولی مفادات‘ چاہے وہ عسکری، صنعتی کمپلیکس سے حاصل ہوں یا نہ ہوں‘ ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ ان میں غلط طاقت کو ابھارنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ہمیں اس امتزاج کے وزن کو کبھی نہیں چھوڑناچاہئے ورنہ یہ ہماری آزادی اور جمہوری طریق کار کیلئے خطرہ ہو گا‘‘۔ آج امریکا اسی غلطی کی سزا کی طرف آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا ہے۔
پاکستان میں '' کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘‘ جیسے نعروں کے بل پراگر انتخابات جیتے جانے لگیں تو سمجھ لیں کہ یہاں کوئی بھی طرزِ حکومت چل سکتی ہے۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ اس سے عوام کی سوچ‘ سمجھ بھی اسی طرح کی ہوتی جارہی ہے جو اس قسم کے نعروں کے سبب سے پیدا ہو تی ہے۔ یہی قوموں کی اصل بدقسمتی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ''نئے پاکستان‘‘ اور ''تبدیلی‘‘ کا نعرہ بھی فلاپ ہو گیا کیونکہ اس کے اثرات بھی اچھے نہیں آئے۔ نہ تو کرپشن میں کمی ہوئی اور نہ ہی طرزِ حکومت میں بہتری دیکھی گئی۔ ہمارے ساتھ المیہ یہ رہا کہ ہمیشہ شخصیات کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے ووٹ دیتے رہے۔ اس کی مثال اس طرح لیجئے کہ بل کلنٹن جب 1992ء میں امریکی صدارت کیلئے امیدوار بنے تو انہوں نے اپنی جماعت ''ڈیموکریٹس‘‘ کے منشور میں یہ بات شامل کرا دی کہ وہ ہم جنس پرستی پر عائد پابندیاں ختم کر تے ہوئے ایسے لوگوں کو ہر قسم کی مراعات دیں گے اورانہیں حکومت کے ہر شعبے بشمول فوج میں کسی قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس وقت امریکہ میں ایسے لوگوں کی تعداد محض8 فیصد تھی۔ ایسے تمام لوگوں نے کلنٹن کے حق میں ووٹ دیے اور اس طرح کلنٹن کو جارج بش کے والد جارج بش (سینئر) کے خلاف 3 فیصد زائد ووٹوں سے کامیابی مل گئی۔ اس طرح امریکا کا صدر جمہوریت کے نام پر نہیں بلکہ ایک قبیح اور گھٹیا ترین فعل کو قبول کر کے منتخب ہوا۔ شروع میں امریکا ایک محل سے بھی زیادہ حسین متصور ہوا کرتا تھا۔ اس نے شائستہ تہذیب اور اقدار کے تصورات پیش کیے۔ کبھی امریکا اپنے مثالی تصورات کی وجہ سے دنیا کا خیالی پیکر تھا۔ آج اس کا امیج بیرونی ممالک سے تنازعات اور جگہ جگہ عسکری مہمات کی وجہ سے ماند پڑ چکا ہے۔ ماضی میں کچھ ممالک امریکا سے خفا تھے‘ کچھ امریکہ کو ناپسند کرتے تھے اور کچھ امریکہ سے نفرت کرتے تھے لیکن تقریباً سارے اس کا احترام کرتے تھے مگر آج ایسا نہیں ہے۔ آج امریکہ قابض کا تعاقب نہیں کرتا بلکہ خود قبضہ کرنے کی دھن میں مگن رہتا ہے۔ امریکی صدارتی نظام کا پوسٹ مارٹم کریں تو آج کے جدید امریکا کے لیڈران ان سے بہت کم تر دکھائی دیتے ہیں جو امریکہ کو معرضِ وجود میں لے کر آئے۔ اس وقت جب امریکہ دوسروں کے طوق سے اپنے لوگوں کو آزاد کرنے کی جدو جہد میں مصروفِ عمل تھا اور دنیا میں ایک نئی قوم کی تخلیق کا سوال درپیش تھا تو ملک کی قیادت کرنے کیلئے غیر معمولی صلاحیتوں کے لوگ آگے بڑھے۔ ان میں جارج واشنگٹن‘ جان ایڈمز اور تھامس جیفرسن قابلِ ذکر ہیں۔
ہمارے ہاں پارلیمانی طرزِحکومت کے ذریعے اس ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کے نام پر جو ڈرافٹ تیار کر کے دیا‘ اس میں غیر تحریری اورزبانی طور پر سب سے پوشیدہ اٹھارہویں ترمیم کا وہ نشتر تھا جسے اس ملک کے بد ن میں باہمی طاقت کے ذریعے چبھویا گیا اور مسلسل اس ترمیم کے ذریعے وفاق کو گھائو لگائے جا رہے ہیں۔ اس نے وفاق کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ بمشکل وہ اپنے کمزورسے ڈھانچے کو سنبھالے کھڑا ہے۔ اب نہ توکسی کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہو گی اور نہ ہی اس ترمیم سے وفاق کے جسم کو چبھنے والی زہریلی سوئیاں نکالی جا سکیں گی۔ گزشتہ پچاس برسوں سے رائج پارلیمانی نظامِ حکومت نے صوبوں کو مالی اور انتظامی خود مختاری تو دی لیکن اس کا استعمال جس طرح کیا جا رہا ہے‘ وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ سندھ میں گرین لائن منصوبہ ہو یا بنڈال جزیرے کا معاملہ‘ اس کا فائدہ اس صوبے کی عوام کو پہنچے گا نہ کہ مرکز میں بیٹھے کسی ایک جماعت یا لیڈر کو؟ اگر بنڈال جزیرہ آباد ہوتا ہے‘ دنیا سے بڑے بڑے سرمایہ کار وہاں تعمیرات کیلئے آنے لگتے ہیں تو اس سے ظاہر ہے کہ بیروزگاری ہی کم ہو گی۔ صرف عمارتوں کی تعمیر کرنے والے راج مزدور ہی نہیں‘ بلکہ انجینئرنگ سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس سے روزگار ملے گا اور ملک بھر میں پھیلے صنعتی یونٹ دن رات کام کریں گے لیکن اٹھارہویں ترمیم کی آڑ لیتے ہوئے ملکی معیشت کی بہتری کی جانب بڑھنے والے قدم روکے جا رہے ہیں۔
پارلیمانی یا صدارتی طرزِحکومت‘ کسی میں بھی برائی نہیں۔ ان میں فرق صرف کارکردگی اور نیت کا ہے‘ جس کیلئے وہ کہانی یاد آ رہی ہے کہ جس میں بادشاہ کیلئے ''سونے کی نظر نہ آنے والے‘‘ تاروں کا شاہی لباس تیار کیا گیا مگر یہ تار اس قدر باریک تھے کہ دکھائی ہی نہیں دیتے تھے۔ ظاہر ہے کہ دکھائی نہ دینے والے تاروں سے بنایا جانے والا لباس بھی کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کے باوجود بادشاہ کی خوشنودی کیلئے ساری خلقت اس کی تعریف کیے جا رہی تھی سوائے اس ننھے بچے کے جس نے بلند آواز سے کہہ دیا'' بادشاہ تو ننگا ہے‘‘۔ طرزِ حکومت صدارتی ہو یا پارلیمانی‘ جب عوام حکومتی نا اہلیوں کے سبب اپنی زندگیوں سے تنگ آکر بھوک سے بلکتے ننھے بچوں کی طرح چیخیں گے تو بھرم کسی بھی نظام کا نہیں رہے گا۔