کیچ ‘ پنجگور ‘ نوشکی‘ کرم ایجنسی اور پاک افغان سرحد پر پاک فوج‘ ایف سی اور دیگر سکیورٹی اداروں اور سکیورٹی تنصیبات پر دہشت گردوںنے حملے کرتے ہوئے ہمارے خلاف باقاعدہ ایک جنگی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے ان حملوں میں جس طرح تیزی آئی ہے اس کی کوئی بھی خودمختارریا ست برداشت نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی خود دار قوم کی طرف سے اسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ یہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ یہ سب کچھ کون کروا رہا ہے اورکس کی مدد اور تعاون سے یہ حملے کئے جاتے ہیں ۔نومبر2018ء میں کراچی میں چینی قونصلیٹ جنرل پرکئے جانے والے حملے کی طرح ان حملوں کے دوران بھی پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں نے فون کالز ٹریس کرتے ہوئے یہ معلوم کر لیا ہے کہ ان دہشت گردوں کے ہینڈلر زکون ہیں اور ان کی کمانڈ کون کر رہا تھا اور ان کے کنٹرول سینٹر کہاں ہیں۔
پانچ فروری کوپاکستان میں قومی سطح پر منائے جانے والے یوم کشمیر سے تین روز قبل دشمن نے ہمارے عسکری کیمپوں پر حملے کر کے واضح کیا کہ وہ نہ تو کشمیر پر بات کرنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کے ساتھ امن چاہتا ہے۔ وہ صرف پاکستان کی قومی سلامتی کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ہم دشمن کے ہر وار کا مقابلہ تو کر رہے ہیں لیکن دشمن کی مکاری کا منہ توڑ جواب نہیں دے رہے۔ ہم دنیا کو بھارت کی دہشت گردی کے ثبوت تو پیش کررہے ہیں مگر اس پر عالمی ردعمل یقینی بنانے کے لیے کچھ نہیں کررہے۔ خود کو امن کا داعی ثابت کر کے دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم امن پسند قوم ہیںلیکن یہ نہیں جانتے کہ جن کو بتایا جا رہا ہے وہ تو الٹا ہم پر ہنس رہے ہیں۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت پہلے سے بھی زیا دہ بے خوفی سے ہمارے جانبازوں کو اپنے خونیں پنجوں میںلے رہا ہے‘ جیسے اسے کوئی ڈر اور خوف ہی نہیں ۔نائن الیون ہوا تو امریکہ نے دھمکی دیتے ہوئے اعلان کر دیا کہ وہ اپنے دشمنوں کا ہر جگہ پیچھا کرے گا‘ بھارت میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی خود ساختہ واقعہ ہوا تو اس نے ببانگ دہل اس کا الزام پاکستان پر دھرا اور پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ وہ جہاں چاہے گا پاکستان کے خلاف کارروائی کرے گااور اس نے راولا کوٹ اور ابھینندن کی صورت میں اس کی کوشش بھی کی۔انڈین آرمی چیف کے پاکستان کی سکیورٹی کے خلاف کئی بیانات کو بھی ہم پر بھارتی گوریلوں کے ذریعے پے در پے کرائے گئے حملوں کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔
پاکستان کی مصلحت‘ صبراور اپنے بھائیوں کو دشمن کی گولہ باری سے محفوظ رکھنے کی حکمت عملی کو بھارت اگر بزدلی سمجھتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ایل او سی کے دونوں جانب کشمیری مسلمان ہی رہتے ہیں جن پر آئے روز بھارت کی گولہ باری کے جواب میں پاکستان کی جانب سے بھر پور جواب دینے سے سویلین جان و مال کو ہی تباہی دیکھنا پڑتی تھی۔ اس دہرے نقصان سے بچنے کے لیے گزشتہ برس فروری میں دونوں ملکوں کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کی ہاٹ لائن پر بات چیت کے بعد ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا گیا‘ جسے بھارت اپنی طاقت کا نتیجہ سمجھنے کی غلطی کر رہا ہے ۔گزشتہ برس فروری میں آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ خبر جاری کی گئی تھی کہ پاک بھارت ڈی جی ایم اوز نے ہاٹ لائن رابطے کے قائم کردہ طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا اور لائن آف کنٹرول اور دیگر تمام سیکٹرز کی صورتحال کا آزاد‘اچھے اور خوشگوار ماحول میں جائزہ لیا۔دونوں فریقوں نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی طرح کی غیر متوقع صورتحال اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ہاٹ لائن رابطے کے طریقہ کار اور بارڈر فلیگ میٹنگز کا استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان اور بھارت کی فوج کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ اچھے ماحول میں لائن آف کنٹرول کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ سرحدوں پر پائیدار امن کے لیے ڈی جی ایم اوز نے ایک دوسرے کے خدشات‘ جو پُرتشدد واقعات کا باعث بنتے ہیں‘کو حل کرنے پر اتفاق کیا۔پاکستان اور بھارت نے 24 اور 25 فروری 2021 ء کی درمیانی شب سے ایل اور سی پر سیز فائر برقرار رکھنے کی ہامی بھری ۔ دونوں جانب سے کہاگیا کہ لائن آف کنٹرول کے تمام سیکٹرز پر فائر بندی کے حوالے سے تمام معاہدوں اور سمجھوتوں پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ہاٹ لائن رابطہ برقرار رکھا جائے گا اوربارڈر فلیگ میٹنگز کے ذریعے ہر قسم کی غلط فہمی دور کی جائے گی۔
اس بات چیت اور یقین دہانیوں کے بعدانڈین آرمی چیف کا یہ کہنا کہ پاکستان نے بھارت کی جنگی قوت سے مرعوب ہو کر یہ سمجھوتہ کیا تھا‘ در اصل پاکستان آرمی اور عوام کے مورال کو کمزور کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی ۔ اس بیان کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ بھارتی فوج چاہتی تھی کہ پاکستان کے خلاف بلوچستان ‘ کراچی‘ اسلام آباد اور کے پی کے میںیکے بعد دیگرے دہشت گردی کے جو واقعات شروع کرانے جا رہی ہے‘ پاکستان اس کا جواب دینے کی کوشش نہ کرے۔ اس لیے اس نے یہ بیان جاری کیا ۔ 26/11سے پلوامہ تک بھارت کے اپنے ہی رچائے گئے ڈراموں نے امریکہ ‘برطانیہ اور یورپی یونین کو ہمیں جس طرح تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع دیا ‘ کہ خدا کی پناہ۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اور برطانوی وزیر اعظم خود چل کر بھارت پہنچے اور اور اپنے بیانات اور دھمکیوں کی بارش کئے رکھی ۔شاید انہی دھمکیوں نے ہمارے ہاتھ پائوں باندھ دیے ۔ ہم اس کیفیت کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس وہ زبان ہی نہیں رہی جس سے دشمن سے مخاطب ہواجاسکے۔ جس طرح اس نے 26/11کے ممبئی حملوں‘ پھراڑی کیمپ اور پلوامہ کے ردعمل میں ہمیں مخاطب کیا تھا ہم بھول نہیں سکتے۔ گوادر‘ سوئی‘ پنجگورنوشکی‘ کوئٹہ ‘ تربت ‘ کراچی‘ پشاور ‘ لاہور اور اسلام آباد میں ہمارے دشمن نے اپنے خریدے اور سدھائے ہوئے ایجنٹوں کی جھولیوں میںڈالروں کی بھر مار کرتے ہوئے پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کی پاسبانی پر متعین جوانوں کو کہیںبم دھماکوں اور کہیں خود کش حملوں سے نشانہ بنایا۔
گزشتہ بیس برسوں میں بھارت نے پاکستان میں294خودکش حملے کرائے ہیں ۔ اگر بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جاتا تو کشمیر کی دس ہزار سے زائد مسلمان مائیں ‘بہنیں اور بیٹیاں بھارتی درندوں کی ہوس کا نشانہ نہ بنتیں نہ ہی کشمیر کی پچاس ہزار سے زائد بیٹیاں بیوہ ہوتیں اور نہ ہی دو لاکھ سے زائد بچے ‘ بچیاں یتیم ہوتے اور نہ ہی انڈین آرمی کی پیلٹ گنوں سے 154نوجوان کشمیری لڑکے اور لڑکیاں زندگی بھر کے لیے بینائی سے محروم ہوتے ۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے جوان اور70 ہزار معصوم پاکستانی بھارتی ایجنٹوں کے ہاتھوں موت کی وادیوں میں نہ پہنچتے ۔ ہر سال پانچ فروری کے دن کو فقط ریلیاں نکالنے کی رسموں تک محدود نہ کیجئے ‘بلکہ بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیجئے اور بھارت پاکستان کے خلاف جس طرح پراپیگنڈا کررہا ہے اس کا توڑ کیجئے۔ اقوام عالم کو بتائیے کہ بھارت ہی پاکستان میں دہشت گردی کا اصل محرک ہے۔ وہی مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم میں ملوث ہے اور ایل او سی پر فائرنگ کے واقعات میں ملوث ہے۔ کشمیر یوں کو اصل ضرورت تو اس کی ہے کہ عالمی سطح پر ان کی وکالت کی جائے۔