وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورۂ چین‘ سی پیک کے نئے منصوبوں کی منظوری اور پہلے سے جاری پروجیکٹس میں توسیع کے معاہدوں کی سن گن پا کر بیرونی طاقتوں آگ بگولہ ہو چکی ہیں۔ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر سے پہلے بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں منظم طریقوں سے دہشت گردی کو پھر سے پروان چڑھایا جانا غمازی کر رہا ہے کہ ان حملوں اور دوسرے ہتھکنڈوں کے ذریعے ملکی قیادت کو ایک بار پھر دبائو میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں اور ہمارے جوانوں کی شہادتوں پر بھارت میں بپا جشن میں رونق بھرنے کیلئے انڈین آرمی چیف کا وہ بڑھک نما بیان قابلِ مذمت ہے کہ ''بھارت کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی درخواست کی تھی‘‘۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ پاکستان نے یہ معاہدہ صرف اس وجہ سے کیا کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کشمیری مسلمان آباد ہیں اور بھارت کو کشمیریوں کا خون بہنے پہ کیا فکر ہو سکتی ہے‘ کشمیریوں کے تحفظ اور ان کے جان و مال کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے سیز فائز کا معاہدہ قبول کیا جسے بزدلی سے تعبیر کر کے بھارت فوج کے سربراہ نے اپنی گھٹیا سوچ کی پہچان کرا دی ہے۔
پانچ فروری کو لاہور میں ہونے والی ایک ملاقات سے بھی کافی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں جو میرے نزدیک چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے والی باتیں ہیں۔ لاہور ماڈل ٹائون میں میاں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر آصف علی زرداری کی معیت میں بلاول بھٹو کی آمد اور وہاں مریم نواز اور حمزہ شہباز کی موجودگی میں ہونے والی ملاقات کے حوالے سے یہ نکتہ نوٹ کر لیجئے کہ یہ ملاقات میاں نواز شریف کی منظوری سے ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق‘ وہ جان چکے ہیں کہ ان کا کیس کمزور ہو چکا ہے‘ رانا شمیم پر فردِ جرم عائد ہونے اور اس کے بعد ڈاکٹر فیاض شال کی میاں صاحب کی صحت سے متعلق عجیب و غریب رائے کی وجہ سے اب اکتوبر 2023ء سے پہلے کسی بڑی سیاسی تبدیلی کے آثار دم توڑ چکے ہیں۔ دوسری جانب حسین نواز نے ایک چینل سے گفتگو میں جس طرح نون لیگ اور میاں صاحب کے بیانیے کی دھجیاں اڑائی ہیں‘ وہ معاملہ بھی خاصا دلچسپ بن چکا ہے۔ حسین نواز کے اس بیان کے بعد کہ فیکٹری دورے کی میاں صاحب کی وڈیو چند ماہ پرانی ہے‘ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر میاں صاحب چند ماہ پہلے گھنٹوں طویل سفر کے قابل تھے‘ تو انہوں نے پاکستان آنا ضروری کیوں نہیں سمجھا؟ حالانکہ اس وقت تو پاکستان میں ان کی جماعت کے لیڈران آئے روز ان کے واپس آنے کی تاریخیں دے رہے تھے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ بیرونی طاقتیں‘ جنہوں نے دونوں بڑی جماعتوں کے مابین لندن میں رحمن ملک کی رہائش گاہ پر میثاق جمہوریت کا معاہدہ کرایا تھا اور جس کی تصدیق کونڈا لیزا رائس اپنی کتاب میں بھی کر چکی ہیں‘ ایک بار پھر فعال ہو چکی ہیں اور ان کی جانب سے اشارہ مل چکا ہے کہ سلسلہ وہیں سے شروع کر دو جہاں سے ٹوٹا تھا یعنی پہلے پیپلز پارٹی‘ پھر نون لیگ‘ پھر پی پی اور پھر نون لیگ۔ قصہ مختصر‘ 1990ء کی دہائی کی سیاست کو لوٹانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، سوائے اس کے کہ پنجاب نون لیگ کے پاس اور سندھ پیپلز پارٹی کے پاس رہے گا۔ اے این پی کو پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ایف) کے ہمراہ کے پی حکومت میں شامل کیا جائے گا جبکہ بلوچستان میں‘ ہمیشہ کی طرح‘ سب کا حصہ ہو گا۔ میاں شہباز شریف کچھ حلقوں سے جو امیدیں یا توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے‘ جس پر انہیں کچھ اشارے بھی ملے تھے‘ وہ پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں کیونکہ وزیراعظم عمران خان اس راہ میں ایک دیوار بن کر کھڑے ہو چکے ہیں۔ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ حکومت کو بے بس کر کے نوازشریف کے لندن جانے والا کھیل پھر سے کھیلا جائے۔ یہ ہے دو بڑی سیاسی فیملیوں کی ملاقات کی اصل کہانی! شنید ہے کہ زرداری صاحب اس وقت کراچی سے لاہورکیلئے اڑان بھرنے پر تیار ہوئے تھے جب لندن اور ایک دوسرے مقام سے ان کو یہ کہتے ہوئے اشارہ دیا گیا کہ ایک مرتبہ پھر میثاقِ جمہوریت کا آغاز کیجئے۔
14 مئی 2006ء کو لندن میں محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے باہمی دستخطوں سے طے پانے والے میثاق جمہوریت پر عمل درآمد کا حقیقی آغاز 2016ء سے ہوا اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ 2008ء سے 2016ء‘ آٹھ سال تک دونوں جماعتیں اور ان کے مددگار میثاق جمہوریت کے ثمرات سے دل کھول کر مستفید ہوئے۔ اس میثاق جمہوریت کی جس شق پر فوری عمل کیا گیا‘ وہ تین مرتبہ وزیراعظم بننے پر عائد پابندی کا قانون تھا جس کو مشترکہ طور پر منسوخ کر دیا گیا۔ معاہدے کی ایک شق یہ بھی تھی کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو مکمل آزادی دی جائے گی لیکن عملاً کیا ہوا‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس پورے معاہدے میں جمہوریت کا صرف نام استعمال کیا گیا اور جمہوریت کی آڑ میں اداروں کو بے دست و پا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے خاتمے کی سفارش کے علاوہ یہ بھی طے پایا تھا کہ ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کی سربراہی منتخب حکومت کے پاس ہونی چاہیے اور ملک کے جوہری اثاثوں کا ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کے تحت مؤثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تشکیل دیا جائے گا تاکہ مستقبل میں جوہری رازوں کی چوری کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔ یعنی اہم ملکی دفاع کے معاملات کا معاملہ حکومت کو سونپ کر اسے سیاستدانوں کے ماتحت کیا جانا تھا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کی شق 32-D کے تحت تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کمان بھی فوج سے واپس لے کر منتخب حکومت کے ماتحت کرنے کا متفقہ فیصلہ ہوا تھا۔ جب 2008ء کے بعد اس شق پر عملدرآمد کا وقت آیا تو عوام پر یہ منصوبہ آشکار ہوا جس پر ملک بھر میں ایک طوفان مچ گیا لہٰذا صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے حکم پر اس شق پر عملدرآمد کو معطل کر دیا گیا۔ اس معاہدے میں دونوں جماعتوں کی جانب سے عہد کیا گیا ہے کہ انٹیلی جنس کی تمام رپورٹس فوج کے سربراہ کو نہیں بلکہ سب سے پہلے وزارتِ دفاع اور کیبنٹ ڈویژن کو فراہم کی جائیں گی اور وہ اگر مناسب سمجھیں گے تو ان اطلاعات کو فوج کی فارمیشنز تک پہنچایا جائے گا اور ان رپورٹس میں دی جانے والی اطلاعات کی روک تھام یا کارروائی وزیراعظم کے حکم سے ہو گی۔ میثاق جمہوریت کی ایک شق کے مطابق دفاع کا مکمل سالانہ بجٹ اب پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جائے گا اور وہ اس کی ایک ایک شق دیکھ کر منظوری دیا کرے گی۔ اب چونکہ پھر سے میثاق جمہوریت کا اعادہ کیا جا رہا ہے تو شنید ہے کہ حالات سازگار ہونے پر مذکورہ شقوں پر مکمل عمل ہو گا۔ اس چارٹرکی شق 26 میں دنیا بھر کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان اور اطراف میں دہشت گردی نے پاکستان کی آمرانہ حکومتوں سے جنم لیا جس کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کو بھی نقصان پہنچا‘ لہٰذا دونوں جماعتیں یہ عہد کرتی ہیں کہ بھارت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کرتے ہوئے کشمیر، سیاچن، پانی اور سر کریک جیسے دیرینہ مسئلوں کو رکاوٹ نہیں بنائیں گی۔ اگر کسی کو شک ہے تو میثاق جمہوریت کی اس شق کو سامنے رکھتے ہوئے ایمانداری سے فیصلہ کرے کہ یہ وہی الفاظ نہیں ہیں جو نیوز لیکس میں ڈکٹیٹ کرائے گئے تھے؟ اسی طرح وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے بعد دیا جانے والا وہ خصوصی انٹرویو یاد کریں جس کا تراشہ اگلے ہی دن عالمی عدالت میں زیر سماعت کلبھوشن یادیو کیس میں بھارتی وکلا کے ہاتھوں میں تھا اور جس کی بنیاد پر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی تھی۔
میثاقِ جمہوریت کی شق 31 پر نظر ڈالیں تو بے سا ختہ قہقہے لگانے کو دل کرتا ہے۔ اس کے مطابق دونوں جماعتیں عہد کرتی ہیں کہ عام انتخابات کیلئے غیر جانبدار نگران حکومتیں تشکیل دی جائیں گی جس کے ارکان کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ سب نے دیکھا کہ اس دوران کون سی اور کس قسم کی 'غیر جانبدار‘ نگران حکومتیں تھیں۔ کاش کہ اس میثاق جمہوریت میں یہ بھی لکھ دیتے کہ نگران حکومت کے اہلکاروں اور ان کے وزرائے اعلیٰ کو انتخابات کے بعد دونوں جماعتیں کوئی بھی حکومتی منصب یا کسی ادارے کے چیئرمین جیسا نفع بخش عہدہ نہیں دیں گی۔