"MABC" (space) message & send to 7575

ایک نہتی لڑکی اور مسلم ورلڈ

کرناٹک کے ایک تعلیمی ادارے میں حجاب اوڑھے طالبہ پر انتہا پسند نوجوانوں نے جس طرح آوازے کسے اور جس طرح اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی‘ اس کی پوری دنیا میں مذمت کی جا رہی ہے۔ اس واقعے کی وڈیو اس قدر وائرل ہو چکی ہے کہ مسکان خان نامی اس مسلم لڑکی کا ہر گھر میں ذکر ہو رہا ہے۔ ایک طرف انتہاپسندوں کا ٹولہ تھا تو دوسری طرف مسکان کے کالج کے ہندو پرنسپل اور کچھ اساتذہ‘ جن کا طرزِ عمل یقینا قابل تعریف ہے۔ انہوں نے نہ صرف ان بدمعاشوں کو مسکان کے قریب آنے سے روکا بلکہ مسکان کو بحفاظت کالج میں داخل کیا اور اس کی پریزنٹیشن قبول کی۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر جس انداز اور فخر سے مسکان کی وڈیوز اور تصاویر مختلف نعروں اور ترانوں کی گونج میں شیئر کی جا رہی ہیں‘ اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ لوگ بہت ہی انسان دوست اور مہذب ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بیشتر گفتار کے غازی ہیں‘ کردار کے غازی نجانے کہاں کھو گئے ہیں۔ رہی بات انتہا پسندو ہندوئوں کی‘ تو گزارش ہے کہ لگ بھگ 30 لاکھ بھارتی سعودی عرب، 40 لاکھ متحدہ عرب امارات‘ لاکھوں قطر، کویت، عمان، مصر سمیت دوسرے مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں‘ اگر انہیں حجاب سے اتنا ہی مسئلہ ہے تو ان ممالک میں اپنی آواز بلند کر کے دکھائیں‘ وہاں حجاب میں ملبوس خواتین کی تضحیک کرنے یا انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کی یہ لوگ ہمت بھی نہیں کر سکتے۔ یہی بات میں فرانس‘ جرمنی‘ ہالینڈ اور دوسرے مغربی و یورپی ممالک کے شہریوں سے کہتا ہوں کہ اگر حجاب سے مسئلہ ہے تو لاکھوں یورپین عرب ملکوں میں برسوں سے رہ رہے ہیں‘ ادھر اپنی نفرت کا اظہار کیوں نہیں کرتے؟ سیدھی سے بات ہے کہ ان لوگوں کا مسئلہ حجاب نہیں بلکہ مسلمان ہیں جن کا وجود انہیں اپنے ملک میں گوارا نہیں ہے‘ اسی لیے انہیں حیلے بہانوں سے ستایا جاتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ خلیج کے مسلم ممالک کے کسی ایک بھی شہری یا حکومتی عہدیدار نے کبھی بھارت سے حجاب اور پردہ کرنے والی مسلم خواتین کی تضحیک کرنے یا انہیں تشددکا نشانہ بنانے پر احتجاج نہیں کیا۔ یہ اعزاز بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان اور موجودہ حکومت کو جاتا ہے کہ کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے معاملے پر بھارتی ناظم الامور کو دفترِ خارجہ طلب کر کے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔
وہ ملک نہ تو تہذیب یافتہ کہلا سکتا ہے اور نہ ہی اسے جمہوریت کی الف ب جیسے معیار سے ہی آشنا تسلیم کیا جا سکتا ہے جہاں پبلک مقامات پر کیے جانے والے جلسوں اور ریلیوں میں شریک لوگوں سے مذہبی کتابوں پر یہ حلف لیا جائے کہ وہ ایک مخصوص اقلیت سے کوئی لین دین نہیں کریں گے‘ انہیںاپنے پاس ملازمت نہیں دیں گے‘ ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھیں گے‘ کسی اقلیتی شخص کے ساتھ کوئی کاروبار کریں گے اور نہ ہی ان کی دکان یا کسی بھی ادارے میں ملازمت کریں گے۔ جس معاشرے میں لوگوں سے اقلیتوں کے حوالے سے اس قسم کا حلف لیا جاتا ہو‘ جہاں ان قتل کرنے کی سرعام ترغیب دی جاتی ہو اور اس کے لیے قسمیں کھائی جاتی ہوں‘ بتایئے اس معاشرے کو انسانوں کا معاشرہ کہا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے معاشرے کے لوگ‘ اس انتہاپسندانہ اور نفرت بھری سوچ کے علمبردار اور پیرو کار کسی دوسرے معاشرے کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں؟
آج کے بھارتی معاشرے میں انتہا پسند ہندو مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کو اچھوت اور ناپاک سمجھتے ہیں۔ ان کی بستیوں پر حملے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ انہیں ہر سرکاری نوکری‘ اہم عہدے سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ ان کو انسانی حقوق تو دور‘ بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ کیا یہ معاشرہ دنیا کی بڑی جمہوریت یا انسانی حقوق کے ادنیٰ سے معیار پر بھی پورا اترنے والا معاشرہ کہلا نے کا حق دار ہو سکتا ہے؟ کیا آزاد دنیا کے لوگ ایسے معاشرے کو اپنے اندرگھلنے ملنے کی اجا زت دینا پسند کریں گے؟
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ایک طرف بھارت میں مسلمانوں پر قافیہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے‘ ان کے مذہبی اور دینی شعائر پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور دوسری طرف مسلم ورلڈ اپنے آپس کے اختلافات سے ہی باہر نہیں آ رہی۔ پردے اور حجاب کے حکم کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے والے چار مسلم ممالک ایک جانب ہیں تو دوسرے ممالک دوسری طرف تن کر کھڑے ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہ سب ''حرم کی پاسبانی‘‘ کیلئے اکٹھے ہوتے‘ ایک دوسرے کو للکار کر دنیا کے سامنے تماشا بنے ہوئے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ آپس میں لڑنے والے یہ ممالک مدد کیلئے عیسائی، یہودی اور کمیونسٹ ممالک کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کو نفرت اور حقارت کی نظروں سے دیکھنے والے اژدھے ان سب کی معیشت،علاقائی اہمیت اور رسم ورواج کو ایک ایک کر کے ہڑپ کیے جا رہے ہیں مگر یہ خاموش تماشائی بنے کھڑے ہیں۔ کیا ان سب نے لیبیا، شام، عراق اور افغانستان کا حال نہیں دیکھا؟ کیا لبنان کی معاشی تباہ حالی ان سے ڈھکی چھپی ہے؟ تیونس اور اردن کی بے بسی ان سے پوشیدہ ہے؟ کیا انہوں نے سوڈان اور انڈونیشیا کی لمحوں میں تقسیم کا نظارہ نہیں کیا؟
ایک طرف مسلم دنیا ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہی ہے اور دوسری جانب دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام دشمن گروپ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے تمام وسائل لوٹنے میں مصروف ہے۔ کیوبا میں مسجد کی تعمیر کی اجازت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، انگولا جیسے افریقی ملک نے بھی اسلامی شعائر پر طرح طرح کی پابندیاںعائد کیں، برطانوی وزارتِ داخلہ نے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے پارلیمنٹ سے منظوری کیلئے Anti-social Behaviour Order بل تیار کیا، فرانس میں اسلام کو ''ماڈریٹ‘‘ بنانے پر کام ہو رہا ہے، جمہوریہ چیک نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو اپنے معاشرے کیلئے نا قابل قبول قرار دیا، پولینڈ کی ڈیفنس لیگ نے مسلمانوں کو مذہبی عقائد کی تشہیر پر سخت اقدامات کی وارننگ جاری کی اور اس کی 16 ریاستوں نے اپنے اندر کسی بھی قسم کے شریعہ قانون اور عبادت کو ممنوع قرار دیا، نارتھ کیرولینا نے ہر قسم کی اسلامی تعلیمات پر پابندی عائد کی، ہالینڈ کے ارکانِ پارلیمنٹ پر مشتمل ایک گروپ نے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ملک میں کسی مسجد کا وجود برداشت نہیں کریں گے اور وہ شدت سے مطا لبہ کر رہے ہیں کہ ہالینڈ کی حدود میں واقع تمام مساجد کا صفایا کر دیا جائے۔ آج دنیا کو یہ سوچنا ہو گا کہ 1980ء سے پہلے تو دنیا میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ آج کے اس ترقی یافتہ اور انسانی حقوق کی پاسداری کے دور میں ایسا کیا ہوا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا وجود ہی ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے؟ کیا کسی مذہب اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ اس طرح کا رویہ مناسب ہے؟ اسے تہذیبوں کے تصادم کا نام دیا جائے یا پس منظر میں کوئی اور وجہ تلاش کی جائے‘ حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی بھی مسلم ملک (سوائے پاکستان اور کسی حد تک ترکی کے) نے عالمی فورم پر کھڑے ہو کر اس دہرے معیار پر صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔
دنیا میں اچھے اور برے‘ معتدل اور انتہا پسند‘ غرض ہر طرح کے افراد موجود ہیں۔ جس طرح کرناٹک کے کالج کے ہندو پرنسپل اور دیگر اساتذہ کا عمل اچھے انسانوں سے ناامید نہیں ہوے دیتا‘ اسی طرح امریکا سمیت یورپ میں بھی ایسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو حجاب کو نفرت کا نشانہ بنانے والے مرد و خواتین کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ امریکا سمیت یورپ میں بھی دوسری قوموں اور مذاہب کے خلاف دہشت گردی کے واقعات پیش آئے ہیں اور آ رہے ہیں مگر بھارت کے برعکس وہاں حکمران جماعت اورریاست کی طرف میں ایسے واقعات کی سرپرستی نہیں کی جاتی۔ مسکان خان کی آواز اور اس کا جذبۂ استقامت شاید دنیا بھر میں حجاب کو اپنا شعار بنانے والی مسلم خواتین کو نفرت اور تضحیک سے دیکھنے والوں کی آنکھیں کھولنے کا ایک سبب بن جائے‘ ممکن ہے کہ اس واقعے سے ہی عالمی سطح پر شعور بیدار ہو اور دنیا حجاب والی خواتین کو نفرت آمیز نظروں سے دیکھنے سے گریز کرنے لگے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں